پہلے ایسا پُرآشوب دور کسی نے دیکھا تھا؟ میرا کالم ایسے قارئین بھی پڑھتے ہوں گے جو اس ملک میں پچاس‘ ساٹھ سال سے جاری سیاسی اور معاشی اتار چڑھائو دیکھ رہے ہوں گے۔ ان سے بھی میرا یہی سوال ہے کہ کیا اس سے پہلے کبھی ایسا کوئی دورگزرا ہے یا یہ اپنی مثال آپ ہے؟ ستر‘ اسّی سال عمر والے بزرگوں کی تعداد قلیل ہو گی‘ کیا گزشتہ چالیس‘ پچاس سالہ ملکی تاریخ کا مشاہدہ کرنے والے مجھے آگاہی دیں گے کہ کبھی اس سے مشکل حالات پاکستان کو درپیش تھے؟ نااتفاقی‘ نفرت اور انتقام کی ایسی مثالیں پہلے کسی نے دیکھی ہیں؟ مجھے ایسا لگتا تھا کہ پرویز مشرف کا دور بہت مشکل تھا جب سیاسی رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا، لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ سب کچھ دیکھ کر میری رائے تبدیل ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اپریل 2022ء کے بعد سے پاکستانیوں نے سب سے مشکل دور دیکھا ہے اور میں نے بھی اپنی زندگی کا سب سے بدترین یہی دور دیکھا ہے۔ تین سال قبل جب کورونا آیا تھا تو لوگوں کو معاشی اور طبی طور پر تباہ کر گیا تھا، لوگوں نے گھروں میں ایک ایک دن میں دو‘ دو جنازے اٹھائے تھے۔ کسی کا کاروبار ختم ہو گیا تھا تو کوئی فاقوں تک پہنچ گیا۔ کورونا کی وجہ سے لوگ معذوری تک کا شکار ہو گئے تھے۔ طبی عوارض سنگین ہو گئے، کسی کے دل کا سائز بڑھ گیا تو کسی کے گردے نکارہ ہو گئے۔ کورونا کے بعد کی تباہ کاریوں ان سے علاوہ ہیں۔ مگر اس وقت ایک امید‘ ایک آس تھی کہ جلد ہی دنیا اِس دور سے نکل آئے گی۔ لیکن اب جو ہو رہا ہے‘ جس کو دیکھو‘ جس سے پوچھو‘ ہر کوئی سراسیمگی، وحشت، پریشانی اور مکمل ناامیدی کا شکار نظر آتا ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں ایک چلتی ہوئی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا‘ وہ دن اور آج کا دن‘ ہر روز عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی بری خبر سامنے آتی ہے۔ میری بہن کہتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک کو نظر لگ گئی ہے‘ سارے ملک کا صدقہ اتارنا چاہیے۔ صدقے اتارنے کے لیے بھی پیسے شاید ہی ملکی خزانے میں ہوں، ایسے میں دعائوں کا ہی سہارا رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی مظلوم کی دعا سیدھا عرش تک جاتی ہے۔ اشرافیہ کے پاس خود پر خرچنے کے لیے بہت پیسے ہیں مگر عوام کودینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اپنے غیر ملکی دوروں میں یہ سب سے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں‘ سب سے مہنگی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں مگر عوام کو کہتے ہیں کہ چائے چھوڑ دو‘ روٹی آدھی کر دو۔ یہ سراسر مذاق ہے‘ ایک بھیانک مذاق! آج کل تو لوگ وڈیو لنک پر ہی کانفرنس اٹینڈ کر لیتے‘ مگر غریب قوم کے امیر حکمرانوں کو سرکاری خرچے پر ملکوں ملکوں گھومنے کا شوق ہے۔ اگر یہ سنجیدہ ہوں تو بچت سے کافی سرمایہ بچا سکتے ہیں جو غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکتا ہے۔
موجودہ وفاقی حکومت‘ ڈھائی ماہ بعد جس کا ایک سال مکمل ہو جائے گا‘ چُن چُن کر اپنے مخالفوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ چاہے وہ سیاست دان ہوں یا صحافی‘ سب ان کے زیرِ عتاب آئے ہوئے ہیں۔ یہ سیاسی تنائو اب اعصاب شکن ہو چکا ہے مگر سیاسی بساط پر چال پر چال چلی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو ہرانے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ اَنا اور طاقت کے اس کھیل میں سب سے زیادہ نقصان ملک اور عوام کا ہوا ہے۔ اشرافیہ تو مزید خوشحال ہو گئی ہے، ان کے کیسز بھی ختم ہو رہے ہیں مگر عوام مزید بدحال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں میرا بھی اتنا بڑا نقصان ہوا کہ جس کی تلافی ہی ممکن نہیں۔ مجھ سے میرا شریکِ حیات چھین لیا گیا۔ اب میری زندگی کا کوئی محور‘ کوئی مقصد ہی نہیں رہا۔ سمجھ نہیں آتا کہ زندگی کیسے اور کہاں سے دوبارہ شروع کروں۔ میں اپنی نجی زندگی میں بہت محدود ہوں۔ بس اپنا کام کیا اور باقی سارا وقت گھر پر فوکس کیا لیکن اب تو میرا آشیانہ ہی بکھر گیا ہے۔ صبر کرتی ہوں‘ روتی ہوں اور ساتھ ساتھ کوشش کر رہی ہوں کہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دوں مگر یہ بہت مشکل ہے۔ یہ نہایت مشکل کام ہے مگر میں صبر کا دامن تھامے ہوئی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیں اپنے حصار میں لے لے گی۔ میں اب بھی اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے پُرامید ہوں، میری حب الوطنی میں رتی بھر بھی کمی نہیں ہوئی‘ میں مایوس نہیں ہوئی۔ بہت کوشش کرتی ہوں کہ صبر کروں اور عوامی مسائل پر بات کرتی رہوں۔ اگر ہم نے عوامی مسائل پر بات نہ کی تو کون کرے گا؟ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اس معاشرے میں حصولِ انصاف کتنا مشکل ہے۔ ایک طرف سیلاب نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے‘ لوگ اب تک کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں‘ ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ دوسری طرف عوام آٹے سے بھی محروم ہو چکے ہیں‘ ان کے پاس کھانے کو پیسے نہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں کتنے ہی لوگوں نے معاشی حالات کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ بجلی اور آٹے سے محروم عوام سخت سردی میں گیس کی قلت کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ عوام کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی‘ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اشرافیہ صرف اپنی تسکین کیلئے کام کرتی ہے‘ اس کی توجہ صرف کرسی اور سیاست پر مرکوز ہے۔ عوام کا کسی کو احساس نہیں ہے۔
نقیب اللہ محسود قتل کیس کے سارے ملزمان رہا ہو گئے ہیں۔ ابھی تک ارشد شریف قتل کیس میں ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی لیکن ہاں‘ فواد چودھری کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کیا وہ کوئی دہشت گرد ہیں؟ نہیں‘ وہ ایک سیاستدان ہیں۔ اختلافِ رائے سیاست کا حسن ہے مگر بولنے کی پاداش میں مخالفین کو گرفتار کرنا عجیب بات ہے۔ اس وقت اس بات پر فوکس کرنا ضروری تھا کہ پورا ملک اندھیرے میں کیوں ڈوبا؟ آئندہ ایسے کیا اقدام کیے جائیں کہ ایسی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو۔ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی کہ ''ایٹمی طاقت کا بجلی کا میٹر آئی ایم ایف والے اتار کر لے گئے‘‘۔ جس وقت بلیک آئوٹ ہوا‘ پہلے بجلی گئی‘ پھر گیس گئی‘ پھر موبائل سروس اور انٹرنیٹ بھی ڈائون ہو گئے۔ میرے جیسے گھر سے کام کرنے والے سارا دن بس دعا ہی کرتے رہے کہ بجلی آ جائے‘ نیٹ آ جائے‘ سگنل آ جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سب سے زیادہ مجھے موبائل سگنلز کا افسوس ہو اکہ کام رک گیا‘ رابطے ٹوٹ گئے۔ لوگوں نے ہسپتالوں‘ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ بہت سے لوگ لفٹوں میں پھنس گئے، شدید حبس اور سردی میں بجلی آنے کا انتظار کرتے رہے۔ کوئی اے ٹی ایم سے رقم نہیں نکلوا سکا‘ کوئی کھانا نہیں بنا سکا، دکانیں‘ مارکیٹیں‘ تجارتی مراکز بند ہو گئے۔ سب لوگ اپنی اپنی رضائیوں اور کمبلوں میں دبک کر بجلی آنے کا انتظار کرتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں نہیں بلکہ زمانۂ قدیم میں رہ رہے ہیں۔ اُس وقت تو پھر پتھر رگڑ کر آگ جلا لی جاتی تھی لیکن ہم شہری لوگ تو وہ بھی نہیں کر سکتے۔ پوری قوم انتظار کرتی رہی۔ پندرہ‘ سولہ گھنٹے بعد بجلی کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے بعد بدترین لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی۔ سب لوگ وسوسوں کا شکار رہے اور دعا کرتے رہے کہ سب خیر ہو! بجائے اس کا تعین کرنے کے کہ پورا ملک اندھیرے میں کیوں ڈوب گیا‘ اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ سیاسی انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ فواد چودھری کو لاہور اور اسلام آباد کے درمیان گھماتے رہے۔ سارا ملک یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ ہر مہینے‘ دو ہفتے بعد کسی نہ کسی صحافی یا سیاستدان کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے‘ انتقامی کارروائیوں کے بجائے گورننس کی طرف فوکس کیا جائے۔ کسی کو اگر کسی کیس میں گرفتار کرنا ہے تو دن کی روشنی میں‘ وارنٹ دکھا کر‘ ضابطے کے مطابق گرفتار کیا جائے اور عدالت میں پیش کیا جائے۔ یوں رات کی تاریکی میں لوگوں کو بغیر وارنٹ دکھائے گھروں سے اٹھا کر کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ پولیس کو سیاسی آلۂ کار بنانا کسی طور درست نہیں۔ پولیس تو وہ فورس ہے جو سب سے زیادہ ڈیوٹی کرتی ہے اور سب سے کم بجٹ اور سہولتیں اسے ملتی ہیں۔ وی آئی پیز ڈیوٹیوں کی تلوار بھی اس کے سروں پر ہر وقت لٹکتی رہتی ہے۔ اس کی جاب کی کوئی ٹائمنگ نہیں‘ اٹھارہ‘ بیس گھنٹے ڈیوٹی کرنا اور پھر سیاسی کارروائیوں میں بھی اس کو آگے کر دینا‘ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ملک کس طرف جارہا ہے؟ اس ملک میں سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا تو کچھ بھی‘ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ انتقامی سیاست کو ختم ہونا چاہیے‘ گورننس کی طرف توجہ دیں‘ عوام کی طرف متوجہ ہوں کہ وہ کس کرب سے گزررہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved