تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-09-2013

سرخیاں بھی اور تاریخ بھی

سابق صدر زرداری نے اپنے دور اقتدار میں‘ دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہم سرخیاں بنانے نہیں‘ تاریخ بنانے آئے ہیں۔‘‘ مگر یہ دعویٰ درست ثابت نہ ہو سکا۔ انہوں نے سرخیاں بھی بنائیں اور تاریخ بھی۔ سرخیاں بنانے والے زیادہ تر صدور فوجی تھے اور ان کے آمرانہ فیصلوں کی سرخیاں بنا کرتی تھیں۔ آمریت میں دوسرا کوئی ہوتا ہی نہیں‘ جس کی سرخیاں بنائی جا سکیں۔ صدر زرداری ایک جمہوری صدر تھے۔ اس کے باوجود جتنی سرخیاں ان کی لگیں‘ کسی جمہوری صدر کی نہیں لگی ہوں گی۔ جمہوری صدر ‘ محض آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ جیسے فضل الٰہی چوہدری اور جسٹس (ر) رفیق تارڑ تھے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ شاذونادر ہی خبروںمیں آتے تھے۔ میں مرحوم آئینی شق 58(2)B والے صدور کی بات نہیں کر رہا‘ ان کی سرخیاں بہت لگی ہیں۔ جن میں عموماً منتخب حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹیاں ہوتی تھیں اور وہ یہ گھنٹی بجا بھی دیتے تھے۔ اسحق خان نے بھی حکومتیں برطرف کیں اور فاروق لغاری نے اپنی اسی لیڈر کی حکومت برطرف کی‘ جس نے انہیں صدر منتخب کرایا تھا۔ صدر آصف زرداری کو دونوں طرح کی صدارت ملی۔ آمرانہ بھی اور جمہوری بھی۔ منصب سنبھالا‘ تو ان کے پاس آمرانہ اختیارات تھے اور ایک ہی سال کے بعد انہوں نے یہ اختیارات پارلیمنٹ کے سپرد کر کے‘ خود کو علامتی سربراہ بنا لیا۔ آمریت سے جمہوریت کا یہ سفر انہوں نے اپنی خواہش‘ خوشی اور مرضی سے مکمل کیا۔ اپنے دونوں ادوار میں سرخیوں پر ان کا قبضہ رہا لیکن ہوتی ان کی مخالفت میں تھیں۔ جب تک وہ آمرانہ اختیارات کے حامل رہے‘ تو سرخیاں ان کے خلاف لگا کرتی تھیں۔ جن پر عموماً ایک ہی موضوع حاوی رہتا کہ صدر زرداری اختیارات چھوڑنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ وہ آمریت کے مزے لینا چاہتے ہیں۔ وہ آئین میں ترمیم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اختیارات پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور جب انہوں نے سارے اعتراضات دور کرتے ہوئے 1973ء کا آئین بحال کر دیا‘ تو سرخیوں کا منبع سپریم کورٹ آف پاکستان بن گئی اور ہر ہفتے کی سب سے زیادہ سرخیاں پھر صدر زرداری کے خلاف ہی رہیں۔ اس بار موضوع سوئس مقدمات ہوتے تھے۔ صدر کو استثنیٰ ہے یا نہیں؟ آئین میں سوال کا واضح جواب موجود ہے۔ مگر اسے بحث طلب کر دیا گیا۔ صفائی کے وکیل کہتے صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اور عدالت عظمیٰ سے جواب ملتا کہ یہ سوال ہمارے سامنے لے کر آیئے۔ فیصلہ ہم کریں گے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں۔ مقدمہ چلتا رہا۔ سرخیاںلگتی رہیں۔ نہ حکومتی وکیلوں نے استثنیٰ کا سوال عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھا اور نہ اس کا جواب آیا۔ لیکن سرخیاں چلتی رہیں۔ سرخیوں کا دوسرا موضوع سوئس حکومت کو خط لکھنے کا سوال تھا۔ پھر سرخیاں اس پر چلتی رہیں‘ جو ظاہر ہے صدر زرداری کے خلاف ہوتیں۔ خط تو نہیں لکھا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر گیلانی صاحب کے ہاتھ خالی نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بہت کچھ بھر لیا تھا۔ اتنی بڑی بڑی رقمیں پڑھنے میں آئیں‘ جو پہلے سٹاک مارکیٹ کی کمپنیوں کے اشتہارات میں تو چھپا کرتی تھیں۔ مگر کسی فرد کے حوالے سے کم دیکھنے میں آیا کرتیں۔ سنا ہے کہ اب وہ رقمیں دوبئی میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا گیلانی صاحب سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا۔ کوئی ان سے بھی زیادہ سمجھدار ‘ ہاتھ مار گیا۔ گیلانی صاحب کے بعد راجہ پرویزاشرف وزیراعظم بنے۔ کہنے کو وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے لیکن ان کی تمام تر کارکردگی کا مرکز ‘ان کا حلقہ انتخاب ہی رہا۔مگر ان کے دور میں خط کا قصہ پاک ہو گیا۔ساتھ ہی زرداری صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا کہ وہ سرخیاں بنانے نہیں آئے‘ سرخیاں ان پر ہی بنتی رہیں۔ البتہ بنانے کا اعزاز مخالفین کو حاصل ہے۔ جہاں تک تاریخ بنانے کا تعلق ہے‘ تو اپنے اس دعوے کو انہوں نے یقینا بڑے اعتمادسے درست ثابت کیا۔اس کا سب سے بڑا ثبوت بطور صدر اپنے عہدے کی میعاد پوری کرنا ہے۔ یہ اعزاز پاکستان کے کسی منتخب صدر کو آج تک حاصل نہیں ہوا۔ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں ‘ آصف زرداری پہلے صدر ہیں‘ جنہوں نے نہ صرف اپنے عہدے کی میعاد پوری کی بلکہ ایوان صدارت سے اپنی رخصت کو بھی قومی تاریخ کے ایک منفرد باب میں بدل دیا۔ پاکستان میں صدر تو بہت سے بنے لیکن عزت سے کوئی نہیں گیا اور جو عزت سے گیا‘ وہ اپنے منصب کی مقررہ میعاد پوری نہ کر سکا۔ یہ تاریخی اعزاز بھی آصف زرداری نے حاصل کیا۔ وہ گارڈ آف آنر ہی لے کر نہیں گئے بلکہ ایک نئی منتخب حکومت کے سربراہ سے خراج تحسین بھی لے کر گئے اور ان کے اعزاز میں جو الوداعی ظہرانہ وزیراعظم نوازشریف نے دیا‘ وہ بھی قومی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ گارڈ آف آنر تو پرویزمشرف کو بھی ملی تھی۔ مگر وہ آج تک متنازعہ ہے اور عزت تو گارڈ آف آنر کے باوجود پرویزمشرف کو نہیں ملی۔ آصف زرداری کی گارڈ آف آنر کا امتیاز یہ ہے کہ اس کا فیصلہ عوام کی بھرپور تائید و حمایت سے منتخب ہونے والے طاقتور ترین وزیراعظم نے کیا۔ سابق صدر زرداری کا سب سے بڑا کارنامہ 18ویں آئینی ترمیم ہے۔ اس ترمیم کے تحت سابق آمروں کے متعدد غیرجمہوری اقدامات کالعدم قرار دے دیئے گئے۔ فوجی صدر پرویزمشرف کی خودساختہ اسمبلی سے 17ویں آئینی ترمیم اور لیگل فریم ورک آرڈر کو منسوخ کر دیا گیا۔ 58(2)B جس کے تحت 3منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجاگیا تھا‘ اسے ختم کر دیا گیا۔ جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ بحال کرنے کے لئے‘ متعدد وزارتیں صوبوں کو منتقل کر دی گئیں ۔وفاق اور صوبائی حکومتوں کے لئے مسلسل فساد کی جڑ ‘قانون سازی کی مشترکہ فہرست (کنکرنٹ لسٹ)کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اب صوبوں اور وفاق کے درمیان قانون سازی کے اختیارات کی تقسیم واضح کر دی گئی ہے۔ ججوں کی تقرری کے لئے عدالتی کمیشن اور پارلیمانی کمیٹیوں کا طریقہ کار تشکیل دیا گیا‘ جو نافذ العمل ہو چکا ہے۔ 20ویں آئینی ترمیم میں الیکشن کمیشن کی تقرری کے لئے حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے کو ضروری بنا دیا گیا۔ اسی طرح متعدد آئینی اداروں کے سربراہوں کی تقرری میں بھی حزب اختلاف کا کردار لازم کر دیا گیا۔ جیسے کہ نیب کے سربراہ کا تقرر۔ صدر زرداری نے ‘ آمروں کے لئے بنائی گئی نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی سربراہی بھی وزیراعظم کو منتقل کر دی‘ جو فوجی حکمرانوں نے یہ سوچ کر اپنے لئے مخصوص کر رکھی تھی کہ آئندہ پاکستان میں یا تو خود فوجی صدور آئیں گے یا انہی کے لائے ہوئے صدور۔ جیسے اسحق خان اور فاروق لغاری تھے۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی‘ ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے اہم ترین ادارہ ہے۔آج کل جب فوج اور وزیراعظم کے درمیان تعلقات کے حوالے سے مختلف خبریں آتی ہیں‘ تو یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ ملک کے سب سے طاقتور دفاعی ادارے کا کنٹرول وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے اور جو آخری بات وزیراعظم کے اختیار کو کامل بنانے کے لئے ضروری تھی‘ وہ ہے حزب اختلاف کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ۔ اس کمٹمنٹ نے میثاق جمہوریت سے جنم لیا اور نوازشریف نے بطور قائد حزب اختلاف‘ اس کی پوری طرح پاسبانی کی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی سازشی عناصر نے‘ جمہوریت کے خلاف سازش کر کے‘ ایوان صدر کے خلاف فوجی یا کسی دوسرے ادارے کی طرف سے کارروائی کا راستہ ہموار کیا‘ نوازشریف دیوار چین بن کر اس کی راہ میں کھڑے ہو گئے۔ جمہوریت کا مسلسل 5سال تک برقرار رہنا‘ نوازشریف اور آصف زرداری کا مشترکہ کارنامہ ہے اور نوازشریف کے دور حکومت کی ابتدا سب سے بڑی حزب اختلاف کے سربراہ آصف زرداری کے اس وعدے کے ساتھ ہوئی کہ ’’میاں صاحب! جمہوریت اور آپ کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ نئی جمہوری روایات کا آغاز کم از کم آئینی بالادستی کی حد تک خوشگوار انداز میں ہوا ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت اس وقت تک بامعنی نہیں ہو سکتی‘ جب تک سماج کی ساخت نہیں بدل جاتی۔ سرمایہ دارانہ‘ جاگیردارانہ‘ نوکرشاہانہ اور مختلف اداروں کے اندر آمرانہ رویوں کے ہوتے ہوئے ‘ حقیقی جمہوریت نہیں آ سکتی۔ اس کے لئے ہمیں ارتقا کے ناگزیرمراحل طے کرنا ہوں گے۔ آصف زرداری اپنی کردار کشی کا جو ریکارڈ لے کر ایوان صدر میں گئے تھے‘ اپنے 5سال کے عہد صدارت میں انہوں نے عملاً سارے الزامات کی تردید کر دی۔ جس دور میں ان پر الزامات لگائے گئے‘ وہ بااختیار نہیں تھے اور اختیارات کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچ کر‘ انہوں نے جو 5سال گزارے‘ ان کی ذات پر کوئی جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جا سکا۔ مخالفین کچھ کہتے رہیں لیکن زرداری نے اپنا دور صدارت اعلیٰ ترین جمہوری رویوں اور مزاج کے ساتھ پورا کیا۔ غلام اسحق خان کو تو یہ مصرعہ پڑھنے کا ہرگز حق نہیں تھا ۔ لیکن آصف زرداری فخر سے کہہ سکتے ہیں ہر داغ ہے اس دل پہ بجز داغِ ندامت اورآخر میںبی بی سی کا یہ تبصرہ کہ ’’صدر زرداری ‘ معروف جادوگر ہوڈینی ثابت ہوئے‘ جو کہ بڑے سے بڑے مسئلے سے بھی باہر نکل آتا تھا۔‘‘صدر زرداری کو مخالفین نے بارہا زنجیروں میں جکڑنے‘ قبر میں بند کرنے اور طرح طرح کے بندھنوں میں باندھنے کی جتنی بھی کوششیں کیں‘ آصف زرداری بڑی ہنرمندی اور چابک دستی سے‘ باہر نکلتے رہے۔بلاشبہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے قدآور سیاستدان ثابت ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved