تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-01-2023

غلط کمرہ

ذہانت کی ممکنہ انتہا یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ ذہانت کا حصول یقینی بنانے پر متوجہ رہے۔ اس معاملے میں کہیں رُک جانا اپنے وجود کو گھن لگانا ہے۔ پہلے مرحلے پر تو یہ سمجھنا ہے کہ ذہانت کا سفر رُکنا نہیں چاہیے۔ انسان اپنے ذہن کو جتنی بھی وسعت دے سکتا ہے‘ ضرور دے۔ ذہن کی کارکردگی بہتر بنانے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ انسان مطالعے کے ذریعے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے اور مشاہدے کے ذریعے بھی۔ تعلقات بھی انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان تفاعل یعنی معاشرت ہی ذہن کو حقیقی جِلا دینے میں کامیاب ہوتی ہے۔
گزرے ہوئے زمانوں میں چین غیر معمولی دانش کا گڑھ تھا۔ چین کی تہذیب نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ علم و حکمت کے موتی بکھیرنے والی کئی عظیم شخصیات چین کے حصے میں آئی ہیں۔ اِن میں کنفیوشس بھی شامل ہے۔ کنفیوشس کی سوچ نے چینی معاشرے کو فیصلہ کن حد تک متاثر کیا۔ ہر دور میں چینی تہذیب و ثقافت پر کنفیوشس کی دانش کے اثرات نمایاں رہے ہیں۔ کنفیوشس نے کہا تھا ''اگر آپ کمرے کے ذہین ترین انسان ہیں تو پھر آپ غلط کمرے میں ہیں‘‘۔ کنفیوشس نے بہت بڑی بات کتنی آسانی سے کہہ دی۔ سوچئے اور سر دُھنتے رہیے۔ کسی بھی انسان کی ذہانت کا حقیقی امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے پر کمر بستہ رہے یعنی زیادہ سے زیادہ سیکھتا رہے۔ کوئی بھی انسان کس سے سیکھ سکتا ہے؟ اپنے سے زیادہ ذہین انسان سے۔ ذہانت تو یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ سیکھنے پر متوجہ رہے اور اس کے لیے ذہین تر لوگوں کی صف میں شامل ہوتا رہے۔ اگر آپ کسی کمرے کے ذہین ترین انسان ہیں تو پھر آپ غلط کمرے میں اس لیے ہیں کہ وہاں موجود لوگوں سے آپ کچھ بھی نہیں سیکھ سکتے۔ اگر سب آپ سے کم ذہین ہیں تو آپ کو کیا دے سکیں گے؟ اور اگر آپ واضح طور پر یہ محسوس کرنے لگیں کہ آپ سے ذہین پورے کمرے میں کوئی نہیں تو پھر اول تو آپ کسی کی ذہانت کو قبول نہیں کریں گے اور دوسری طرف اگر کسی میں کچھ ہوگا بھی تو وہ خاموش رہنے کو ترجیح دے گا۔
شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات کے معروف مصنف نپولین ہل نے شاندار کامیابی یقینی بنانے کے حوالے سے ماسٹر مائنڈ گروپ کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کامیابی یقینی بنانے کے 16 اصول مرتب کیے تھے۔ ان میں ماسٹر مائنڈ گروپ بھی شامل تھا۔ ماسٹر مائنڈ گروپ سے مراد ہے ہم خیال لوگوں کا گروہ۔ ایسا گروہ مشترکہ اہداف کے حوالے سے سوچتا اور خیالات کا تبادلہ کرتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ شاندار کامیابی کے لیے ماسٹر مائنڈ گروپ کا رکن ہونا بہت حد تک لازم ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ماسٹر مائنڈ گروپ میں ذہانت کی سطح کا فرق ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی بہت پُرجوش ہو مگر زیادہ ذہانت کا حامل نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی غیر معمولی ذہانت رکھتا ہو مگر دوسروں سے سیکھنے میں کوئی قباحت بھی محسوس نہ کرتا ہو۔ بہر کیف‘ ماسٹر مائنڈ گروپ کے ذریعے کوئی بھی انسان شاندار کامیابی کے لیے ذہن سازی کرسکتا ہے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے اُسے جس نوعیت کی تحریک درکار ہوتی ہے وہ ماسٹر مائنڈ گروپ سے مل سکتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ حلقۂ احباب کو سیکھنے یا سکھانے کا موقع سمجھنے کے بجائے محض برتری ثابت کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے شعبے میں بھرپور کامیاب ہو تو کسی سے کچھ زیادہ سیکھنے پر متوجہ نہیں ہوتا اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ حلقۂ احباب میں سبھی اُس سے کمتر ذہانت کے حامل ہوں۔ حلقۂ احباب صرف اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ مل بیٹھیں‘ ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کریں۔ یہ لین دین علم اور تجربے کے معاملے ہی میں زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہو وہ دوسروں تک پہنچنا چاہیے اور دوسروں سے کچھ لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ بالعموم ایسا ہوتا نہیں! اکثریت اُن کی ہے جو حلقۂ احباب میں شامل افراد پر کسی نہ کسی حوالے سے اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
کسی بھی حلقۂ احباب کا حصہ بنتے وقت مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اُسے کچھ دینا ہے اور اُس سے کچھ لینا بھی ہے۔ حلقۂ احباب میں مزاج کا بھی تنوع ہوسکتا ہے اور صلاحیتوں کا بھی۔ یہ تنوع ہی کسی بھی حلقۂ احباب کا اصل حسن ہوتا ہے۔ حلقۂ احباب نہ تو مقابلے کا میدان ہے نہ اپنی اپنی اَنا کا مظاہرہ کرنے کی جگہ۔ کسی بھی حلقۂ احباب میں پیشہ ورانہ حسد بھی نہیں ہونا چاہیے۔ حلقۂ احباب کی مجموعی فضا ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی اِسے بوجھل محسوس نہ کرے اور کچھ نہ کچھ پانے پر آمادہ رہے۔ کوئی کتنا ہی ذہین ہو اور پروفیشنل معاملات میں چاہے کہیں بھی پہنچ چکا ہو‘ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے اور ذہانت میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ تصور ذہن سے کھرچ کر پھینک دینے کی ضرورت ہے کہ بہت سیکھ لیا، اب مزید کچھ بھی سیکھنے اور کرنے کی ضرورت نہیں۔ سیکھنے کا عمل کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ ہو ہی نہیں سکتا!
جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے، سیکھنے کا عمل جاری رکھا جاسکتا ہے۔ اس ایک عمل کے جاری رہنے ہی سے شخصیت کِھلتی ہے، خوش نما ہوتی اور دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ عملی سطح پر آپ کو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ کسی نے سیکھنے کا عمل ترک کیا اور اپنے وجود کو زنگ لگا بیٹھا۔ جب انسان سیکھنا ترک کرتا ہے تب اَپ ڈیٹنگ اور اَپ گریڈنگ‘ دونوں ہی معاملات میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ کامیابی کی تیاری کرنے کے دوران سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی جانی چاہیے کہ سیکھنے کا عمل متاثر نہ ہو۔ کسی بھی شعبے میں بڑھتے وہی ہیں جو کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت زیادہ متاثر ہوتا ہے جب انسان ایسے لوگوں میں بیٹھنا شروع کرتا ہے جو اُس سے کمتر ذہنی سطح کے ہوں۔ کم ذہین افراد میں بیٹھنا اُنہیں زیادہ اچھا لگتا ہے جو خود کو ہر حال میں برتر دیکھنے کے خواہش مند ہوں۔ اس خواہش کی تکمیل کی خاطر وہ اپنے وجود کو بھی مشکلات سے دوچار کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔
دانش مندی کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسان ایسا حلقۂ احباب منتخب کرے جس میں کچھ لوگ اُس سے کم ذہین ہوں اور کچھ زیادہ۔ جو کم ذہین ہیں اُن کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ معیاری انداز سے جینے کے قابل ہوسکیں اور جو زیادہ ذہین ہیں اُن سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ زندگی کا معیار بلند کرنے میں مدد ملے۔ حلقۂ احباب میں انسان کو بے تکلفی محسوس کرنی چاہیے۔ اگر کچھ جاننا ہو تو پوچھنے میں جھجک محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ طرزِ فکر و عمل تصنع سے پاک ہو تو انسان ڈھنگ سے بہت کچھ کہہ سکتا ہے، سیکھ سکتا ہے، سکھا سکتا ہے۔ جس نے یہ طے کیا ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنا ہے، ذہنی سطح اِتنی بلند رکھنی ہے کہ لوگ دیکھ کر رشک کریں اُسے بہت کچھ سیکھنا ہی ہے۔ جب سیکھنا ہی ٹھہرا تو اندھوں میں کانا راجا یا بونوں میں ''نو گزا پیر‘‘ بننے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ بڑوں میں بیٹھ کر بڑا بننے پر دھیان دیا جائے۔ اِس کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ جن میں زیادہ ذہانت ہے اُن کی برتری تسلیم کی جائے، اُن کی شخصیت سے جو کچھ بھی لیا جاسکتا ہے لیا جائے اور اپنے آپ کو تیز رفتار پیش رفت کے قابل بنایا جائے۔
نچلی ذہنی سطح پر جینے والوں کے لیے بھی بڑوں کو قبول کرنا آسان نہیں ہوتا اور بلند ذہنی سطح کے حامل افراد بھی اپنے سے بڑوں کو قبول کرنے میں زیادہ فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جب ذہن جامد ہوگیا ہو تو انسان کچھ زیادہ نہیں سیکھتا۔ حقیقی فراخ دلی یہ ہے کہ کسی کی قابلیت کو محض تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اُس سے مستفید ہونے میں بھی دلچسپی لی جائے۔ صحبت اُن کی اختیار کی جائے جو کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوں۔ اور کسی سے حاصل کی جانے والی سب سے اچھی چیز دانش اور تجربہ ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے ہی پر شاندار اور فقید المثال نوعیت کی کامیابی ہاتھ لگتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved