تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     26-01-2023

دہشت گردی کی لہر، اقدامات ناگزیر

اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ سرگرم ہونے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا‘ وہ یکے بعد دیگرے درست ثابت ہو رہے ہیں۔ چند روز پیشتر لکی مروت کے غیر آباد علاقے میں ایک سترہ‘ اٹھارہ سالہ نوجوان کی لاش ملی۔ نوجوان اپنی موٹر سائیکل سمیت کئی روز سے لا پتا تھا۔ تلاش کے بعد اس کے لواحقین کو مسخ شدہ لاش ملی۔ ان واقعات سے 2007ء سے 2009ء تک کے سوات اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جو تنظیم ان کارروائیوں میں ملوث تھی‘ وہی اب اپنے مسلح جنگجوؤں کے ذریعے ان بہیمانہ کارروائیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔ مقصد وہی پرانا ہے۔ لوگوں کو اتنا خوف زدہ کرو کہ وہ ان کی بالا دستی کو بلا چون و چرا قبول کر لیں اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں سکیورٹی فورسز کو اطلاع نہ دیں۔
شنید ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے دھمکی آمیز موبائل فون کالوں اور لیٹرز کے جواب میں بہت سی شخصیات بھتہ ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سیاستدان‘ تاجر اورکنٹریکٹرز اور دیگر صاحبِ ثروت افراد شامل ہیں۔ جاسوسی کے الزام میں عام شہریوں کو اغوا کرنا اور پھر ان کی لاشوں کو ویران جگہوں پر پھینکنا ٹی ٹی پی کا پرانا حربہ ہے اور یہ صرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے القاعدہ اور داعش جیسی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں نے بھی عام لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہی فعل اپنایا ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے ہاتھوں اس قسم کے غیرانسانی ہتھکنڈوں کے استعمال کے ضمن میں پہلی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ہو رہا ہے۔ جو لوگ کہتے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان میں امریکیوں کی موجودگی کی وجہ سے تھی‘ انہیں اب اس بات کا جواب دینا چاہیے۔ دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اس بارے میں لا علم رہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر امریکی اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے تھے۔ اس کا انکشاف خود طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد کیا۔ کیا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کرکے پاکستان میں داخل ہوں گے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں تیار رہنا پڑے گا؟ اس ضرورت کا شدید احساس اب ہو رہا ہے جبکہ خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر حکمت عملی اور حربی چالوں سے حملہ آور ہو رہے ہیں اور ان حملوں میں ایسے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جو صوبے کی پولیس کے پاس بھی نہیں۔ اس سلسلے میں 14جنوری کو پشاور کے مضافات میں واقع ایک پولیس سٹیشن پر ٹی ٹی پی کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تین طرف سے کیا گیا اور اس میں مختلف قسم کے جدید ترین ہتھیار استعمال کیے گئے‘ جن میں ہینڈ گرنیڈ‘ سنائپر شاٹس اور خود کار رائفلیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ رات کے اندھیرے میں صاف دیکھنے میں مدد کرنے والے ہتھیاروں کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ہتھیار پولیس کے پاس نہیں ہیں۔ اس حملے میں ایک پولیس افسر اپنے محافظوں سمیت شہید ہوا‘ جو دہشت گردوں کے حملے کا شکار اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے آرہا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ دہشت گردی کے بڑھتے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد اور دوٹوک پالیسی کی ضرورت ہے‘ ملک کی سیاسی پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم کا سلسلہ جاری ہے۔ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں مسئلے کے حل کے قریب پہنچ چکی تھی‘ جس کے تحت وہ کالعدم تنظیم کے جنگجوؤں کو ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ سابقہ فاٹا میں آباد کرنا چاہتے تھے‘ لیکن موجودہ حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دیں۔ دوسری طرف وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سابقہ حکومت کی کالعدم ٹی ٹی پی کو خوش کرنے کی پالیسی کو دہشت گردی کی موجوہ لہرکا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے دیگر حصوں میں سول سوسائٹی کے کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں‘ جن میں اے این پی‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ قومی وطن پارٹی اور پی ٹی ایم کے رہنما اور کارکن شامل ہیں‘ کے احتجاجی جلسوں میں سابق صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سابقہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کرنے کے بجائے چشم پوشی سے کام لیا‘ جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں نے نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں بلکہ ان کا دائرہ بھی وسیع کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی ان کے حملوں کی زد میں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سال 2022ء میں پاکستان میں 400 سے زیادہ دہشت گردانہ حملے ہوئے‘ جو اس سے گزشتہ سال یعنی 2021ء کے مقابلے میں 51 فیصد زیادہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر حملے خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں اور سابقہ فاٹا میں ہوئے۔ ان میں سے بیشتر کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ ان حملوں میں اضافے کا رجحان اگست 2022ء میں شروع ہوا تھا‘ لیکن 28 نومبر کو ٹی ٹی پی کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف اعلانِ جنگ کے بعد ان میں غیرمعمولی تیزی آ چکی ہے۔ اب تو پولیس چوکیوں اور فوجی قافلوں پر کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حملے مسلسل جاری ہیں۔
18 جنوری کو بلوچستان کے مختلف مقامات پر دہشت گردوں کے حملوں میں فوج کے چار سپاہی شہید ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں دہشت گرد مارے گئے۔ پاکستانی حکام کے مطابق حملہ آور ایرانی علاقے سے آئے تھے۔ اس پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایران کو کارروائی کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ اس کے بعد 20 جنوری کو خیبر پختونخوا میں ایک پولیس سٹیشن پر ہوئے ایک حملے میں تین افراد شہید ہوئے جن میں دو پولیس کے سپاہی بھی شامل ہیں۔ دہشت گردوں کے حملوں کا تازہ ترین نشانہ چارسدہ(خیبر پختونخوا) میں ایک پولیس چوکی تھی جہاں موٹرسائیکل سوار حملہ آوروں کی فائرنگ سے ایک سپاہی شہید اور دو زخمی ہو گئے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران وزیراعلیٰ نے صوبے کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ نگران حکومت کے اختیارات محدود ہونے کی وجہ سے دہشت گرد اس دوران وہاں اپنی کارروائیاں مزید تیز کر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved