شیخ عاطف ایک معروف موٹیویشنل سپیکر ہیں۔ وطن عزیز کی مختلف درسگاہوں اور نجی و سرکاری تقریبات میں آپ نوجوانوں کو تحریک دینے کے لیے خطاب کرتے رہتے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد آپ کے خطابات کو بڑی دلچسپی اور دلجمعی سے سنتی ہے اور آپ کے بیان کردہ نکات پر عمل پیرا ہونے کی جستجو بھی کرتی ہے۔ شیخ عاطف سے میرا دیرینہ تعلق ہے اور گاہے گاہے ہمار ا آپس میں رابطہ ہوتا رہتا ہے۔ ہم جب بھی آپس میں ملتے ہیں‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے رابطے میں کبھی تعطل نہیں آیا۔ شیخ عاطف کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ آپ دین اور اہلِ دین سے بہت زیادہ محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ آپ اپنے ادارے میں جہاں نوجوانوں کو اکٹھا کرکے مختلف کورسز کرواتے ہیں‘ وہیں اپنے انسٹیٹیوٹ میں علماء کرام اور اہلِ دانش کو بلا کر ان کے خطابات بھی کراتے رہتے ہیں۔ مجھے ماضی میں بھی ان کے انسٹیٹیوٹ میں خطاب کرنے کا موقع ملا۔ چندہفتے قبل مجھ سے المدرار انسٹیٹیوٹ کے ذمہ داران نے ایک مرتبہ پھر رابطہ کیا اور 22 جنوری کو ''توکل کی اہمیت ‘‘ پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔
شیخ عاطف سے دیرینہ تعلقات اوران کے انسٹیٹیوٹ میں جمع ہونے والے نوجوانوں کے ذوق وشوق کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس تقریب میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ توکل کے موضوع پر خطاب کرنا یقینا میرے لیے باعثِ سعادت تھا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ جس نہج پر آ چکا ہے اور جس قسم کی پریشانیوں کا سامنا لوگوں کو کرنا پڑ رہا ہے‘ ان پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے اور نبردآزما ہونے کے لیے توکل کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ یہ پروگرام ظہر کی نماز کے بعد شروع ہوا اور اس میں نوجوانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔خواتین کے لیے علیحدہ سے انتظامات کیے گئے تھے۔ توکل کے موضوع پر میں نے جن معروضات کو نوجوانوں کے سامنے رکھا‘ ان کا خلاصہ کچھ ترامیم اور اضافوں کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
ہمارا معاشرہ اس وقت پریشانیوں اور اضطراب کا شکار ہے۔ ان پریشانیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمیں اپنے ذہن میں اس بات کو جگہ دینے کی ضرورت ہے کہ جملہ پریشانیاں اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے امر کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں آئی ہیں اور ان پریشانیوں سے نجات دلانے کی طاقت فقط ہمارے پروردگار ہی کے پاس ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے ہرگز نہیں پہنچے گا ہمیں (کوئی نقصان)مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے، وہ ہمارا رب ہے ، اور اللہ پر (ہی) پس چاہیے کہ بھروسا رکھیں ایمان والے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا تعلق انسانوں کی تقدیر کے ساتھ ہے۔ جو انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرتا ہے‘ مصائب سے نکلنے کے لیے ان تدابیر کو اختیار کرتا ہے جوکتاب وسنت میں مذکور ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو آسان فرما دیتے ہیں۔ بالعموم دیکھنے میں آیا ہے کہ مصیبت زدہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگتا ہے۔ اگر دعا بغیر اعتماد، بھروسے اور اُمید کے مانگی جائے تو یقینا انسان منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے برعکس جب دعا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے مانگی جائے تو انسان کے اس مصیبت سے نکلنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ صحیح بخاری میں تین مسافروں کے ایک غار میں پھنس جانے کا واقعہ مذکور ہے۔ پرانے وقتوں میں تین مسافر سفر پر جا رہے تھے کہ ایک سیلابی بارش سے بچنے کے لیے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اسی دوران غار کے دہانے پر آکر ایک بہت بڑا پتھر گرتا ہے جس سے غار کا منہ بند ہو جاتا ہے۔ اس پتھر کو ہٹانا ان تینوں کے لیے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ تینوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی اور پورے اعتماد اور یقین سے دعا مانگی۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی دعاؤں کی برکت سے ان کی مصیبت کو حل کو کر دیا اور ان کے لیے غار سے نکلنے کا راستہ بنا دیا۔ اسی طرح کتاب وسنت میں بہت سے ایسے واقعات بھی مذکور ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مصیبت سے نکلنے کے امکانات پیدا فرما دیتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے مختلف واقعات کا ذکر کیا، ان واقعات کا مطالعہ کرنے اور ان پر تدبر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں میں جب بھی کوئی تکلیف آتی تھی تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اُن مصیبتوں سے نجات دے دیتا اور آنے والے لوگوں کے لیے ان کے طرزِ عمل کو ایک نمونہ بنا دیتا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا ہے کہ جب اُن کو جلتی ہوئی آگ میں اُتارا گیا تو آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسا کیا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے جلتی ہو ئی آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت 69 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا! اور سلامتی (والی) ابراہیم پر‘‘۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ سے جہاں دیگر دروس حاصل ہوتے ہیں‘ وہیں توکل کا درس بھی نمایاں ہوتا ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے زندگی میں بہت سی تکالیف کا سامنا کیا لیکن آپﷺ نے ہر تکلیف کو اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے پوری خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ مختلف غزوات میں دشمنوں کی بہت بڑی تعداد کا مقابلہ اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کو اعدائے دین پر غلبہ عطافرما دیا۔
کلامِ حمید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جنگوں میں فتح درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے حاصل ہوتی ہے؛ چنانچہ جب انسان کا توکل اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ہو جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کم تعداد والے گروہوں کو بھی بڑی تعداد والوں پر غالب فرما دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 249 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بہت سے چھوٹے گروہ غالب آ گئے بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
اس زمین پر رہتے ہوئے انسانی زندگی کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنی معیشت کو بہتر بنانا ہے۔ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے رزق کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اگر تم اللہ پر ویسے بھروسا کرو جیسا کہ بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔وہ صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال واپس آتے ہیں۔
انسانی زندگی کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے ایک بڑا چیلنج شیطان کی انسانوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ شیطان ہر وقت انسانوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسانے کے لیے مختلف طرح کی تدابیر کرتا رہتا ہے۔ قرآنِ مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان کا توکل اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ہو تو شیطان اس کو نقصان پہنچانے سے عاجز آ جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت مبارکہ99 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ (شیطان)‘ نہیں ہے اس کے لیے کوئی غلبہ ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور اپنے رب پر وہ بھروسا کرتے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس بات کو واضح کر دیا کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو وہ کافی ہے اُسے‘ بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو‘ یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے معاملات کو چلانے او ر بہتر انداز میں آگے بڑھانے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ جو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے جملہ اُمور کے لیے کافی ہو جائیں گے۔
انسانی زندگی نشیب وفراز سے عبارت ہے۔ انسان کو زندگی کے ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور تعاون کی ضرورت ہے؛ چنانچہ ہمیں ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرنا چاہیے۔ جب ہم اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسا کریں گے تو ہمارے جملہ معاملات میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اور ہم دنیا وآخرت کی سربلندیوں سے ہمکنار ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی ذات پر توکل کرنے کی توفیق دے، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved