پوٹھوہار کے دامن میں تاریخ کے کتنے ہی خزانے ہیں‘ تلاش میں نکلیں تو ہر موڑ پر نیلم و مرجان نظر آتے ہیں۔ پوٹھوہار کے شہروں میں ایک قدیم شہر جہلم ہے جہاں سے ایک دریا گزرتا ہے جس کے کناروں پر تاریخ کے کئی ادوار کی نشانیاں ہیں۔ انہی نشانیوں میں ایک نشانی وہ گھر ہے جہاں کبھی اوتار نارائن اور پشپا رہا کرتے تھا۔ یہ بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ اوتار نارائن جہلم کا ایک نامور وکیل تھا۔ اس نے لاہورسے بی اے اور پھر ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس زمانے میں خال خال لوگ تعلیم کے اس بلند زینے تک پہنچتے تھے۔
اوتارنارائن نے وکیل بن کر اپنی وضع قطع انگریزوں جیسی کر لی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں 'صاحب‘ بن گیا تھا‘ لیکن پھراس کی زندگی میں انقلاب آیا اور وہ گاندھی کی تعلیمات اور لالہ لاجپت رائے کی شخصیت کا اسیر ہو گیا۔ ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد زور پکڑ رہی تھی اور پھر ایک دن گاندھی نے اعلان کیا کہ تمام بدیسی اشیاکا بائیکاٹ کیا جائے اور مقامی چیزوں کو رواج دیا جائے۔ تب ایک دن اوتار نارائن نے اپنے سوٹ‘ ٹائیاں اور اس کی بیوی پشپا نے اپنی ساڑھیاں اور بلاؤز اور پیٹی کوٹس کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا۔ یہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا جس میں سادگی‘ عام لوگوں سے وابستگی اور ہندوستان کو فرنگیوں سے آزاد کرانے کا عزم تھا۔ جدوجہد کے اس زمانے میں اوتار نارائن کو جیل بھی جانا پڑا۔
یہی وہ گھرانا تھا جہاں اِندر کمار نے جنم لیاجو بعد میں آئی کے گجرال کے نام سے مشہور ہوا اور ہندوستان کا بارہواں وزیر اعظم منتخب ہوا۔ لیکن یہ گھرانا صرف آئی کے گجرال کی وجہ سے نہیں جانا جاتا۔ اوتار نارائن اور پشپا کے ایک اور بیٹے ستیش گجرال نے بھی پینٹنگ‘ مجسمہ سازی اور آرکیٹیکچر میں دنیا بھر میں نام کمایا۔میں شاید ستیش کی کہانی سے محروم رہتا لیکن ایک بار جہلم کے دو محبت کرنے والے بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے مجھے اس کی سوانح عمری A Brush with Lifeکا تحفہ دیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ کتاب میرے لیے کس طلسمِ ہوش رُبا کا در کھولنے جا رہی ہے۔
گھر پہنچ کر یہ کتاب میں نے دو دن میں ہی ختم کرلی اور پھر ایک روز میں بھی کتاب کی انگلی پکڑ کرپرانے راستوں پر چلتا ہوا جہلم کے شمالی محلے میں اس گھر تک پہنچ گیا جہاں کبھی اوتارنارائن‘ پشپا اور ان کے بچے رہتے تھے۔ ستیش گجرال کی پیدائش بھی اسی گھر میں ہوئی تھی۔ یہ 25 دسمبر کا دن تھا اور 1925ء کا سال۔ جب ستیش ذرا بڑا ہوا تو اوتار نارائن نے اسے محلے کے ایک سکول میں داخل کرادیا۔ سکول کیا تھا‘ یہ دیوان چند جھلا کا گھر تھا جہاں وہ بچوں کو پڑھاتا تھا۔ اوتارنارائن کے پاس پیسے کی کمی نہیں تھی لیکن وہ مستحق لوگوں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ان دکانوں سے چیزیں خریدتا تھا جو عام سی ہوں صرف اس خیال سے ان کی مدد ہو جائے گی۔ ستیش کے چھوٹے سے ذہن میں یہی بات آئی کہ دھیان چند کی مدد کی جائے۔ جس دن بارش ہوتی سکول میں چھٹی ہو جاتی۔ ستیش کو یاد ہے کہ کیسے دھیان چند کی بیوی اسے سودا سلف لینے قریبی ہٹی پر بھیجا کرتی تھی اور کیسے وہ آلو چھیلنے اور مٹروں سے دانے نکالنے میں اس کی مدد کیا کرتا تھا۔ ان کے بڑے گھر کے گیراج میں ایک کار اور دو بھینسیں ہوتی تھیں۔ یہ بھینسیں اس کی ماں پشپاکو جہیز میں ملی تھیں۔ کار گیراج میں کھڑے کھڑے بیکار ہو گئی تھی۔ پشپا نے اس کی سیٹیں نکال کر گودام میں رکھ دی تھیں جب مہمان زیادہ ہوتے تو ان سیٹوں کو گودام سے نکال لیا جاتا۔ کار کے ٹائروں کو دیوار پر ڈیکوریشن کے لیے آویزاں کر دیا گیا تھا۔ ٹائروں کی ٹیوبیں نکال کر بچے ان کی مدد سے جہلم کے دریا میں تیرتے تھے۔ ستیش کو یاد ہے کہ وہ ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں جموں جایا کرتے تھے۔ اس دن کا سب بچوں کو انتظار ہوتا۔ ضروری سامان لے کر ایک ٹرک میں رکھا جاتا یہ ٹرک ہیرا سنگھ کا تھا۔یوں تو جہلم اور جموں کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں لیکن سڑک کچی اور ٹوٹی پھوٹی ہونے کی وجہ سے انہیں بارہ گھنٹے لگ جاتے۔ کبھی کبھار چلتے چلتے ٹرک رُک جاتا تو سواریوں کو اتارا جاتا اور سب مل کر ٹرک کو دھکا لگاتے۔ ہیرا سنگھ ٹرک چلاتے ہوئے پنجابی کے لوک گیت گاتا اور ایک ہاتھ سے ڈیش بورڈ پر میوزک بھی بجاتا۔ ستیش کی ماں پشپا کو ہیرا سنگھ کی آواز بہت اچھی لگتی تھی۔ یوں ہیرا سنگھ کے گیتوں میں سفر خوب گزرتا۔
جموں میں بچوں کو کھیلنے کی آزادی مل جاتی۔ ستیش اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ہمراہ دن بھرکھیلتا تھا۔ پھر ایک دن ایسا ہواکہ کھیلتے کھیلتے اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ ہوا یوں کہ وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ تیز بہتا پانی تھا جس کے درمیان بڑے بڑے پتھر پڑے تھے اس نے چھلانگ لگا کر ایک بڑے پتھر پر پاؤں جمائے‘ اس سے کچھ فاصلے پر ایک اور پتھر تھا اور درمیان میں تیزپُر شور پانی۔ ستیش کی عمر آٹھ دس برس ہو گی۔ پہلی کامیابی کے بعد اس نے دوسرے پتھر پر چھلانگ لگائی لیکن اس بار پتھر سے اس کے پاؤں پھسل گئے اور وہ تیز پُر شور پانیوں میں گر گیااور پانیوں کے بہاؤ کے ساتھ بہنے لگا۔ تب اس کا پاؤں ایک پتھر سے اٹک گیا۔ اب پانی اس کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ بچوں نے شور مچایا تو کچھ راہگیر تیز بہتے پانی میں داخل ہوئے اور اسے اٹھا کر گھر لے آئے۔ اس کے جسم پر یہاں وہاں زخم تھے اور وہ تیز بخار میں جل رہا تھا۔ اسے سری نگر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے ایکسرے اور ٹیسٹ کیے اور بتایا کہ اس کی ٹانگ فریکچر ہو گئی ہے اور انفیکشن کی وجہ سے تیز بخار ہے۔ ڈاکٹروں نے مزید بتایا کہ اگر انفیکشن کو پھیلنے سے روکنا ہے تو ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ اوتار نارائن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہ تھی۔ وہ اسے لاہور لے آئے یہاں کے ڈاکٹروں نے طویل معائنے اور ٹیسٹوں کے بعد بتایا کہ سری نگر کے ڈاکٹروں کی رائے درست تھی انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ٹانگ کاٹنا ضروری ہے۔ ایسے میں ستیش کی ماں پشپا نے اپنے شوہر اوتار نارائن کو قائل کر لیا کہ وہ ہسپتال کے ڈاکٹروں کے علاج کرانے کے بجائے جہلم کے قریبی گاؤں ملوٹ میں ایک حکیم کے پاس جائیں گے جس کی شہرت اردگر دکے گاؤں تک پھیلی ہے۔ ستیش کو چارپائی پر ڈال کر حکیم کے پاس لایا گیا اس نے زخمی ٹانگ کا معائنہ کیا‘ کچھ جڑی بوٹیوں کے آمیزہ تیار کیا اور کاغذ کی ایک بتی بنا کر یہ آمیزہ زخم کے اندر ڈال دیا۔ ستیش کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے زخم پر مرچیں چھڑک دی گئی ہیں۔وہ درد سے کراہتا اور چیختا رہا۔ اس کی چیخیں دور دور تک سنی جا رہی تھیں۔ حکیم نے بتایا کہ درد سے کچھ تکلیف تو ہو گی لیکن یہ ٹھیک ہو جائے گا۔ گھر آکر ستیش کو گہری نیند نے آلیا۔ اگلی صبح وہ جاگا تو ہر روز کی طرح صبح کے پرندوں کی آوازیں نہیں آرہی تھیں نہ ہی گھر میں برتنوں کا شور تھا اورنہ ہی گھر والوں کی باتوں کی آوازیں۔ ستیش نے گھبرا کر ماں کو آواز دی تو اسے اپنی ہی آواز سنائی نہ دی۔ وہ گھبرا کر صحن میں آگیا اس نے دیکھا کہ اس کی ماں اس کی آواز سن کر لپک کر اس کی طرف آرہی ہے۔ وہ کچھ بول رہی تھی لیکن ستیش کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا‘ صرف ماں کے ہونٹ ہلتے نظر آ رہے تھے۔ اچانک ایک خیال اس کے ذہن میں آیا اور وہ کانپ کر رہ گیا۔کہیں ایسا تو نہیں وہ سننے کی حِس سے محروم ہو گیا ہے؟(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved