بجلی بریک ڈاؤن پر قوم سے
معذرت خواہ ہوں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بجلی بریک ڈاؤن پر قوم سے معذرت خواہ ہوں‘‘ اگرچہ ماضی کے بہت سے معاملات پر بھی معذرت بے حد ضروری تھی لیکن اب وہ اتنے پرانے ہو چکے ہیں کہ لوگ انہیں بھول گئے ہوں گے کیونکہ مہنگائی و دیگر مسائل کی وجہ سے اُن کی یادداشت بہت کمزور ہو چکی ہے اور مہنگائی کا یہ بھی بڑا احسان ہے کہ یادداشت کی اس کمزوری بلکہ فقدان سے ماضی دُھل کر آئینے کی طرح صاف ہوتا جا رہا ہے اور جس میں قوانین میں ترامیم کا بھی بڑا حصہ ہے جسے نعمتِ غیر مترقبہ ہی سمجھا جانا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹ کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دماغی صحت کے لیے اقدامات یکجا
کرنے کی ضرورت ہے: صدر علوی
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ''دماغی صحت کے لیے اقدامات یکجا کرنے کی ضرورت ہے‘‘ کیونکہ قوم کو سب سے زیادہ خطرہ دماغی معاملات سے ہے کیونکہ جہاں کرتا دھرتائوں کی عقل مائوف ہو چکی ہے‘ وہاں عوام یادداشت کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں مثلاً کھانا کھانے کے بعد انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ کھانا کھا چکے ہیںاور دوبارہ کھانا شروع کر دیتے ہیں اور اس سے علم ہوتا ہے کہ ملکِ عزیز میں اشیائے خور و نوش کی فراوانی ہے جو نہایت سستے داموں لوگوں کو میسر ہیں اور بسیار خوری کی وجہ سے لوگ بدہضمی میں بھی مبتلا رہے ہیں۔ اگلے روز آپ دماغی صحت کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
پارٹی رہنما عمران خان کے جھوٹے
بیانیے کا پول کھولیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پارٹی رہنما عمران خان کے جھوٹے بیانیے کا پول کھولیں‘‘ اگرچہ یہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ اگر یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو کئی اور جھوٹے بیانیوں کے پول بھی کھلنا شروع ہو جائیں گے جبکہ عمران خان کے بیانیے کا پول عوام پر کھل ہی چکا ہے جو آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں؛ چنانچہ پارٹی رہنما تلاش کریں کہ اگر ہمارا بھی کوئی بیانیہ ہو تو اس کا بھی پول کھولنے کی کوشش کریں؛ اگرچہ ہماری ہر چیز شیشے کی طرح صاف ہے‘ حتیٰ کہ اس میں ہر شخص اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں بلوچستان کے رہنما جعفر مندوخیل اور دیگر افراد سے ملاقات کر رہے تھے۔
سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے: شاہ محمود
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے‘‘ اور یہ ایک لحاظ سے نہایت خوش آئند بھی ہے کیونکہ منصوبہ بندی کے بغیر کیے گئے اکثر کاموں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے جیسا کہ قومی اسمبلی سے استعفے کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہی دے دیے تھے اور جب اسمبلی میں واپس جانے لگے تو استعفے منظور کر لیے گئے جس پر اب پچھتا رہے ہیں لیکن بقول شاعر ع
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت
آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
بلاول کی وزارتِ عظمیٰ کی خواہش
پر اعتراض نہیں: حنیف عباسی
مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما حنیف عباسی نے کہا ہے کہ ''بلاول کی وزارتِ عظمیٰ کی خواہش پر اعتراض نہیں‘‘ بلکہ ہمیں تو کسی کی بھی وزارتِ عظمیٰ کی خواہش پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ویسے ہی بُرا حال ہو چکا ہے، اور وزارتِ عظمیٰ کا سوچ بھی نہیں سکتے، خواہ کوئی بھی وزیراعظم بن جائے‘ ہمیں اس سے کیا؟ پارٹی میں کوئی دم خم ہوتا تو یہ آ بیل مجھے مار‘ والی صورتحال ہوتی مگر ٹکر وغیرہ مارنے کے لیے جس زور کی ضرورت رہتی ہے‘ اس کا بھی اب کوئی نام و نشان نظر نہیں آ رہا۔ آپ اگلے روز لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ ا ب آخر میں اقتدار جاوید کی غزل:
شام پریوں سے بھری تھی رات چپ ہے جھیل کی
گنگ کرتی ہے زبانوں کو دعا تکمیل کی
نام چمکا میرے دل میں سورۂ رحمان کا
پوری سورت صبحِ خوش ہنگام نے ترتیل کی
جیسے کی موصول آغازِ محبت کی دعا
ہم نے اگلوں تک وہ رحمت کی ہوا ترسیل کی
واقعہ ایسا نہ تھا جیسے کیا ہم نے بیان
روپ سے بہتر کہیں اس روپ کی تفصیل کی
اب یہاں آ کر نہیں معلوم ہوتا‘ رہ گزر
چھوڑ دی تھی کس جگہ پر‘ کس جگہ تبدیل کی
عذر جو بھی تھا مفر کرنا گوارا ہی نہ تھا
حکم جس کا بھی تھا تیرے نام پر تعمیل کی
اس غبارِ دہر سے اس نے اٹھایا راستہ
یہ خیال افروز مجھ پر شاعری تفضیل کی
اے جہانِ مصر یہ نیرنگیوں کا وقت ہے
اے زلیخا خوش خبر اے موج آبِ نیل کی
باز ایسے تو نہیں آ کر اترتا ہاتھ پر
رتجگے کاٹے کئی تو خواب کی تشکیل کی
آج کا مقطع
بے تعلق بھی ہے وہ ہم نے بھی ہے اب تک ظفرؔ
رابطہ جوڑا ہوا ٹوٹے ہوئے تاروں کے ساتھ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved