ایک بات‘ بہر طور تسلیم کرنا پڑے گی‘ وہ یہ کہ عمران خان صاحب کے اعصاب مضبوط ہیں! حد سے زیادہ مضبوط! جب وہ سامنے پڑے ہوئے گلاس کو درخت کہتے ہیں تو ان کے اعصاب کی مضبوطی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ پلک تک نہیں جھپکتے! اس اعتماد سے درخت کہتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو شک ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی درخت نہ ہو! برطانوی وزیراعظم نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی۔ ان پر جرمانہ ہوا۔ اس پر خان صاحب نے کمال کا کمنٹ دیا ''یہی قانون کی حکمرانی ہے جہاں کوئی اس سے بالاتر نہیں‘‘۔ یہ بات وہ عمران خان کہہ رہے ہیں جن کا قانون کی حکمرانی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا شیر کا بکری کے ساتھ ہے!
پاک پتن کے سینئر پولیس افسر کو جب وزیراعلیٰ کے پاس حاضر ہونے کا حکم ملا اور اس سے پوچھ گچھ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں احسن جمیل گجر نے کی تو کیا یہ قانون کی حکمرانی تھی؟ پھر جب اس افسر کو کئی سال تعیناتی کے بغیر رکھا گیا تو کیا یہ قانون کے مطابق تھا؟ جون 2018ء میں جب عمران خان ایک چارٹرڈ فلائٹ پر سعودی عرب جا رہے تھے تو زلفی بخاری کو‘ جن کا نام ای سی ایل پر تھا‘ خان صا حب کے ساتھ جانے کے لیے ''صرف ایک بار‘‘ کی خصوصی اجازت دی گئی تھی اور یہ کام گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں ہوا تھا تو کیا یہ قانون کے مطابق تھا؟ کیا بند لفافہ لہرا کر‘ اس کے مندرجات ظاہر کیے بغیر‘ کابینہ سے منظور کرانا قانون کے مطابق تھا؟ کیا جمہوریت کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا واقعہ کہیں اور پیش آیا ہے؟ کیا اربوں روپے‘ جو برطانیہ سے آئے تھے اور جو قومی خزانے میں جمع ہونے تھے‘ ایک بزنس ٹائیکون کو دے دینا قانون کی حکمرانی کا تقاضا تھا؟
عمران خان نے جس طرح خیبر پختونخوا کا سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا‘ پھر جس طرح پچھلی تاریخ سے اس کے لیے ''قانون سازی‘‘ کی گئی‘ کیا برطانیہ جیسے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا برطانیہ کا وزیراعظم کسی ایسے شخص کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنا سکتا ہے جسے اس نے خود‘ اپنی زبان سے‘ بقائمی ہوش و حواس‘ سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب دیا ہو؟ کیا برطانیہ کا وزیراعظم دوسروں کے گھر گرا کر اپنا گھر بچا سکتا ہے‘ جبکہ قانون کی خلاف ورزی یکساں ہو؟ اگر برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ برطانیہ کے وزیراعظم کو بتائے کہ جناب! آپ کے گھر میں فلاں جگہ سے قیمتی زیورات یا تحائف آرہے ہیں تو کیا برطانیہ کا وزیراعظم اس کے جواب میں ایجنسی کے سربراہ کو ہٹانے کا حکم دے گا؟ کیا برطانوی وزیراعظم اپنی ایف آئی اے کے سربراہ کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ فلاں اپوزیشن رہنما کے خلاف غداری کے اور فلاں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے کھڑے کرو؟ کیا برطانوی وزیراعظم اپنے ذاتی‘ غیر منتخب دوستوں کو بڑے بڑے سرکاری مناصب پر بٹھا سکتا ہے؟
اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان صاحب نے قوم کو بتایا ہے کہ انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پانچ ہزار جنگجوؤں اور 35ہزار افراد پر مشتمل ان کے خاندانوں کو سابق قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بظاہر واضح لگ رہا ہے کہ یہ جنگجو مسلّح حالت میں لائے جانے تھے‘ سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ کا وزیراعظم اتنا بڑا فیصلہ پارلیمنٹ سے بالا بالا کر سکتاہے؟ یہ چند مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے لیے کوئی قانون‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی ضابطہ اہم نہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جس میں ان کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس افسوسناک پس منظر کے ساتھ ان کا برطانوی وزیراعظم پر جرمانہ ہونے کے واقعہ کی تعریف کرنا ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔
اپر کلاس مہنگے سکولوں کا اصل روپ
کچھ سال پہلے بھی لاہور میں ایک شرمناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک اداکار‘ جو ایک نجی سکول میں ڈرامہ پڑھاتا تھا‘ اس واقعہ میں ملوث تھا۔ کچھ دن میڈیا میں شور شرابا رہا‘ اس کے بعد کیا ہوا؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم! ایک بار پھر ان مہنگے اور اپرکلاس سکولوں کے چہرے سے پردہ اٹھا ہے اور جو صورت نظر آئی ہے‘ خوفناک ہے۔ بارہ سالہ بچی کو جن بڑی لڑکیوں نے تشدد کانشانہ بنایا ہے‘ اس کا ایک تعلیمی ادارے میں تصور بھی محال ہے۔ بچی کے باپ کے بقول یہ ایک پورا گینگ ہے۔ بچی کے باپ کا بیان سنا جائے تو سکول انتظامیہ کو بے قصور نہیں قرار دیا سکتا۔ اس بے بس باپ کے بقول اس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سمجھوتا کر لے کیونکہ فریق مخالف طاقتور ہے۔ جب اینکر نے پوچھا کہ دباؤ کون ڈال رہا ہے تو اس نے کسی تاخیر اور کسی جھجک کے بغیر پولیس کا نام لیا۔ اگر یہ سچ ہے تو پانچ سال سے تحریک انصاف ہی کی حکومت چلی آرہی ہے تو پھر تبدیلی کے وعدوں کا کیا ہوا؟ کیا یہی وہ بدلی ہوئی پولیس ہے جس کا بہت چرچا ہے؟
اس واقعے کے کئی پہلو ہیں۔ خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر منشیات کا عفریت سر سے لے کر پاؤں تک پورے کا پورا داخل ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ والدین کیا کر رہے ہیں اور سکولوں کی انتظامیہ اس صورت حال سے بے نیاز کیوں ہے؟ اور کیا یہ تاثر درست ہے کہ انتظامیہ کے بعض ڈانڈے اس جرم سے مل رہے ہیں؟ حکومت سے کسی ایکشن کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔ حکومت میں دم خم ہوتا تو صوبائی دارالحکومت میں حکومت کی ناک کے عین نیچے ایسا جرم ہوتا ہی کیوں؟ جو والدین اس معاملے میں حساس ہیں‘ انہی کو کچھ کرنا ہو گا۔ والدین کی اکثریت اس صورت حال سے یقینا پریشان ہو گی۔ انہیں چاہیے کہ مل بیٹھیں اور ایک مؤثر لائحہ عمل طے کریں۔ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو اب انجمنیں بنانا ہوں گی اور سکولوں کے ذمہ داران سے جارحانہ انداز میں نمٹنا ہوگا۔
منشیات کی لعنت صرف بالائی طبقے کے سکولوں میں نہیں ، ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں سرایت کر چکی ہے۔ سرکاری سکولوں کا پرسانِ حال ویسے ہی کوئی نہیں، منشیات کو کون روکے گا ! یونیورسٹیوں میں لڑکوں کے علاوہ لڑکیوں کی کثیر تعداد بھی نشے کی لت کا شکار ہو چکی ہے۔ اسلام آباد کی ایک مشہور پبلک یونیورسٹی کے حوالے سے ایسی خبریں کئی بار سامنے آئی ہیں۔ اصل میں یہ ساری صورت حال ا سی نااہلی اور نالائقی کا حصہ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی ذمہ دار ہے۔ جس طرح ملک میں چوریاں اور ڈاکے عام ہو چکے ہیں ، جس طرح تھانوں اور کچہریوں میں انصاف بک رہا ہے اور جس طرح اہلِ سیاست باہم دست و گریباں ہیں ، ٹھیک اسی طرح تعلیمی ادارے بھی بد انتظامی اور نااہلی کا شکار ہیں۔ نجی شعبے کے مہنگے سکولوں میں جانے والے بچوں کا اضافی المیہ یہ ہے کہ ان کے ماں باپ کے پاس بچوں کی خبر گیری کے لیے وقت ہے نہ پروا۔ غرض ایک ہمہ گیر دلدل ہے جس میں ہم اترتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ متاثرہ لڑکی کے والد کے علاوہ دوسرے والدین کی طرف سے کسی اضطراب ، کسی پریشانی کا اظہار سامنے نہیں آیا؟ لگتا ہے بے حسی بھی عام ہو چکی ہے۔ یہی شاید اصل بد قسمتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved