تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     25-01-2023

کفایت شعاری: دعوے اور حقیقت

اپریل 2022ء میں ملک کی انتہائی خراب معاشی حالت کا رونا روتے ہوئے موجودہ حکومتی اتحاد نے زمامِ اقتدار سنبھالی تھی۔ تبدیلیٔ اقتدار کے لیے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کم و بیش تیرہ جماعتیں بھرپورکوششیں کرتی رہیں۔ حکومت تبدیل ہو گئی تو یہ واضح تھا کہ جن جماعتوں نے تبدیلی لانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالا تھا‘ وہ حکومت میں بھی اپنا حصہ بقدر جثہ طلب کریں گی اور ایسا ہی ہوا۔ اِس وقت بارہ‘ تیرہ جماعتیں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم کا تعلق (ن) لیگ سے ہے تو سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ حکومت کے ابتدائی دنوں میں جو 37رکنی وفاقی کابینہ تشکیل دی گئی تھی، اُس میں تیس وفاقی وزرا، چاروزرائے مملکت اور تین مشیر شامل تھے۔ اِس کابینہ میں بارہ وفاقی وزرا، دووزرائے مملکت اور دومشیروں کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو حصہ ملا جبکہ پیپلزپارٹی کے نو وفاقی وزرا‘ دووزرائے مملکت اور تین مشیر تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کرنے میں پیش پیش رہنے والے مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو چار اور ایم کیو ایم کو دو وزارتوں کی صورت میں وفاقی کابینہ میں حصہ ملا۔ اِس وقت خیبر پختونخوا کے گورنر بھی مولانا صاحب کے عزیز ہیں۔ اِسی طرح دیگر جماعتوں کو بھی دامے درمے قدمے سخنے کابینہ میں نمائندگی دی گئی یا پھر دیگر عہدوں کی صورت میں حصہ دیا گیا۔ کراچی میں گورنر کا عہدہ ایم کیو ایم اور پنجاب میں یہ کرسی مسلم لیگ نواز کے حصے میں آئی۔ مقصد یہ تھا کہ یہ سب جماعتیں مل کر ملک کو اُس صورت حال سے نکالیں جس میں اِسے تحریک انصاف کی حکومت نے پھنسا دیا تھا۔ اب یہ تو سب کے سامنے ہے کہ اُن مشکلات کو کس حد تک حل کیا جاسکا؛ البتہ اتنا ضرور ہوتا رہا کہ وقت کیساتھ ساتھ وفاقی کابینہ کے حجم میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ جس جماعت نے علیحدگی کی دھمکی دی‘ اُسے کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹ کرلیا گیا۔ ہوتے ہوتے آج یہ عالم ہوچکا ہے کہ اِس وقت وفاقی کابینہ کے اراکین کی تعداد 77تک پہنچ چکی ہے۔ دن رات ملک و قوم کی 'خدمت‘ میں مصروف اِس کابینہ میں چونتیس وفاقی وزرا، سات وزرائے مملکت اور چار مشیرشامل ہیں جبکہ 32افراد معاونینِ خصوصی کے طور پر کابینہ کا حصہ ہیں۔ نو‘ دس ماہ کی حکومت میں ملک میں اور کچھ ہوا یا نہیں‘ لیکن اتنی بڑی وفاقی کابینہ بنا کر ایک ریکارڈ ضرور قائم کر لیا گیا۔
جب پی ڈی ایم اتحاد نے اقتدار سنبھالا تھا تو تب وزیراعظم صاحب نے اعلان کیا تھاکہ ملک اِس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے اِس لیے کفایت شعاری کے پیش نظر وفاقی کابینہ کو مختصر رکھا جائے گا اور اس میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ یہ اعلان اپنی جگہ لیکن کابینہ میں توسیع کا عمل مسلسل جاری رہا۔ اِس بابت اکتوبر 2022ء میں لاہور میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران جب وزیراعظم صاحب سے وفاقی کابینہ کے اس قدر وسیع حجم بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس سوال کا برا منایا۔ حالانکہ صرف اتنا پوچھا گیا تھا کہ آپ نے تو اعلان کیا تھا کہ کفایت شعاری کے پیش نظر کابینہ میں توسیع نہیں کی جائے گی‘ پھر یہ سلسلہ کیوں نہیں رک سکا؟ اس سوال کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ کابینہ میں ایسے وزرا کثیر تعداد میں ہیں جو وزیرِ بے محکمہ ہیں۔ اِس پر وزیراعظم نے برہمی کے عالم میں جواب دیا کہ ہم نے گندم کی مد میں اربوں روپے بچائے ہیں لیکن آپ اُن کا تذکرہ نہیں کرتے‘ ہم نے ملک کے لیے بہت اہم خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اُن کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم صاحب کی برہمی پر بات آئی گئی ہو گئی۔ اندازہ کیجئے کہ سوال کا جواب دینے کے بجائے نہ صر ف برہمی ظاہر کی گئی بلکہ 'اہم خدمات‘ کی بات کر کے سوال کا جواب ہی گول کردیا گیا۔
بہرکیف‘ اِس نیوز کانفرنس کے بعد بھی کابینہ میں توسیع کا سلسلہ مسلسل جاری رہا جس میں تازہ ترین اضافہ نئے معاونِ خصوصی فہد ہارون کی صورت میں ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں معاونِ خصوصی کا عہدہ زیادہ تر اتحادیوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دیا جاتا ہے؛ البتہ یہ وزیراعظم کا استحقاق ہے اور اِس کی تکنیکی بنیادوں پر مخالفت نہیں کی جاسکتی۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی کابینہ تشکیل دی تھی تو وزیراعظم کے معاونینِ خصوصی کو اس وقت کی اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن حکومت نے وزرا کی فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی ہے۔ اپنی باری آئی تو اسی پرانی ڈگر کو اپنایا گیا۔ کہاں کے اصول‘ کہاں کے ضابطے اور کہاں کی کفایت شعاری۔ اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ میں وفاقی وزرا کی تعداد زیادہ سے زیادہ 32رہی۔ پانچ مشیر جبکہ ایک وقت میں معاونین خصوصی کی زیادہ سے زیادہ تعداد بارہ کے قریب تھی۔
یہ سب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کے لیے ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ اتنے بڑے سیاسی اتحاد پر مشتمل حکومت میں کابینہ کا سائز مختصر رکھا جاتا۔ وفاقی وزراکی تعداد البتہ مجبوراً محدود رکھنا پڑتی ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 92 یہ کہتا ہے کہ وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تعداد دونوں ایوانوں کے اراکین کی مجموعی تعداد کے گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ آ رٹیکل 93 کے مطابق مشیران کی تعداد بھی پانچ سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ہاتھ بندھے ہونے کا یہ غصہ معاونین خصوصی کی صورت میں نکالا جاتا ہے‘ جس اتحادی جماعت نے چون و چرا کی‘ اُسے معاونِ خصوصی کی سیٹ دے کر مطمئن کر دیا۔ اِس وقت یہی کچھ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں معاونینِ خصوصی کی تعداد 32تک جا پہنچی ہے۔ عمومی طور پر مغربی ممالک میں معاونین خصوصی ٹیکنو کریٹس کو مقرر کیا جاتا ہے جو مختلف شعبوں کے حوالے سے حکومت کی تکنیکی طور پر رہنمائی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہر چال ہی نرالی ہے۔ یہاں بیشتر معاونین خصوصی اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ جس حکومتی اتحاد میں بارہ‘ تیرہ جماعتیں شامل ہوں گی‘ وہاں اپنے اپنے حصے کے لیے کیا غدر مچتا ہوگا‘ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ ہم ایک ایک ڈالر کیلئے ترس رہے ہیں‘ عوام آٹے جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کی چیز کیلئے طویل قطاروں میں لگے ہوئے ہیں‘ مہنگائی کا ایسا طوفان برپا ہوچکا ہے کہ خدا کی پناہ! اِس سب کے باوجود حکومتی سطح پر کفایت شعار ی نام کو بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ اِنہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اب سعودی عرب جیسے برادر ملک نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ ''دوست ممالک‘‘ کو امداد دینے کے طریقوں کو تبدیل کرنے پر غور کررہا ہے۔ مطلب یہ کہ پہلے امداد بغیر کسی شرط کے دے دی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سعودی وزیرخزانہ کے اس بیان میں پاکستان کیلئے بھی اشارے پنہاں ہیں۔ دراصل ہمارا ماضی ایسا رہا ہے کہ کوئی بھی ہم پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ایک طرف ہم معاشی مشکلات کا رونا رو رہے ہیں اور دوسری طرف اپنی کابینہ میں مسلسل توسیع کرتے جارہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ کے دوران وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی کی مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ کابینہ کی تنخواہوں کی مد میں 57 لاکھ روپے کا اضافہ کرتے ہوئے محض تنخواہوں کی مد میں 37کروڑ 17لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔ یہ ہے کفایت شعاری کا اصل رنگ! آج بھی ہمارے حکمران سرکاری دوروں پر بیرونِ ملک جاتے ہیں تو خصوصی طیاروںسے نیچے قدم ہی نہیں دھرتے۔ بیرونی ممالک میں مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کیا جاتا ہے اور پھر بہترین برانڈڈ سوٹوں میں ملبوس ہوکر امداد کے لیے ہاتھ پھیلائے جاتے ہیں۔ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی گئی ہے‘ بجلی و گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافے کا عمل جاری ہے لیکن حکومت اپنے اخراجات کم کرنے پر تو جہ نہیں دے رہی۔ یاد دہانی کے لیے بتاتا چلوں کہ 2010ء کے سیلاب کے بعد جب اقوام متحدہ کی نمائندہ کے طور پر انجلینا جولی پاکستان آئی تھیں تو اُنہوں نے واپسی پر ایک رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں واضح طور پر لکھا تھاکہ سیلاب زدگان کی مدد تو کی جائے لیکن پاکستان کے حکمرانوں کو بھی مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی عیاشیاں ترک کر دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved