تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     26-01-2023

ملک گیر الیکٹرک بریک ڈائون

پیر کی صبح ساڑھے سات بجے سے بجلی کا بریک ڈائون ہوا اور منگل کی صبح ساڑھے سات بجے تک بھی مکمل بحالی نہیں ہو سکی۔ یہ بریک ڈائون پورے ملک پر محیط رہا۔ معمولی وقفوں سے بعض علاقوں میں جزوی بحالی ہوتی رہی، لیکن پھر بجلی جاتی رہی۔ ہم نان ٹیکنیکل آدمی ہیں، اس لیے بجلی کے پیداواری نظام اور ترسیلی نظام کی فنی باریکیوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق شارٹ سرکٹ سے مراد ترسیلی نظام میں ایسی خرابی ہے کہ جس کے اثرات محدود نوعیت کے ہوں اور ان کی بحالی بھی مقامی نوعیت کی ہو۔
ہم قیاساً کہہ سکتے ہیں: بجلی کے پیداواری نظام کو جب نیشنل گرڈ میں شامل کیا جاتا ہے تو یا تو گرڈ اس نظام کے دبائو کو قبول نہیں کر پاتا، یعنی اچانک رسد طلب سے بڑھ جاتی ہے یا طلب سے کم ہوجاتی ہے، اس عدمِ توازن کی وجہ سے نظام مفلوج ہو جاتا ہے، یعنی بریک ڈائون ہو جاتا ہے۔ بریک ڈائون سے مراد نظام کی مکمل شکستگی۔ نیز یہ بات بھی ہم فنی طور پر سمجھ نہیں پائے کہ ایک جگہ ٹرپ ہونے سے سارا نظام کیسے مفلوج ہو گیا۔ ہم نے الیکٹریکل انجینئر راشد جمیل سے اس کی بابت معلوم کیا تو انہوں نے بتایا: ''جب ایک جگہ سسٹم ٹرپ ہو جائے اور اُسے روکا نہ جا سکے تو بتدریج سارا نظام مفلوج ہونے لگتا ہے، اس کے لیے کنٹرول روم میں چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کا نظام ہوتا ہے، پیش بندی کا بھی میکانزم ہوتا ہے، کمپیوٹر پر انجینئرز مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر کہیں خرابی پیدا ہو جائے تو اُس کے سبب بتدریج پورے نظام کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے اُسے وہیں پر موقوف کر دیا جاتا ہے‘‘۔ پس سوال یہ ہے: آیا ہمارے ہاں یہ نظام ہے؟ اگر ہے تو اس ساری ناکامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟‘‘۔
پیر کو جب پورے ملک میں یہ بریک ڈائون ہوا تو کوئی شعبے کا ایسا ماہر الیکٹرانک میڈیا پر سامنے نہیں آیا کہ وہ قوم کو اس مسئلے کی باریکیوں، نقائص اور خامیوں سے آگاہ کرے اور یہ کہ اس کی بحالی کتنی دیر میں اور کس حد تک ممکن ہے۔ وزیر توانائی جناب خرم دستگیر بھی اندازوں اور تخمینوں پر بات کرتے رہے، اُن کے پاس کوئی مکمل فنی معلومات تھیں، نہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ قوم کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے اور یہ بتاتے کہ نظام کب تک مکمل بحال ہو جائے گا۔
2008-13ء کے پیپلز پارٹی دورِحکومت میں بعض علاقوں میں روزانہ سولہ سے بیس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ رہتی تھی، اس لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نہایت عجلت سے بجلی کی پیداوار کے نئے کارخانے بنائے۔ پرویز مشرف کے دور میں بجلی کی طلب بڑھتی رہی، لیکن بجلی کی پیداوار کے منصوبے نہیں بنائے گئے اور طلب و رسد میں بہت بڑے گیپ کا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی کے دور میں عروج کو پہنچ گیا۔ 2018-22ء پی ٹی آئی کی حکومت نے بجلی کا نیا پیداواری نظام بنایا، نہ موجودہ کارخانوں کو استعداد کے مطابق چلانے کا انتظام کیا اور نہ بجلی کے ترسیلی نظام کو اَپ گریڈ کیا، اس ساری ناقص کارکردگی کے مابعد اثرات اب سامنے آ رہے ہیں۔ ہر دور میں عوام کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ مسندِ اقتدار پر فائز حکومتِ وقت کو تمام ناکامیوں کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ نظامِ حکومت اور اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں ایک تسلسل کا نام ہے، یہ آنِ واحد میں عالَمِ غیب سے نمودار نہیں ہوتیں۔ قابل اجمیری نے کہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہر حکومت پر جب افتاد آتی ہے تو وہ وقت گزاری کے حیلے اور تدبیریں اختیار کرتی ہے، انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُن کا اقتدار کب تک رہے گا کہ اُس کے لیے وہ طویل منصوبہ بندی کریں اور حقائق کے بارے میں عوام میں آگہی پیدا کریں، مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں اور طویل المدت منصوبے بنائیں۔ کسی بھی شعبے کے معاشی منصوبے نہ راتوں رات بن سکتے ہیں اور نہ پلک جھپکتے میں تکمیل پا سکتے ہیں۔ یہ طویل المدت منصوبہ بندی کا کام ہے، جبکہ ہمارے وطنِ عزیز کے سیاسی حالات کی بے یقینی اور عدمِ استحکام اِس کا متحمل نہیں ہو پاتا۔ نیز یہ بات ہم نہیں سمجھ پائے کہ اگر کسی ایک جنریٹنگ سسٹم سے بجلی نیشنل گرڈ سسٹم میں ڈالی جا رہی ہو اور اُس میں کوئی خرابی یا عدمِ توازن پیدا ہوجائے تو پورے ملک کا سسٹم کیسے ناکام ہو گیا۔
آپ جس شہر کا بھی جائزہ لیں‘ وہاں جو بجلی کا پیداواری اور ترسیلی نظام ہے وہ موجودہ آبادی کی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں کوئی بھی کام طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے اور نہ حکومتوں کے پاس اس قدر وسائل ہوتے ہیں۔ اب تو ہماری معیشت جاں بلب ہے، اُس میں اپنی وقتی ضروریات کوپورا کرنے کی سکت ہی نہیں ہے،چہ جائیکہ دس بیس سال آگے کی ممکنہ طلب کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے۔ جوناقص و ناتمام نظام چل رہا تھا، خان صاحب کو جب احساس ہوا کہ اُن کی حکومت کسی وقت بھی جا سکتی ہے تو انہوں نے معیشت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا، آئی ایم ایف سے معاہدے کیے، اُن کی کڑی شرائط تسلیم کیں، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پورا مالیاتی نظام اُن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، پھر اچانک اس سارے عہد و پیمان سے پیچھے ہٹ گئے اور اس کے برعکس اقدامات شروع کر دیے۔ ڈیزل اور پٹرول کے دام کم کر دیے۔ اس میں یہ بدنیتی کارفرما تھی کہ آنے والی حکومت جب آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے اقدامات کرے گی تو وہ اپنی مقبولیت کھو دے گی اور ایک بار پھر ہمارے لیے ماحول سازگار ہو جائے گا۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ملک کا کیا بنے گا۔ ہمارے سیاست دان اتنے کوتاہ نظر ہیں کہ اُن کے نزدیک اگر وہ مسندِ اقتدار پر ہیں تو پاکستان قائم رہنا چاہیے اور اگر ان سے اقتدار چھن جاتا ہے تو اُن کی بلا سے یہ ملک رہے یا نہ رہے۔
پس ہم جیسے اناڑی اور غیر فنی افراد کا بھی وجدان اور عقلِ عام یہ بتاتا ہے کہ سب سے پہلے بجلی کے موجودہ پیداواری نظام اور کارخانوں کو اووَر ہال کیا جائے، اُن کو اپنی پوری پیداواری استعداد پر لایا جائے، تعمیر و مرمت کی جائے، ناقص پرزوں کو تبدیل کیا جائے، ایندھن کا حسبِ ضرورت انتظام کیا جائے، بجلی کے ترسیلی نظام کی بتدریج مرمت کر کے اُس کی استعداد کو بڑھایا جائے تاکہ آئے دن کے مکمل بریک ڈائون اور شارٹ سرکٹ کے خطرات کم سے کم ہو سکیں۔ اُس کے بعد آئندہ پچیس سال کی طلب کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جائے۔ شہروں کے نئے ماسٹر پلان بنائے جائیں، اس سلسلے میں سیٹلائٹ سے مدد لے کرجیو فینسنگ کی جائے، جب تک موجودہ ہائوسنگ سوسائٹیاں اور سکیمیں مکمل شہری سہولتوں کے ساتھ اسّی فیصد آباد نہ ہو جائیں، شہر وں کی توسیع پر پابندی لگا دی جائے۔
یہ حقیقت بھی منصوبہ سازوں کے علم میں ہونی چاہیے کہ جس رفتار سے زندگی مشینی بنتی جا رہی ہے، اُسی رفتار سے توانائی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے، سڑک پرچلنے والی پرائیویٹ کاروں، موٹر سائیکلوں، بسوں، ٹرکوں، سامان بردار ٹرالروں اورشہروں کے مابین ٹرانسپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے، اُسی تناسب سے پٹرول اور ڈیزل کی طلب بڑھ رہی ہے، جس رفتار سے ہر گھر میں ڈیپ فریزر، ریفریجریٹر، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، لیپ ٹاپس، گرینڈنگ مشینوں، موبائل فون، الیکٹرک پنکھوں، استریوں، ہیٹنگ سسٹم اور ایئرکنڈیشنرز میں اضافہ ہو رہا ہے، اُسی رفتار سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تقریباً تمام گاڑیاں ایئر کنڈیشنڈ آ رہی ہیں اور اسی تناسب سے پٹرول، ڈیزل اور بیٹریز کی طلب بڑھ رہی ہے۔ یہی صورتِ حال دفاتر کی ہے۔
جدید سہولتوں نے انسان کو تن آسان، کم کوش، کاہل اور آرام طلب بنا دیا ہے، گرم و سرد موسم کا مقابلہ کرنے کی ہمت کم سے کم بلکہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے وطنِ عزیز میں گھرانوں میں بزرگوں کا وجود باعثِ برکت اور اُن کی خدمت کو سعادت سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کا انسان مغرب کی طرح تن آسان اور خود غرض ہوتا جا رہا ہے، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہمارے ہاں چند دہائیوں سے لاوارث بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے اولڈ ایج ہائوسز بنائے جا رہے ہیں، جہاں ان کی بقائے حیات کے لیے ضرورتوں کا انتظام ہوتا ہے، پہلے ان کا تصور نہیں تھا، لیکن اب یہ ادارے قائم ہو رہے ہیں اور معاشرے کی ضرورت ہیں۔ آپ اولڈ ایج ہائوسز میں جاکر بوڑھے مردوں اور عورتوں کی دردناک داستانیں سنیں تو آپ ہل کر رہ جائیں گے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ لوگوں میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کے بجائے جہالت کے فروغ میں اضافہ کر رہے ہیں، لوگوں کو حقیقت پسند بنانے کے بجائے ہیجان انگیزی اور جذباتیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بے معنی اور بے مقصد سیاسی مباحثے کرا کے معاشرے کی مجموعی ساخت اور پورے ڈھانچے کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ پہلے سے منتشر اور تقسیم شدہ قوم کے شیرازے کو مزید بکھیرا جا رہا ہے۔ خان صاحب کے بھاشن، گزشتہ دس سال سے سنتے چلے آ رہے ہیں اور ایک ہی جیسے فرمودات سن سن کر اُبکائی آنے لگتی ہے، ایک ہی جیسی باتوں کی روز جُگالی کی جاتی ہے، بہتر تو یہ ہوتا: اُن کے فرمودات کو ریکارڈ کر لیا جاتا اور کوئی نئی بات ہوتی تو ضرور اُس سے عوام کو فیض یاب کیا جاتا، لیکن روز روز کے تکرار در تکرار کی اذیت سے نہ گزارا جاتا۔
اپنی انا کی تسکین کے لیے اسمبلیوں کی تحلیل اور پھر فوری نئے انتخابات کا مطالبہ، استعفے، ان کی فوری منظوری کے مطالبے اور منظوری کا مرحلہ آیا تو ندامت اور پشیمانی اور واپسی کے لیے تگ و دو، پہلے سپریم کورٹ سے اپیل کہ استعفے کیوں منظور نہیں کیے جا رہے اور اب اپیل کہ منظورکیوں کیے گئے۔ کسی دانا نے کہا تھا: ''چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی‘‘۔ دانا لوگ کہتے ہیں: ''پہلے تولو، پھر بولو‘‘، یعنی کسی کام سے پہلے اس کے انجام کے بارے میں سوچو، نفع نقصان کا تخمینہ لگائو اور پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرو۔ عربی کا مقولہ ہے: ''کسی ابتلا میں داخل ہونے سے پہلے اس سے نکلنے کی تدبیر کرو‘‘۔ ہمارے سیاسی اثاثے میں جو نادر اور انمول قیادت کا ذخیرہ ہے، اُن سب کا حال اُنیس بیس، اٹھارہ بیس اور سولہ بیس کے فرق سے ایک جیسا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved