تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     25-01-2023

عام انتخابات کا اعلان کیا جائے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو شاید ان زمینی حقائق کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ اپنے خلاف معزز عدالتوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چلنے والے اہم کیسوں کے فیصلوں میں نااہل بھی قرار دیے جا سکتے ہیں اور ان کے پارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی محروم ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے بظاہر عمران خان کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی صورت میں جوابی ایکشن پلان تیار کر لیا ہے۔ شنید ہے کہ چیئرمین شپ سے ہٹانے کی صورت میں عمران خان کو پارٹی کا پیٹرن اِن چیف بنایا جائے گا اور خان صاحب نئے عہدے کے ساتھ تمام اختیارات اور سربراہی جاری رکھ سکیں گے۔ خان صاحب کو پیٹرن اِن چیف بنانے کیلئے پارٹی قوانین میں بھی تبدیلی نہیں کی جائے گی کیونکہ پیٹرن اِن چیف بنانے کی پارٹی قوانین میں پہلے ہی سے گنجائش موجود ہے۔ ویسے بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 تا 205 کی روشنی میں خان صاحب کو پارٹی کے دستور میں ترامیم کرنے کا حق بھی حاصل ہے جس کے تحت پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی‘ ورکنگ کمیٹی اور کور کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں پارٹی کے دستور میں ترامیم کرائی جا سکتی ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو پارٹی دستور میں ترامیم کی دستاویزات بھجوانی ہوتی ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 کے تحت اُن ترامیم کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ پارٹی کی چیئرمین شپ سے محروم کرنے کی صورت میں خان صاحب کو پیٹرن اِن چیف بنانے کیلئے اس معاملے کو پارٹی کی کورکمیٹی میں رکھا جائے گا اور پھر وہاں سے توثیق کے بعد خان صاحب کو پیٹرن اِن چیف کے عہدے پر پارٹی کی سربراہی کیلئے بٹھایا جائے گا لیکن ایسی صورت میں عمران خان پارٹی کے اہم فیصلوں کیلئے کسی دستاویز پر دستخط کرنے کے اہل نہیں ہوں گے‘ محض زبانی احکامات دینے کی پوزیشن میں ہوں گے اور تو اور وہ پارٹی ٹکٹ ایوارڈ پر دستخط کرنے کے بھی مجاز نہیں ہوں گے۔
عمران خان کے اپنی جماعت کے پیٹرن اِن چیف بننے کی صورت میں اُن کی جماعت میں وہی پوزیشن ہو گی جو اس وقت نواز شریف کی اپنی جماعت میں ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں تمام اہم معاملات پر نواز شریف سے مشاورت تو کی جاتی ہے لیکن اُن کے دیے گئے احکامات پر عملدرآمد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہی کرتے ہیں اور نواز شریف کسی بھی دستاویز پر دستخط کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ گوکہ نواز شریف کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے‘ اس کے باوجود ان کی پارٹی میں تقسیم کا تاثر موجود ہے لیکن اس کے برعکس تحریک انصاف میں اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو بطور پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ‘ عمران خان کی اپنی پارٹی پر گرفت کمزور ہو جائے گی اور پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی محدود ہو جائیں گی اور اس کے اثرات انتخابات پر بھی لازمی پڑیں گے کیونکہ ایسی صورت میں تحریک انصاف کا ووٹر بھی پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ لہٰذا عمران خان کے پارٹی کا سرپرستِ اعلیٰ بننے سے قبل ہی اُن کی پارٹی کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔میری ناقص رائے میں خان صاحب کو ڈٹ کر اپنے خلاف زیر سماعت مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے کیونکہ عمران خان کے خلاف ایسا کوئی سنگین کیس نہیں ہے جس کے تحت انہیں فوراً نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُن کی سیاسی مقبولیت بھی اس راہ میں حائل ہو سکتی ہیں لیکن یہ تو بعد کی بات ہے کہ خان صاحب کو اپنے خلاف چلنے والے کیسوں میں کوئی سزا ہوتی ہے یا وہ بری الذمہ قرار دیے جاتے ہیں لیکن اُن کی جماعت میں ہی ایسے بے شمار افراد موجود ہیں جن کی شدید خواہش ہے کہ خان صاحب ان کیسوں میں نااہل قرار دیے جائیں تاکہ وہ پارٹی ٹیک اوور کر سکیں۔ یہی افراد خان صاحب سے آئے روز ایسے بیان بھی دلواتے ہیں جس سے عمران خان کی پوزیشن متنازع ہوتی جا رہی ہے۔
دوسری طرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں لیکن تحریک انصاف کی طرف سے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کو مسترد کیا جا چکا ہے اور وہ اس تقرری کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز بھی لاہور میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے اس تقرری کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ بہر حال دونوں صوبوں میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے بعد آئین کے مطابق وہاں نوے روز میں انتخابات کا انعقاد کروایا جائے گا اور ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہو گی۔ ان دونوں صوبوں میں انتخابات کا شیڈول چند روز میں جاری ہو جائے گا۔ اسی طرح قومی اسمبلی کی تقریباً 113 نشستوں پر تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے منظور ہونے کے بعد وہاں ضمنی انتخابات بھی آئندہ ساٹھ روز میں کرائے جانے ہیں‘ الیکشن کمیشن کی طرف سے اُن کا شیڈول بھی آئندہ چند روز میں جاری کر دیا جائے گا۔ وفاقی حکومت ان انتخابات انعقاد کے لیے اٹھارہ ارب روپے کے فنڈز بھی الیکشن کمیشن کو جاری کر چکی ہے۔ اگر اِن دونوں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی 113 نشستوں کے ضمنی انتخابات مقررہ مدت میں منعقد ہوتے ہیں تو ان انتخابات کے کچھ عرصہ بعد ہی ملک میں عام انتخابات کا نقارہ بج جائے گا۔ اُن انتخابات پر الگ سے اربوں روپے کے اخراجا ت اٹھانا پڑیں گے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد دونوں صوبوں میں نئی حکومتیں بھی تشکیل پا چکی ہوں گی جو اپنے اپنے صوبے میں عام انتخابات کے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے اپنا اثرو رسوخ بھی استعمال کر سکتی ہیں کیونکہ نگران وزیراعظم کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے اور انتخابات کے دنوں میں غیر جانبدارای کا تصور ویسے بھی دھندلا جاتا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں بہتر تو یہی ہے کہ اِن دونوں صوبوں میں شفاف قومی انتخابات کے انعقاد کیلئے آئین میں ترمیم کرکے دونوں صوبائی حکومتوں کو نوے روز کے لیے معطل کردیا جائے تاکہ نگران وزیراعظم ان دونوں صوبوں میں بھی غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کروا سکے۔ اس کے برعکس ملک میں اگر اگلے انتخابات غیریقینی کی فضا میں منعقد ہوتے ہیں تو یہ ملکی سالمیت کے لیے شدید خطرے کی گھنٹی ثابت ہوں گے کیونکہ مرضی کے نتائج نہ ملنے کی صورت میں سیاسی جماعتیں دھاندلی کا نعرہ لگا کر پھر سے سڑکوں پر ہوں گی۔
اس وقت اہم خلیجی ممالک‘ امریکہ اور چین پاکستان کی اندرونی کیفیت سے شدید نالاں نظر آتے ہیں اور اگر نئے انتخابات کے بعد بھی ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہو سکا تو یہ ممالک ہم سے مزید دوری اختیار کر سکتے ہیں۔ اس لیے نئے انتخابات کے نتیجے میں ایک مضبوط اور مستحکم وفاقی حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔ دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے اپنی آخری سیاسی چال تو چل لی ہے لیکن آدھے ملک میں نئے انتخابات مزید سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ تمام سٹیک ہولڈرز باہم اتفاقِ رائے سے قومی‘ سندھ اور بلوچستان اسمبلی بھی تحلیل کردیں اور پورے ملک میں بیک وقت عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ سارے ملک میں بیک وقت نئے انتخابات کے انعقاد سے اِن ممکنہ خدشات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو حکومت کو بھی مکمل ادراک ہے کہ سعودی عرب‘ چین‘ امریکہ اور دیگر دوست ممالک موجودہ سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور وہ اب یہاں سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کی اُبھرتی ہوئی نئی لہر بھی کئی خدشات کو جنم دے رہی ہے لہٰذا ملک میں مستحکم حکومت کے قیام‘ معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئے قومی انتخابات کی راہ ہموار کی جانی چاہیے کیونکہ ملک میں وقفے وقفے سے ہونیوالے انتخابات استحکام کے بجائے مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved