تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     26-01-2023

پاکستانی طالبان اور علما

تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی صاحب نے پاکستانی علما کے نام اپنا خط‘ کچھ روز پہلے‘ ایک وڈیو کے ذریعے مشتہر کیاہے۔ان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے جہاد اور مسلح جدو جہد کے حوالے سے جو رائے اور حکمتِ عملی اختیار کی ہے‘یہ اس فہمِ دین پر مبنی ہے جو انہوں نے ان علما سے سیکھا۔ان کے الفاظ ہیں: ''آپ حضرات کے فتوے کی روشنی میں ہم نے جو جہاد شروع کیا تھا‘اب اگر آپ حضرات کو ہمارے جہاد میں کوئی کمی بیشی نظر آ رہی ہو‘ہم نے اس فتوے پر عمل کرنے میں کوتاہی کی ہو‘ہم نے اپنا جہادی قبلہ تبدیل کیا ہو‘تو آپ حضرات ہمارے بڑے ہیں‘ہمارے اساتذہ کرام اور مشائخ ہیں‘لہٰذا علمی دلائل کی روشنی میں ضرور ہماری راہ نمائی فرمائیں‘‘۔
علما نے اس کا جواب دیا ہے اورطالبان کے موقف کو مسترد کر دیا ہے۔علما نے واضح کیا ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف مسلح اقدام حرام ہے۔ریاست میں ظاہر ہے کہ ریاستی ذمہ داران‘ سرکاری حکام اورعوام سب شامل ہیں۔اس عمومی جواب کے ساتھ‘ایک جواب وہ ہے جو مفتی تقی عثمانی صاحب نے بطورِ خاص دیا ہے۔انہوں نے طالبان کی قیادت سے اپنی گفتگو کا بھی حوالہ دیااوریہ بتایا ہے کہ وہ اپنا موقف طالبان قیادت کے سامنے بالمشافہ رکھ چکے ہیں۔
مفتی صاحب کا فرمانا ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور اس کا دستور اسلامی ہے۔اس لیے‘ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرنا چاہیے جو بطور فرد‘ایک مسلمان سے کیا جا تا ہے۔ریاست سے نفاذِ اسلام کے باب میں کوتاہی ہوئی لیکن جس طرح مسلمان کسی کوتاہی کے سبب سے کافر نہیں ہو جاتا‘اسی طرح ریاست بھی کافر نہیں ہو جاتی اگر اس نے اپنے دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتائی کی ہو۔مفتی صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ بیس سال کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں‘جس میں بچوں‘ عورتوں‘ علما‘کسی کو نہیں بخشا گیا‘ کیا ملک میں کوئی ادنیٰ تبدیلی آ سکی؟ مفتی صاحب کے مطابق‘ جواباً مفتی نورولی صاحب اور ان کے رفقا نے کہا کہ انہیں مفتی صاحب کی باتیں سمجھ میں آگئیں۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ اب ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔
طالبان کا تعلق مسلکِ دیوبند سے ہے۔مفتی تقی عثمانی صاحب کو اس مسلک میں شیخ الاسلام کی حیثیت حاصل ہے۔وہ گویا پورے مسلک کے علما کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ان کا یہ فرمان فی الجملہ دیوبندی علما کی نمائندگی ہے۔مفتی صاحب اس پر تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بہت واضح الفاظ میں علما کی طرف سے تحریکِ طالبان کو جواب دے دیا اوراس باب میں کوئی ابہام نہیں رکھا۔انہوں نے ریاستِ پاکستان کے خلاف مسلح کارروائی کو حرام‘ناجائز کہا اورا سے بغاوت قرار دیا۔
میرا خیال ہے کہ ان علما نے اپنی طرف سے اتمامِ حجت کر دیا۔اب اگر طالبان مسلح جدو جہد جاری رکھتے ہیں تویہ ان کااپنا فہمِ دین ہوگا اوراس کی تمام تر ذمہ داری اور جوابدہی ان کی اپنی ہوگی۔پاکستانی علما کی طرف اب اس کی کوئی نسبت درست نہیں ہو گی۔علما کا یہ بیان ان کے تصورات اور حکمتِ عملی سے اعلانِ برأت ہے۔یہ حضرات دین کا علم رکھتے ہیں‘ان کو اندازہ ہوگا کہ کسی فعل کے حرام ہونے کا کیا مطلب ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں‘ایک حرام فعل کا ارتکاب کیا معنی رکھتا ہے۔
مفتی نور ولی صاحب کے اس خط سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ دینی معاملات میں پاکستان کے علما‘بالخصوص تقی عثمانی صاحب کے فہمِ دین پر اعتماد کرتے ہیں۔ان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے جس دینی تعبیر کو اختیار کیا ہے اور جس راستے پر چلے ہیں‘اس کی نشا ندہی پاکستان کے علما نے کی ہے۔اس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ پاکستانی علما آج اگر ان سے کوئی بات کہہ رہے ہیں تو انہیں ان علما پر اعتماد کرنا چاہیے۔مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ کہا کہ ان کا فتویٰ روس اور امریکہ کے خلاف جہاد سے متعلق تھا‘ریاست پاکستان کے خلاف نہیں جو اسلامی ہے‘قطع نظر ان کوتاہیوں کے‘جو ان سے سرزد ہوئی ہیں۔
تادمِ تحریر‘طالبان کی طرف سے مفتی صاحب کے فرمودات پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔پہلے مذاکرات امارتِ اسلامی افغانستان کی ثالثی میں ہوئے۔اب معاملہ براہ راست پاکستانی طالبان اور پاکستانی علما کے مابین ہے۔اس قضیے کو حل کرنے کے لیے ضروری کہ دونوں مکالمے پر آمادہ ہوں اوراس کے حل کی مخلصانہ کوشش کریں۔ان لوگوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ اللہ کے دین میں انسانی جان کی کیا حرمت ہے اور اس کشمکش کے نتیجے میں کس طرح انسانی لہو ارزاں ہو چکا ہے۔
اس ساری بحث میں ایک اہم سوال جدید ریاست کی قبولیت کا ہے۔پاکستانی طالبان کواس بارے میں شرحِ صدرہونا چاہیے کہ وہ کس نظمِ اجتماعی کا حصہ ہیں؟ افغانستان اور پاکستان دو خود مختار ممالک ہیں۔ پاکستان کے علما‘ ممالک کے مابین موجود اس تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے غیر شرعی نہیں سمجھتے۔ تحریکِ طالبان پاکستان خود کو امارتِ اسلامی افغانستان سے وابستہ سمجھتے ہیں اور خود کو ان کی بیعت میں شمار کرتے ہیں۔اگر یہ بات درست ہے تو پھر پاکستان کے قانون کی پابندی ان پر کیسے لازم ہوگی؟
اس سے جڑا ہوا ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ان کے قیام کی شرعی حیثیت کیاہے؟کیا وہ یہاں مہمان ہیں؟اگر مہمان ہیں تو میزبان کے گھر وہ اپنے قانون کے نفاذ کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔اگر وہ یہاں کے شہری ہیں تو ان کی بیعت ریاست پاکستان سے ہوگی نہ کہ افغانستان سے۔ پاکستانی علما اور پاکستانی طالبان کے مابین اس قضیے کا حل ہو نا بھی ضروری ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب کے جواب اور مفتی نور ولی صاحب کے سوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ا بھی بنیادی مسائل میں اتفاق نہیں ہے۔ جب تک ان بنیادی نکات پر اتفاق نہیں ہو جاتا‘فروعات کا اتفاق یا عدم اتفاق بے معنی ہو گا یا اس کی افادیت قلیل وقتی ہو گی۔ اس لیے میری علما اور طالبان‘ دونوں سے یہ درخواست ہو گی کہ وہ ایک بنیادی ایجنڈا طے کر تے ہوئے‘ اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس ضمن میں یہ طے ہونا چاہیے کہ جب تک کوئی حتمی بات نہیں ہو جائے گی‘ تلواروں کو نیام میں رکھا جائے گا‘ کیونکہ یہ انسانی جان کی حرمت کا سوال ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کی ہے اور اس کو اللہ کے حکم ہی سے اٹھایا جا سکتا ہے۔
طالبان کو ریاستِ پاکستان سے بھی شکایت ہے کہ اس نے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی۔اس کے لیے بھی کوئی طریقہ کار طے ہونا چاہیے جو ریاستِ پاکستان اور طالبان کے مابین سلسلہ جنبانی کو قائم رکھے اور معاہدوں کی خلاف ورزی کو روکے۔ دلیل یہاں بھی انسانی جان کی حرمت کی ہے۔قرآنِ مجید نے بتایا ہے کہ قتل کی سزا دائمی جہنم ہے۔ایک مسلمان اس خیال ہی سے کانپ جاتا ہے کہ وہ کسی ا یسے انجام سے دوچار ہو۔اگر یہ معاملہ اسلام کا ہے اور خدا کے ہاں جوابدہی کے احساس کے ساتھ اختلاف ہو رہا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی بات کو در خورِ اعتنانہ سمجھا جائے۔
پاکستانی علما کا موقف سامنے آنے کے بعد لازم ہے کہ پاکستانی طالبان کی رائے بھی سامنے آئے اور عوام کو معلوم ہو کہ مفتی تقی عثمانی صاحب اور علمائے پاکستان کی طرف سے جواب آ جانے کے بعد‘ اب طالبان کیا کہتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved