آخرِ کار کراچی کے بلدیاتی الیکشن ہوگئے۔ اہلِ کراچی نے جیسے تیسے اظہارِ رائے کردیا۔ کرنا ہی تھا! ایک زمانے کے ترسے ہوئے تھے۔ ٹرن آؤٹ جمہوری اقدار و روایات کے تناظر میں بہت حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جاسکتا مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد روکنے کے حوالے سے جو کچھ کیا جارہا تھا‘ اُس نے شہرِ قائد کے مکینون کو انتہائی بد دِل اور بدگمان کردیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن ملک بھر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں کبھی اہم نہیں رہے۔ گراس روٹ لیول کی نمائندگی ممکن بنانے کے لیے جو کچھ پورے خلوص اور لگن کے ساتھ کیا جانا چاہیے‘ وہ کبھی نہیں کیا گیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان تک عوام کی رسائی آسان نہیں۔ چند گلیوں کے کونسلرز تک لوگ آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور اپنے مسائل سے اُنہیں آگاہ کردیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ عوام بلدیاتی الیکشن چاہتے ہیں تاکہ اُن کے نمائندے ان کے کام کرسکیں۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ کم و بیش ڈھائی سال سے رُلا ہوا تھا۔ اب ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ والا معاملہ ہوا ہے۔ عوام مطمئن ہیں کہ کسی نہ کسی طور یہ مرحلہ طے تو ہوا۔ بلدیاتی الیکشن کے بطن سے عوام کے مسائل کا حل برآمد ہوسکے گا یا نہیں‘ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ مسائل کے ڈھیر لگے ہیں۔ شہرِ قائد میں مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ صفائی کا نظام قابو میں ہے نہ پانی کی فراہمی کا۔ بجلی کی فراہمی کا معاملہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے نظام کی کیفیت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کراچی بھر میں سٹریٹ کرمنلز دندناتے پھر رہے ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں! کوئی بھی شخص‘ کہیں بھی لُٹ جاتا ہے۔ لٹیروں کی دیدہ دِلیری اِس قدر ہے کہ شہریوں کے دل بیٹھے جارہے ہیں۔ پولیس اس خطرناک صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈھنگ سے کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سب کچھ شہریوں میں مایوسی کا گراف بلند کرنے کے لیے کافی ہے۔ شہر بھر میں سڑکیں بہت بری حالت میں ہیں۔ شہر کو چلانے والے اداروں کی کارکردگی اس لیے بہتر نہیں ہو پارہی کہ اُن کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں پر صرف ہو جاتا ہے۔ اوور سٹافنگ بھی خطرناک حد تک ہے۔ بیٹھ کر کھانے یعنی کام نہ کرنے والوں نے الگ 'وختہ‘ ڈال رکھا ہے۔
کراچی میں گزشتہ ہفتے کے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے 93 نشستیں لی ہیں جبکہ جماعتِ اسلامی کی تازہ ترین پوزیشن 86 ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی ''کنگ میکر‘‘ بن کر ابھری ہے۔ جماعتِ اسلامی نے انتخابی دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ اس معاملے میں پی ٹی آئی بھی اُس کی ہم نوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کراچی کو آئندہ چار برس تک کس طور چلایا جائے؟ جماعتِ اسلامی رابطوں میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی جماعت اسلامی سمیت کئی جماعتوں سے رابطہ کیا ہے۔ صوبائی کابینہ کے رکن سعید غنی کہہ چکے ہیں کہ میئر لانے کے لیے پی ٹی آئی سے بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ عوام کی سوچ کیا ہے، وہ کیا چاہتے ہیں، وہ کسے میئر کے منصب پر دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعتِ اسلامی نے ایک عشرے کے دوران کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ عوام کو لاحق ہر بحران کے تدارک میں جماعتِ اسلامی کا نمایاں کردار رہا ہے۔ بجلی کے معاملے میں جماعتِ اسلامی خاص طور پر پیش پیش رہی ہے۔ جب شہر میں اہلِ اقتدار کے خلاف کچھ کہنا مصائب کو دعوت دینے کے مترادف تھا‘ تب بھی جماعتِ اسلامی ہی صدائے احتجاج بلند کرتی تھی، اپنا کردار کسی نہ کسی طور ادا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ کراچی میں پیپلز پارٹی بھی موجود رہی ہے مگر اُس کی جڑیں زیادہ گہری نہیں۔ چند ہی علاقے ہیں جنہیں پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاسکتا ہے۔
کراچی میں کس کا میئر زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے؟ جماعتِ اسلامی کا یا پیپلز پارٹی کا؟ یہ مرحلہ جاں گُسل ہے۔ کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جانا ہے۔ جماعتِ اسلامی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ عوام نے اُس پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یہ اعتماد اُسے بہتر کارکردگی کی تحریک دے سکتا ہے اور دے گا۔ اس مرحلے پر جماعتِ اسلامی کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کنگ میکر کی حیثیت سے میدان میں ہے۔ اُس کے جھکاؤ سے کوئی بھی میئر بن سکتا ہے۔ سعید غنی دو ٹوک انداز سے کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی سے بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے میں جماعتِ اسلامی کے پاس دو آپشنز ہیں۔ وہ پی ٹی آئی سے بھی مل کر اپنا میئر لاسکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پی پی پی سے ہاتھ ملانے کا آپشن بھی ہے۔ پی پی پی کے پاس صرف جماعتِ اسلامی کا آپشن ہے۔ کراچی روایتی طور پر جماعتِ اسلامی کا گڑھ تھا اور اس نے 1979ء سے 1987ء تک مسلسل دو بار میئر شپ کے ذریعے اہلِ کراچی کی خدمت کی اور اس دوران عبدالستار افغانی مرحوم نے میئر کی حیثیت سے کراچی کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی اور ذاتی حیثیت میں بھی دیانت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ پیپلزپارٹی نے کبھی جماعتِ اسلامی کو اپنی غیر معمولی یا کٹر حریف کے طور پر نہیں لیا۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جماعتِ اسلامی کراچی نے کبھی ایسا پی پی پی مخالف رویہ نہیں اپنایا کہ معاملات درست کرنے کی راہ باقی ہی نہ رہے۔ ایم کیو ایم کی آمد سے قبل جماعتِ اسلامی کراچی کی بنیادی سٹیک ہولڈر تھی اور اس نے اپنے ٹریک ریکارڈ سے ثابت بھی کیا تھا کہ وہ کراچی کو نہ صرف اَون کرتی ہے بلکہ اُس کے درد کو بھی سمجھتی ہے اور اُس کے مسائل حل کرنا بھی جانتی ہے۔ ایم کیو ایم آئی تو عوامی رجحانات تبدیل ہوگئے۔ لسانیت کی لہر چلی تو جماعتِ اسلامی سمیت تمام غیر لسانی جماعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔ پیپلز پارٹی بالکل پس منظر میں چلی گئی۔ جماعتِ اسلامی کسی حد تک سلامت رہی؛ تاہم وہ اپنے آپ کو منوانے میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ لسانی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کی لہر اس قدر شدید تھی کہ قومی سطح کی سوچ رکھنے والی جماعتوں کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہ رہی۔ سوال صرف جماعتِ اسلامی کی ناکامی کا نہ تھا۔ دیگر جماعتیں بھی گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ اب اس بات کی گنجائش پیدا ہوئی ہے کہ ایم کیو ایم سے ہٹ کر کوئی سیٹ اَپ لایا جائے۔ جماعتِ اسلامی بھی اپنا میئر لاسکتی ہے اور پیپلز پارٹی بھی۔ سعید غنی کہہ چکے ہیں کہ جماعتِ اسلامی سے بات ہوسکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے ہوئے بھی ہیں۔ ایسے میں اہلِ شہر یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور وہ کروٹ شہر کے حق میں ہوگی یا نہیں۔ اہلِ کراچی سرِ دست ایسا سیٹ اَپ چاہتے ہیں جس میں شہر کے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو۔
میئر شپ کے حوالے سے پائی جانے والی عمومی رائے کی بہت اہمیت ہے۔ لوگ ایسا سیٹ اَپ چاہتے ہیں جس میں ہم آہنگی نمایاں ہو۔ وہ کسی بھی سطح پر اختیارات اور وسائل کی تنگی دیکھنے کے متمنی نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اختلافات اور تضادات کو ایک طرف ہٹاکر شہرِ قائد کے تمام بنیادی مسائل حل کرنے پر پوری توجہ دی جائے۔ ایم کیو ایم تو انتخابی میدان میں اُتری ہی نہیں۔ ایسے میں جماعتِ اسلامی اور پی پی پی ہی رہ گئی ہیں۔ اس وقت جماعتِ اسلامی کے لیے بہترین آپشن یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اپنا میئر لائے۔ یہ اگرچہ کوئی مثالی معاملہ نہیں؛ تاہم زمینی حقیقتوں سے نزدیک ترین ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ کراچی کو دستیاب مالی وسائل کی فراہمی بھی اُسی وقت جاری رہ سکتی ہے جب شہری حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان تال میل ہو۔ پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کو شہرِ قائد کا نظم و نسق چلانے میں زیادہ الجھنوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پی پی پی کے چند حالیہ اقدامات کراچی کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر بھی کرتے ہیں۔ معقولیت اِسی میں ہے کہ جماعتِ اسلامی اور پی پی پی کراچی کے حوالے سے ایک دوسرے کے مدِمقابل نہ ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved