تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     27-01-2023

شاید کہ بہار آئے

میرے مربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی اور ان کے چہیتے شاگرد جیدی میاں سے بات ہوئے کافی دن گزر گئے تھے۔ آج جیدی میاں کی کال آئی تو پتا چلا کہ بابا جی بھی لائن پر ہیں۔ سلام دعا کے بعد فرمانے لگے ''جیدی میاں بتا رہے تھے کہ پچھلے دنوں آپ پاکستان آئے ہوئے تھے‘‘۔ یہ سن کر مجھے ندامت محسوس ہوئی۔ میرا کرسمس کی چھٹیوں میں چند دن کیلئے پاکستان جانا ہوا تھا مگر مصروفیات اور بھاگ دوڑ میں ہی وہ چند دن گزر گئے۔ بابا جی سے ملاقات نہ ہو سکی۔ واپس آکر صبح و شام برطانیہ کے سرد موسم اور مشینی زندگی کے گرد گھومتے گزر جاتے ہیں۔ بابا جی چونکہ وڈیو کال پر تھے لہٰذا تھوڑی دیر کیلئے یوں محسوس ہوا کہ آج اُن کی مجلس میں ہی بیٹھے ہیں۔ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھا۔ بابا جی گویا ہوئے '' نجانے کیوں یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے جیسے آج کے پیچیدہ دور میں زندگی مشکل اور کٹھن ہو گئی ہے۔ گھٹن کا احساس بڑھ گیا ہے۔ باہمی میل جول کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ میلے ٹھیلے دراصل خوشی، تازگی اور جوش و ولولے کا بہانہ ہوتے ہیں۔ دنیا کورونا جیسی وبا سے باہر نکلی تو مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل سے پریشان ہے۔ لوگ مایوسی اور بیزاری کا شکار ہیں۔ ایسے میں اربابِ اختیار نے آہستہ آہستہ کر کے معاشروں کو پابندیوں میں جکڑ لیا ہے۔ خوش ہونے اور بے فکری کے چند لمحے بھی میسر نہیں۔ ایسی آندھی چلی کہ سب کچھ بہا کر لے گئی۔ ہم اپنی پہچان کھونے لگے ہیں۔ جیدی میاں نے بیچ میں بولنا چاہا مگر بابا جی نے بات جاری رکھی۔ ''ہمارے پنجاب میں جب سرسوں پھولتی تھی تو موسم بدل جانے کا پیغام لاتی تھی۔ فروری کے دوسرے ہفتے سے بسنت کا آغاز ہوجایا کرتا تھا۔ موسمِ بہار رنگوں اور خوشیوں کا استعارہ تھا۔ قومیں ثقافتی ورثہ اور روایات لے کر چلتی ہیں۔ نجانے کیوں ہماری توجہ اس طرف نہیں۔ ہمار ے ثقافتی ورثے میں بسنت بھی ایک اہم تہوار تھا۔ ان دنوں لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے اور پرانے لاہور میں خاص طور پر بڑی رونق ہوا کرتی تھی‘‘۔ جیدی میاں خاموش رہنے والے کب تھے‘ کہنے لگے '' یہ درست ہے کہ ثقافت اور تہذیبی ورثہ سینہ بسینہ اگلی نسلوں کو منتقل ہو تا ہے مگر بسنت منانے سے کیا فائدہ؟ ‘‘۔ بابا جی جیدی میاں کو سمجھاتے ہوئے فرمانے لگے ''ہر چیز فائدہ نقصان دیکھ کر نہیں کی جاتی۔ بسنت منانے کی روایت ہمارے صوفیا اور اولیاء کرام کے آستانوں سے جڑی ہے۔ یہ ہمارے آبائو اجداد کی میراث ہے۔ اس کی ایک تاریخ ہے‘‘۔ جیدی میاں نے فوری لقمہ دیا ''مگر بسنت کے نام پر لڑائی جھگڑے، ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی، دھاتی اور کانچ والی ڈور معصوم شہریوں کے گلے کاٹ رہی تھی۔ کتنے ہی بچے‘ موٹر سائیکل سوار گلے پر ڈور پھرنے سے زندگی کی بازی ہار گئے، اسی لیے بسنت پر پابندی لگائی گئی جو ایک درست اقدام ہے‘‘۔ بابا جی مسکراتے ہوئے کہنے لگے ''جیدی میاں آج کی نسل شارٹ کٹ ڈھونڈتی ہے۔ سب بند کر دینا مسائل کا حل نہیں۔ ہمارے ملک میں وسائل کی کمی ہے نہ قابلیت اور اہلیت کی۔ بس کچھ فیصلے معاملہ فہمی کے بجائے جذبات اور ذرائع ابلاغ کے پریشر سے مرعوب ہو کر کیے جاتے ہیں‘‘۔ جیدی میاں متفق نظر آئے کہ تربیت اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے کالی بھیڑوں کو قابو کیا جا سکتا ہے جو غیر قانونی کام کرتے ہوئے ڈور کو دھاتی اور کانچ کے مانجھے لگاتے ہیں۔ بابا جی اس بات پر خفا دکھائی دیے کہ اتنے سالوں میں ہم سے بندوبست نہ ہو سکا کہ مناسب اقدامات کر کے بسنت پرسے پابندی اٹھا لیتے جبکہ اس دوران ہم نے بہت بڑے اور مشکل ترین کام کر لیے۔ جیدی میاں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے ''جی بابا جی! ہم نے دہشت گردی جیسے عفریت کو قابو کیا۔ ہمارے سول اور عسکری اداروں نے مشکل ترین حالات میں بے پناہ قربانیوں کے بعد ملک میں امن اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنایا۔ کورونا میں‘ جب ساری دنیا لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں بند ہو گئی تھی اور روزگار ٹھپ ہو گئے تھے‘ ہماری سول اور ملٹری قیادت نے سر جوڑ کر عقلمندانہ فیصلے کیے، حوصلے اور ہمت سے ایسی منصوبہ بندی کی کہ ہم اس کڑی آزمائش سے بخوبی نکل آئے۔ یہاں ہماری قوم بھی داد و تحسین کی مستحق ہے کہ وہ خوفزدہ اور مایوس نہیں ہوئی‘‘۔ بابا جی نے جیدی میاں کی طرف دیکھ کر بڑے دکھ سے کہا:بسنت پر سے پابندی ہٹانے میں تو کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں۔ بس لالچی اور ہوس میں اندھے‘ خود غرض عناصر کی سرکوبی کی ہی ضرورت ہے۔ بابا جی کی لائیو کال میرے لیے سوچوں کا نیا در کھول گئی۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب بسنت کو پانچواں موسم کہا جاتا تھا۔ سردی کے بعد‘ بہار کے دنوں میں‘ عموماً فروری میں بسنت کی بہار آتی جب سرسوں پھولتی، پیلے پھول، زرد رو پیلی دوپہریں اور بسنتی رنگ ہر سو چھا جاتا‘ جسے موسم بدلنے کی پہلی علامت سمجھا جاتا تھا۔ انسان ماضی کے ساتھ جڑا رہتا ہے اور ماضی ہمیں جکڑ کے رکھتا ہے، اس کی یادیں ستاتی رہتی ہیں۔ اسی سبب یونیورسٹی کا دور یاد آیا تو ایک لمحے کیلئے تمام شناسا چہرے ایک ایک کر کے یاد کے پردے پر لہرائے۔ لڑکے لڑکیاں بسنت کے دنوں میں ہاسٹل میں قیام پذیر تمام دوستوں کو بسنت منانے کی دعوت دیتے۔ لاہور کی چھتوں پر صبح سویرے ہی ڈھول باجے، رنگ برنگے پتنگ، ڈوروں، چرخیوں کے ذخیرے، موسیقی، چھتوں پر لڑے لڑکیاں پتنگ اڑاتے نظر آتے۔ ایسا محسوس ہوتا گویا پورا لاہور چھتوں پر آگیا ہو۔ بوکاٹا کا شور، بھنگڑے، ڈھول کی تھاپ پر رقص، خوشی کے ہنگاموں کا منظر بھی یاد آیا۔ کتنے اچھے دن تھے۔ نہ موبائل فونز والی مصروفیات! پیسے کے بجائے ارد گرد کے ماحول میں رچے بسے محبت کے جذبات، دل میں احترام اور عزت مہذب ہونے کی دلیل ہوا کرتے تھے۔ غالباً 2009ء کا سال تھا یہ‘جب ایک صبح یہ خبر نظر سے گزری کہ اب پاکستان میں بہار نہیں آئے گی بلکہ سردی کے بعد براہِ راست موسمِ گرما شروع ہو گا۔ میرے لیے یہ بات نا قابلِ فہم تھی کہ بھلا بہار رُت کو آنے سے کون روک سکتا ہے؟ مگر خبر کی تفصیل پڑھنے پر پتا چلا کہ رُت تو بدلے گی‘ دوپہریں بھی سنہری ہوں گی‘ سرسوں بھی پھولے گی مگر پیارے وطن میں بسنت کی بہار نہیں ہوگی۔ یہ بڑی عجیب بات لگی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے بہار کی آمد کا سلسلہ ہو اور بسنت نہ منائی جائے؟ مگر یہ انہونی بھی ہوگئی۔ ہم سے بسنت‘ ہمارا ثقافتی ورثہ چھن گیا۔
بابا جی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ اصلاحِ احوال کیلئے سختی بھی کرنا پڑتی ہے اور نرمی سے بھی سمجھایا جاتا ہے۔ معاشروں میں بگاڑ پیدا ہو تے رہتے ہیں۔ چند افراد کی غفلت اور مجرمانہ فعل کی وجہ سے پوری قوم کو خوشی اور مل جل کر بیٹھنے کے مواقع سے یکسر محروم کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح تہواروں‘ میلوں ٹھیلوں پر پابندیاں لگاتے رہیں گے تو آنے والی نسلوں کی اپنی دھرتی کے ثقافتی ورثے سے نا آشنائی کا سبب ہم خود ہی بنیں گے۔ بسنت کا تہوار حضرت امیر خسرو سے منسوب ہے جو خالصتاً فقیرانہ رنگ ہے۔ جیسے ہی بہار کا پہلا ہفتہ آتا تو آپ پیلا چوغا پہن کر ناچتے،گاتے اور وجد کی کیفیت میں سر دھنتے۔کیف و سرور کی اس گھڑی میں آپ یہ گاتے جاتے ''آج رنگ ہے ری ماں رنگ ہے ری، میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری‘‘۔ ان کا واسطہ آج کی بسنت اور پتنگ بازی کے ساتھ قطعی نہیں تھا۔ وہ اپنے مرشد کی خوشنودی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا یہ روپ اپناتے۔ تب سے بسنت موسمِ بہار کی آمد کا استعارہ ہے۔ یہ رنگوں کی داستان ہے‘ خوشیوں کا مسکن اور روشنیوں کی کہانی ہے۔ رنگ برنگے پتنگوں سے سجاتا حدِ نگاہ رنگین آسمان ملک کی فضا کو رنگ بخشتا ہے۔ رنگ زندگی کی علامت ہیں‘ خوشی اور محبت کا عکس ہیں‘ اپنوں کے درمیان خوشی کا لمحہ ہیں۔ بسنت ایک روحانی اور ثقافتی تہوار ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاحت کے فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ یہ ہوٹل انڈسٹری اور پتنگ بازی کی صنعت سے وابستہ افراد کیلئے روزگار کے مواقع یقینی بنا تی ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان کے سافٹ امیج کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ ملکی آمدنی اور زرِ مبادلہ میں اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اسی تناظر میں بابا جی کا ایک پسندیدہ شعر:
ہم باغِ تمنا میں دن اپنے گزار آئے
آئی نہ بہار آخر‘ شاید کہ بہار آئے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved