اپنے منتخب وزیراعلیٰ کو خود ہٹا کر اب نگران وزیراعلیٰ کی تقرری پر نالاں اور جانبداری کے الزامات لگاتے خان صاحب قومی اسمبلی میں اپنے بچے کھچے اراکین کے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کر چکے توپارلیمنٹ کے دروازے ہی بند ملے۔اب گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے مزید 43 اراکین کے استعفے منظور کر چکے ہیں۔ الٹی ہوتی سبھی تدبیروں پر پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ قومی اسمبلی سے استعفے ہوں یا پنجاب اسمبلی تحلیل کرنا‘ دونوں فیصلے عجلت اور ناتجربہ کاری کا نتیجہ تھے۔ ایک نجی محفل میں تحریک انصاف کے ایک سابق صوبائی وزیر نے عجیب توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چودھری پرویز الٰہی اگر چند مہینے مزید وزیراعلیٰ رہ جاتے تو شاید ہم حلقوں میں جانے کے قابل بھی نہ رہتے۔ مجھے مخاطب کرکے بولے: آپ بہت لکھتے رہے کہ بزدار دور میں تبادلے نہیں ٹینڈر ہوتے تھے‘ اب خبر تو لیں ذرا! تبادلے اور تقرریاں کن نرخوں پر اور کس کے حکم پر ہوتی رہی ہیں؟کٹھ پتلیاں لگا کر قلیل عرصے میں جو لمبا مال بنایا گیا اس پر بھی کبھی قلم آرائی کریں۔بزدار تو ان کے آگے معصوم اور اناڑی ثابت ہو چکا۔
تحریک انصاف کی طرزِ حکمرانی ہو یا طرزِ سیاست‘ دونوں کو دیکھ کر مجھے بگلا پکڑنے کا وہ طریقہ یاد آرہا ہے جو ایک دوست نے دوسرے دوست کو کچھ اس طرح بتایا تھا؛ پہلا دوست: یار میرے پاس بہت سارے پرندے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے کہیں سے بگلا بھی مل جائے۔ بگلا پکڑنے کا کوئی طریقہ تو بتاؤ۔ دوسرا دوست: تو اس میں مشکل کیا ہے‘ یہ تو بہت آسان کام ہے۔ ایک بگلا لے کر اسے دھوپ میں کھڑا کرو اور اس کے سر پر موم رکھ دو۔ موم پگھل کر اس کی آنکھیں بند کر دے تو تم بہ آسانی بگلا پکڑ سکتے ہو۔ یوں لگتا ہے کہ خان صاحب نے سبھی کو بگلا پکڑنے پر لگا ڈالا ہے‘ بگلا کب کسی کے ہاتھ آتا ہے۔ ہاتھ میں موجود آپشنز ضائع کرکے ہاتھ ملنا کہاں کی سیاست اور کیسی نیتا گیری ہے؟
ہماری سیاسی اشرافیہ کا عجیب مائنڈ سیٹ ہے‘ اقتدار میں ہوں تو اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کو اہم جمہوری فریضہ سمجھتے ہیں‘ اس کے برعکس اختلافِ رائے اور اپوزیشن کی احتجاجی سرگرمیوں کو غیر جمہوری ہتھکنڈے اور سازش قرار دیتے ہیں۔ اگر انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑ جائے تو حصولِ اقتدار کیلئے رات کی نیند اور دن کا چین برباد ہو جاتا ہے۔ ہر قیمت پر حکومت گرانے کیلئے کوشاں یہ سیاسی رہنما کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ غیر جمہوری اقدامات سے لے کر اوچھے ہتھکنڈوں تک‘ گمراہ کن بیانیوں سے لے کر کردار کشی تک‘ اداروں کو للکارنے سے لے کر ہرزہ سرائی تک سبھی کچھ کر گزرتے ہیں۔ غیرتِ قومی سے لے کر حب الوطنی کے سبھی تقاضوں کو فراموش کرکے خود کو نجات دہندہ اور عوام کا نمائندہ کہلوانے والے عوام دوست کہاں ہو سکتے ہیں؟ آنے والے دنوں میں صوبائی دارالحکومت سیاسی اکھاڑا بننے جا رہا ہے‘ تحریک انصاف تو پہلے ہی خیمے لگا چکی ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی بھی اپنے اپنے کیمپ لگا کر سیاسی داؤ پیچ آزمائیں گی۔ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کی داد دیں یا داؤ پیچ کی‘ ان کی سبھی چالیں شہ مات اور مخالفین کو مشکل حالات سے دوچار کرتی چلی جا رہی ہیں۔ سندھ کے بعد ان کا اگلا ہدف پنجاب ہے جہاں وہ پیپلز پارٹی کو اپنا کھویا ہوا مقام دلوانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی کوششیں کس حد تک کارگر ثابت ہوتی ہیں‘ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا؛ تاہم وفاق میں حکومت سازی کے بعد پنجاب میں نگران حکومت کے قیام میں ان کا عکس برابر آشکار ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی کی تقرری کو مسترد کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ میری حکومت گرانے کی سازش میں شریک رہے ہیں۔ انہوں نے اس تقرری کو مسترد کرتے ہوئے مظاہروں اور احتجاج کا اعلان کر ڈالا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے پاس آخری آپشن مظاہروں‘ دھرنوں اور احتجاج کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ آپشن استعمال کرنے کی مہارت پی ٹی آئی پہلے ہی رکھتی ہے اور اسی طرزِ سیاست سے حالات اور معاملات کو اپنے حق میں ڈھالنے کے تجربات بھی کر چکی ہے لیکن اب یہ نسخہ آئندہ کس حد تک کارگر ثابت ہوتا ہے‘ یہ سبھی عقدے آئندہ چند روز میں کھلنا شروع ہو جائیں گے۔
تحریک انصاف کے احتجاجی نسخے کا علاج کرنے کے لیے نگران سیٹ اَپ نے بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں شروع کر دی ہیں‘ چیف سیکرٹری اور آئی جی کے علاوہ سی سی پی او لاہور کی نئی تقرریوں سے واضح اشارے ملتے ہیں کہ تحریک انصاف کی آئندہ حکمت عملی پر جوابی لائحہ عمل کیا ہوگا۔ دور کی کوڑی لانے والے تو کہتے ہیں کہ انتخابات بروقت ہوتے نظر نہیں آرہے؛ تاہم نگران سیٹ اَپ طوالت اختیار کرتا ہے تو تحریک انصاف کے لیے حالات مزید مشکل بھی ہو سکتے ہیں۔ ان مشکلات کو ٹالنے کے لیے پی ٹی آئی کو مزید اضافوں کے ساتھ دھرنوں اور مظاہروں کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ غیر موافق حالات سے پریشان ہو کر مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلیوں سے فرار اور پھر قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ تحریک انصاف کو کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔ کئی بار باور کرا چکا ہوں کہ انتخابات سیاسی اشرافیہ کی ضرورت اور ان کے مسائل کا حل تو ضرور ہو سکتے ہیں لیکن عوام کے مسائل کا حل نہ ماضی کے کسی الیکشن سے نکل سکا اور نہ ہی آئندہ کسی الیکشن سے بہتری کی اُمید لگائی جا سکتی ہے۔ یہ سبھی اپنی اپنی ضرورتوں اور بوئے سلطانی سے مجبور ہو کر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔
کب‘ کہاں‘ کون‘ کس کی ضرورت بن جائے تو سبھی بیانیے‘ سبھی نظریات‘ سارے بھاشن دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ عوامی مینڈیٹ کب کس بھاؤ بیچ ڈالیں‘ ضرورت غالب آتے ہی یہ مغلوب ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ ماضی کے کئی منظرنامے ان سبھی کے روپ بہروپ سمیت اصل چہرے بے نقاب کرتے آرہے ہیں۔ سنگین الزامات سے لے کر کردار کشی جیسے حملوں کے باوجود ضرورت پڑنے پر بدترین مخالفین سے بغل گیر اور واری واری جانے کو جمہوریت کا حسن قرار دینے والے سیاسی رہنما عوام کے درد میں نہیں بلکہ اقتدار کے لیے بھاگے پھر رہے ہیں۔ ان کا جینا مرنا اقتدار کے لیے ہے۔ ایک بار پھر بساط بچھائی جا رہی ہے۔ مہرے فٹ کیے جا رہے ہیں۔ چالیں آزمائی جا رہی ہیں۔ عوام کو پھنسانے کے لیے ایک بار پھر جال بچھایا جا رہا ہے۔ عوام پھنسنے کو پھر تیار ہیں۔ اپنے اپنے رہنمائوں‘ اپنے اپنے چوروں اور اپنے مسیحاؤں کے بیانیوں اور بھاشنوں پر سردھنتے عوام اس بار بھی جھومتے جھامتے ہنسی خوشی اپنے مقدر پر ووٹ کی سیاہی ملنے کو پھر تیار ہیں۔ اسمبلیوں میں بھیجے ہوئے ان کے نمائندے کب ان سے پوچھ کر کسی کے حلیف اور حریف بنتے ہیں۔ اسمبلیوں کو چھوڑ چھاڑ کر سڑکوں پر نکلنے والے یہ رہنما کیا عوام سے پوچھ کر ان کے مینڈیٹ کی توہین کرتے ہیں؟ جب عوام ہی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تو پھر عوام ان کی ضرورتوں کا بوجھ کب اٹھائے پھریں گے؟ ذاتی مفادات کے لیے اسمبلیوں سے بائیکاٹ کرنے والے سیاسی رہنماؤں کا بائیکاٹ اس بار عوام کو کر دینا چاہیے۔ پولنگ والے دن یہ دن ڈھلنے تک عوام کے منتظر ہی رہیں‘ ووٹ کی سیاہی سوکھ جائے اور ڈبے خالی پڑے رہیں۔ ان پتھر دلوں کی آنکھیں ووٹر کی راہ تکتے تکتے پتھرا جائیں۔ یہی جمہوری انتقام ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved