تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     24-01-2023

ڈیجیٹل بینکنگ فراڈ

سر! میں آپ کے بینک سے بول رہا ہوں‘ کیا آپ مسٹر یزدانی بات کر رہے ہیں؟
جی ہاں! میں بزدانی بول رہا ہوں‘ فرمائیے!
سر میں بینک کی ہیلپ لائن سے بات کر رہا ہوں‘ آپ کا اکائونٹ بلاک ہو چکا ہے‘ اگر آپ ایک دو ضروری معلومات دے دیں تو ہم اسے آن لائن ہی اوپن کر سکتے ہیں۔
یہ مکالمہ آج سے صرف پانچ چھ روز قبل لاہور میں ہمارے ایک واجب الاحترام بزرگ کے ساتھ پیش آیا۔ ہمارے یہ مہربان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت محتاط طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ آئی ٹی کے استعمال پر اچھی دسترس رکھتے ہیں‘ وہ کچھ تحریر و تحقیق کے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک یہ کال دخل در معقولات بن کر ان کے کام میں مخل ہوئی۔ وہ جلد از جلد اس کال سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ غیرمتوقع اور غیرضروری سوالات کے بارے میں ان کے دل و دماغ میں شکوک و شبہات کی کچھ لہریں تو ابھریں مگر یہ دیکھ کر انہوں نے ان لہروں کو جھٹک دیا کہ یہ کال بینک کے عین اس ہیلپ لائن نمبر سے آئی تھی جو ان کی بینک ایپ میں محفوظ تھا۔ کال کرنے والے کا لب و لہجہ نہایت شائستہ اور پروفیشنل تھا۔ وہ ہمارے بزرگ کے بینک اکائونٹ کی کچھ معلومات سے تو پہلے ہی آگاہ تھا اور کچھ اس نے تین چار منٹ کی گفتگو میں حاصل کر لیں۔
اس ڈائیلاگ کے دوران اس نے ہمارے بزرگ محترم سے ان کا آن لائن او ٹی پی نمبر بھی معلوم کر لیا۔ کال کے اختتام پر ہمدرد کالر نے بزرگ محترم کو بتایا کہ ابھی ایک منٹ میں آپ کو اکاؤنٹ ری اوپن ہونے کا مسیح آ جائے گا۔ واقعی ایک منٹ کے بعد محترم یزدانی صاحب کو یکے بعد دیگر دو مسیجز وصول ہوئے‘ پر اکاؤنٹ ری اوپن ہونے کے نہیں بلکہ ان کے اکائونٹ سے دس لاکھ روپے بذریعہ فراڈ ٹرانسفر ہونے کے۔ ہمارے بزرگ مہربان کے اگلے دو تین روز اپنی بینک برانچ وزٹ کرنے‘ بینک کے اعلیٰ افسران کو ای میلز ارسال کرنے اور ایف آئی کی سائبر کرائمز برانچ میں رپورٹ درج کروانے میں بسر ہو گئے۔ میں نے جب کچھ دوستوں اور آن لائن ذرائع سے معلومات حاصل کیں تو مجھے یہ معلوم کرکے بہت حیرت ہوئی کہ اس طرح کے بینک فراڈ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں روز افزوں ہیں۔ میں نے اپنے ایک بزنس مین عزیز سے آن لائن فراڈوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ایک فراڈ کے بارے میں بتایا کہ چند سال قبل ان کے آفس میں ایک بڑے بینک کا ''مندوب‘‘ بن کر ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ کے بھاری اکائونٹ کو دیکھتے ہوئے بینک آپ کو یکبارگی پچاس لاکھ تک کی ٹرانسفر اور کریڈٹ سہولت دینے کی آفر کر رہا ہے۔ ہمارے عزیز نے اس سے کہا کہ میرے پاس کئی بینکوں کے کریڈٹ کارڈ ہیں۔ اگرچہ ان کی حدِ استعمال تھوڑی ہے مگر ہمیں بڑی رقم کی کریڈٹ سہولت کی ضرورت نہیں۔ بینک کے مندوب نے پوچھا کہ سر کس کس بینک کے کریڈٹ کارڈ ہیں۔ انہوں نے کئی معروف بینکوں کے کارڈ پرس سے نکالے اور میز پر رکھ دیے۔ اس بینک آفیسر نے کارڈ اٹھا کر ایک نظر دیکھے۔ لمحے بھر کو انہیں جھولی میں رکھا اور پھر انہیں وسیع تر کریڈٹ والا کارڈ لینے پر قائل کر لیا۔ اس نے بینک کے لیٹر ہیڈ سمیت چھپے ہوئے فارم پر معلومات درج کیں۔ اسی اثنا میں ہمارے عزیز کو فیملی کی ایک جواں موت کے بارے میں کال وصول ہوئی لہٰذا وہ مندوب سے فوری اجازت لے کر گھر والوں کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ ان کی روانگی کے آدھے گھنٹے کے بعد یہی ''مندوب‘‘ اب لائن مین بن کر گھر کا پی ٹی سی ایل نمبر ٹھیک کرنے کو پہنچ گیا۔ اس بزنس مین کے کریڈٹ کارڈوں پر گھر کا نمبر درج تھا۔ اس نے گھر کے ملازمین کو چکنی چپڑی باتوں سے رام کیا اور سیڑھی لے کر اوپر جاکر گھر کے لینڈ لائن نمبر سے ان کے کریڈٹ کارڈوں سے پاس ورڈ مختلف بینکوں سے بدلوا دیے۔ قصۂ مختصر غمزدہ عزیز تعزیت میں مصروف رہے اور مندوب نے ان کے مختلف بینکوں سے 42لاکھ روپے ٹرانسفر کروا لیے۔ ہمارے عزیز کو بعد ازاں کئی ہفتوں کی بھاگ دوڑ کے بعد انہیں ان کی فراڈ سے نکالی ہوئی رقم کا بیشتر حصہ وصول ہو گیا؛تاہم فراڈ کے اکثر کیسوں میں رقم واپس نہیں آتی۔ اگرچہ اب یہ آن لائن اکاؤنٹوں کی انشورنس ہوتی ہے اس لیے اگر غلطی بینک کی ثابت ہو تو پھر بینک کو صارف کے اکائونٹ میں فراڈ سے نکالی ہوئی رقم واپس جمع کرانا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بالعموم بینک تساہل سے کام لیتے ہیں۔ میری جمع کردہ معلومات کے مطابق اس وقت پاکستان میں تین طرح کے بینک فراڈ ہو رہے ہیں۔ فراڈ کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ کالر کال کرکے کہتا ہے کہ ''ماموں! میں آپ کا بھانجا بول رہا ہوں‘‘۔ آپ پوچھیں گے کونسا بھانجا؟ آگے سے وہ کہے گا کہ ماموں یہ وقت بھی آنا تھا کہ آپ نے اپنے غریب بھانجوں کو پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ بہرحال اگر کالر آپ کو شیشے میں اتار لیتا ہے تو وہ اپنی کوئی بپتا سنا کر آپ سے بینک میں کچھ پیسے ٹرانسفر کرنے کو کہے گا اور باتوں باتوں میں آپ کے اکاؤنٹ کی معلومات بھی حاصل کرے گا۔ یوں وہ کراچی کے محاورے کے مطابق آپ کو ماموں بنا دے گا۔ بینک فراڈ کا دوسرا طریقہ آن لائن بینک اکاؤنٹ ری اوپن کرنے یا اس سے ملتا جلتا کوئی عذر پیش کرکے فراڈیا آپ سے آپ کا او ٹی پی نمبر لے لے گا اور رقوم ٹرانسفر کرے گا۔ اس کی تفصیلی مثال ہم نے کالم کے آغاز میں انہی دنوں اپنے ایک بزرگ کے ساتھ پیش آنے والے فراڈ کے واقعہ میں بیان کر دی ہے۔ بینک فراڈ کا تیسرا طریقہ کریڈٹ کارڈوں کے اجرا کی خوش نما آفرز کے ذریعے اختیار کیا جاتا ہے۔ آج کل پاکستان میں ہی نہیں دوسرے کئی ممالک میں بھی آن لائن خریداری کے ذریعے طرح طرح کے بینک فراڈ ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے بزرگ یزدانی صاحب کے ساتھ آن لائن اکائونٹ معلومات کے ذریعے فراڈ ہوا۔ اس طرح کی وارداتوں میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آن لائن بینک فراڈ اور جعل سازی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے بینکنگ محتسب کو اس تشویشناک رجحان کا سختی سے نوٹس لینے کی ہدایت کی ہے۔ صدرِ مملکت نے ایک بیان میں کہا کہ نوسرباز خود کو بینک کا اہلکار ظاہر کرکے صارفین کی ذاتی بینکنگ معلومات حاصل کرکے شہریوں کی رقم آن لائن ذرائع سے نکلوا لیتے ہیں۔ ہمارے بزرگ نے جب لاہور میں اپنے بینک کے منیجر کو اپنا موبائل فون چیک کروایا جس میں فراڈ کرنے والے نے عین اس نمبر سے کال کیا جو اس بینک کی ہیلپ لائن کا نمبر ہے۔ اس سوال کا بینک منیجر کے پاس آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا۔ نیز اس ایک ہفتے کے دوران بینک کی طرف سے انہیں ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ جن بینک اکائونٹس پر نوسرباز نے دس لاکھ ٹرانسفر کیے‘ ان کی کیا رپورٹ ہے؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ملک میں بینک کے آن لائن صارفین میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ بظاہر یہ بہت بڑی سہولت ہے کہ آپ ملک کے اندر یا بیرونِ ملک جہاں کہیں ہوں‘ وہاں سے اپنے بلز اور دیگر ادائیگیاں پلک جھپکتے میں آن لائن کر دیں۔ سٹیٹ بینک تمام بینکوں کو اپنا سائبر سسٹم بہتر بنانے کی ہدایت بھی جاری کرے۔ہم صدرِ پاکستان سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ سختی سے بینکنگ محتسب کو تنبیہ کریں کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ کسی شہری کی حق حلال کی کمائی یوں نہیں لٹنی چاہیے۔ ڈاکٹر عارف علوی شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ انہیں یاد ہوگا کہ اس بارے میں ساغر صدیقی نے کیا کہا تھا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved