تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     26-01-2023

تختِ لاہور

انسان لاہوری ہو‘ یہیں کی پیدائش ہو‘ یہیں تمام عمر گزاری ہو تو کم از کم اس شہر کی معرفت تو حاصل کر ہی لے۔ افسوس ہم سے یہ بھی نہ ہوا۔ چلیے‘ ہمیں کم از کم یہ احساس تو ہے کہ یہ کام کرنے والا تھا جو نہیں کیا۔ آج اس کوتاہی کا احساس بھی کتنوں کو ہے؟ کروڑوں لوگ اسی خاک پر چلتے پھرتے ہیں‘ یہیں سے رزق حاصل کرتے ہیں‘ یہیں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ ہم کس شہرِ بے مثال میں زندہ ہیں۔ اور کیسے بالا قد تھے جو اس میں اب نہیں ہیں۔ یہ شعر اس شہر کے لیے نہیں تو پھرکس شہرکیلئے ہے؛
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جان است
آہستہ چل! بلکہ مت چل۔ تیرے قدم تلے ہزاروں جانیں ہیں۔
کوتاہی اپنی جگہ‘ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے‘ میری کوشش ہوتی ہے کہ لاہور کے بارے میں جان سکوں اور تاریخی آثار میں کچھ وقت کے لیے گم ہوجاؤں۔ ان عمارتوں کے خد و خال پر نظر کروں اور ان کے در و دیوار میں دبی سسکیوں اور قہقہوں کی آوازیں سنوں۔ سو یہ کوشش جاری رہتی ہے۔ ہم کتنی بھی کوشش کریں‘ یہ کام اپنی بساطِ عمر تک ہی کر سکتے ہیں مگر ایک بوڑھا یہ کام صدیوں سے کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ دریا جس کے کنارے لاہور آباد ہوا تھا اور جسے راوی کہتے ہیں۔ راوی! کیا خوبصورت اور معنی خیز نام ہے۔ خواہ اصل میں اس دریا کا نام کچھ بھی رہا ہو‘ اب یہ عربی‘ فارسی‘ اردو کا راوی ہے۔ وہ جو صدیوں سے کرداروں کو دیکھتا آیا ہے اور ان کی روایت کرتا آیا ہے۔ہم لاہور کی سڑکوں‘ علاقوں اور مقامات سے بے نیازانہ گزر جاتے ہیں۔ انہیں جانے بوجھے بغیر۔ کتنی ہی بار قبرستان میانی صاحب سے گزرنا ہوتا ہے۔ کبھی سوچا کہ یہ نام کیا ہے اور کیوں ہے؟ مولوی نور احمد چشتی نے تحقیقاتِ چشتی میں لکھا ہے کہ اکبر بادشاہ کے زمانے میں یہاں ایک گاؤں تھا جہاں سب عالم رہتے تھے۔ اردو اور پنجابی دونوں میں عالم کو میاں کہتے ہیں‘ اس لیے اسے میانی کہا جاتا تھا۔ بعد کے ایک بزرگ میر علی نے اپنے پانچ بزرگوں کی قبریں یہاں بنوائیں تو یہ میانی پنج ڈھیرا کے نام سے معروف ہوگیا۔ روز ہم نیلا گنبد چوک سے گزرتے ہیں۔ کسے معلوم کہ نیلے گنبد والا یہ مقبرہ 1856ء میں بنا تھا اور بڑی بزرگ ہستی حضرت شیخ عبدالرزاق کا مزارہے۔ کسے خبر ہے کہ ریلوے سٹیشن سے متصل نولکھا بازار اور آبادی دراصل علی مردان خان کا باغ اور عمارات کی جگہ تھی۔ یہ وہی علی مردان ہے جو شاہ جہاں کے زمانے میں دریاؤں سے نہریں کاٹ کر لانے کا معروف معمار اور مہندس تھا اور قلعۂ لاہور‘ قلعۂ دہلی اور شالا مار باغ میں اس کی راوی اور جمنا سے کاٹ کر لائی ہوئی نہریں جل ترنگ بجاتی تھیں۔ علی مردان خان نے اس زمانے میں اس باغ پر نو لاکھ روپے خرچ کیے تھے‘ اس لیے اس کا نام نولکھا پڑگیا۔ اور یہ جو محاورہ ہے کہ جو مزہ چھجو کے چوبارے‘ نہ بلخ نہ بخارے۔ تو یہ کون سا چوبارہ تھا۔ سرکلر روڈ پر جو سرائے رتن چند ہے‘ اس کے باہر یہ چھجو بھگت کا چوبارہ تھا جو ایک صوفی منش فقیر تھا۔ اس کی سمادھی بھی لاہور میں واقع ہے۔ اور یہ جو شالا مار باغ ہے شہنشاہ شاہ جہاں کا بنوایا ہوا اور جو شہنشاہ جہانگیر کے بنوائے ہوئے کشمیر کے شالامار باغ کی تقلید میں بنوایا گیا تھا‘ کہتے ہیں یہ شالا مار دراصل شہلا باغ یعنی خوبصورت باغ تھا۔ بعض کی رائے ہے کہ نہیں‘ شالا خدا کو کہتے ہیں‘ اس لیے شالا باغ تھا۔ بعض شعلہ ماہ یعنی چاند کا شعلہ گردانتے ہیں۔ اسی شالا مار میں جو دوسرے تختے یعنی باغِ حیات بخش پر نہایت حسین آبشار یا جھرنے کے ساتھ ایک سنگ مر مر کا تخت ہے‘ یہ شہزادی زیب النسا کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اس آبشار پر افسانوی شخصیت والی زیب النساء سے یہ رباعی بھی منسوب ہے:
اے آبشارِ نوحہ گر از بہر چیستی
چین بر جبیں فگندہ بہ اندوہ کیستی
آیا چہ درد بود کہ چوں من تمام شب
سر را بہ سنگ می زنی و می گریستی
(اے آبشار! توکس کے لیے نوحہ کناں ہے؟ تیرے ماتھے پر شکنیں کس کے غم میں ہیں؟ کیسا درد ہے تیرا کہ میری طرح تمام رات سر پتھر پر پٹکتی ہے اور روتی ہے)
اور یہ سارا علاقہ تو مغل دور میں باغوں اور اس زمانے کے فارم ہاؤسز سے بھرا ہوا تھا۔ اس لیے کہ اصل لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر دہلی کے راستے پر تھا اور شہر کی بھیڑبھاڑ سے بچنے کے لیے امرا یہیں قیام کرتے تھے۔ آج کل اس علاقے کا نام باغبان پورہ ہے۔ لشکر بھی شہر سے باہر ادھر قیام کرتے تھے۔ اور یہیں محبت خان کا باغ بھی تو تھا جس کے آثار بھی اب معدوم ہیں۔ یہ نام محبت خان تو عوام میں مشہور ہوگیا۔ یہ مہابت خان اپنے زمانے کا بڑا توپ خانے کا ماہر اور مغل لشکر کا بہت بڑا سردار تھا۔ اسی لاہور میں راوی کے دوسرے کنارے پر شاہدرہ کی طرف ایک بادشاہ‘ ایک ملکہ اور ایک امیر الامرا سوتا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر‘ جس کے مقبرے کا حسن اور حزن دیکھنے والے کو مبہوت کرتا ہے۔
صدیوں سے بادشاہ یہاں محو ِخواب ہے
صدیوں سے ہے لگا ہوا دربار دم بخود
اس کے عقب میں آصف جاہ کا پیازی شکل کے گنبد والا مقبرہ‘ جو ممتاز محل کا والد اور شاہجہاں کا محسن امیر تھا۔ وہ نہ ہوتا تو ممتاز محل اور تاج محل بھی نہ ہوتے اور شہزادہ خرم‘ شاہ جہاں بھی نہ ہوتا۔ انہی کے پاس ریلوے لائن سے کچھ دور ملکہ نورجہاں سوتی ہے جس نے ایک عمر شاہی اختیار میں اور آخری عمر گمنامی میں لاہور میں گزاری۔ وہی لاہور جو نور جہاں کو بہت پسند تھا۔ کہتی تھی؛
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
(لاہور کو اپنی جان کی قیمت کے عوض خریدا ہے۔ اپنی جان دی ہے تو یہ دوسری جنت خریدی ہے)
اور مجید امجد نے اسی نور جہاں کے مقبرے کے لیے کہا تھا:
اپنی تنہائیٔ ویراں سے اماں مانگتا ہے
ہر گزرتی ہوئی گاڑی سے دھواں مانگتا ہے
رنجیت سنگھ کو تختِ لاہور کیا ملا‘ لاہور کی عمارتیں برہنہ ہونے لگیں۔ سکھوں کی رسائی راجستھان کے سنگ مر مر تک نہ تھی اور رنجیت سنگھ کی شدید طلب اسی مرمری پتھر کی تھی۔ چنانچہ یہ سنگ مر مر لاہور کی مسجدوں‘ مقبروں‘ عمارتوں اور محلوں سے اتارا گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مقبرہ جہانگیر کی عمارت کے اوپر چاروں طرف سنگ مرمر کا نازک کٹہرا تھا؟ یہ کٹہرا کاٹا اور توڑا گیا۔ اور بالاخر قلعے کے عالمگیری دروازے کے سامنے حضوری باغ میں رنجیت سنگھ کی نشست کے کام آیا۔ لاہور میں سب سے قدیم تاریخی عمارت شاید قطب الدین ایبک کا مزار ہے۔ اس کے اوپر کئی منزلہ سنگ مرمر کا گنبد تھا جسے نوچ کھسوٹ کر ویران کردیا گیا۔ کسی عمارت کا حسن بخشا نہیں گیا۔ سوچتا ہوں کہ شکر ہے تاج محل پنجاب میں نہیں تھا اور سکھوں کے زیر نگیں نہیں تھا ورنہ؟ ورنہ دنیا کا ایک عجوبہ ننگا پڑا ہوا ہوتا۔پتا نہیں کیوں آج بے اختیار اور بے سبب لاہور پر پیار آیا۔ سو‘ اے میرے لاہور! میں تیری گلیوں کوچوں پر قربان! ان بھیدوں بھری شاہراہوں پر قربان جو ہرموڑ پر اپنی تاریخ رکھتی ہیں۔ اے میرے لاہور! جو میرا نہیں۔ ہر وہ شخص جو تجھ پر دندناتا چلتا ہے‘ تجھے اپنا سمجھتا ہے۔ لیکن تو سب سے بے نیاز ہے۔ ہر طاقتور تیرے خواب‘ تختِ لاہور کے خواب دیکھتا ہے۔ کچھ دیر کیلئے تخت پر بیٹھ بھی جاتا ہے۔ سوچتا ہے کہ بس میں ہی تھا اور میں ہی رہوں گا۔ اسے کوئی بتاتا نہیں کہ یہاں ایاز‘ ایبک‘ آصف جاہ‘ جہانگیر اور نورجہاں سو رہے ہیں۔ تخت پر بیٹھا شخص سینہ چوڑا کرکے چاروں طرف فخر سے دیکھتا ہے لیکن نہیں دیکھتا تو زیرِ قدم نہیں دیکھتا‘ تخت کے نیچے نہیں دیکھتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved