جو ہم دیکھ رہے ہیں مالی دیوالیہ پن ہے۔ ذہنی دیوالیہ پن تو کب کا شروع ہو چکا تھا۔ مالی حالات بہتر ہو سکتے ہیں‘ ذہنی مفلسی کا کیا علاج ہے؟ ملک معرضِ وجود میں آیا تو کن راہوں پر ہمارا معاشرہ نکل پڑا تھا‘ کئی بار ذکر ہو چکا ہے‘ پھر کیے دیتے ہیں۔ آئین مرتب کرنا تھا وہ تو ہو نہ سکا‘ ہم کسی اور کام پر ہی لگ گئے۔ تبصرہ اس امر پر کیا کیا جائے‘ ہر بات نہیں تو ہر دوسری بات یہاں حساس سمجھی جاتی ہے اور اس پر کھل کر بات نہیں ہو سکتی۔ جس معاشرے میں بہت سے موضوعات پر کھل کر بات ممکن نہ ہو‘ اُس معاشرے کے بارے میں کچھ امید رکھی جا سکتی ہے؟
ضیا سرحدی بڑا نام رہا ہے انڈین فلم انڈسٹری میں۔ کچھ فلمیں ڈائریکٹ کیں لیکن گیت کار بھی تھے اور بڑے دل موہ لینے والے گانے انہوں نے لکھے۔ اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہیں تو پتا چلا کہ تھے تو صوبہ سرحد کے لیکن فلموں سے متعلق انہوں نے تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوستان فلم انڈسٹری میں کام کیا اور پھر آزادی کے بعد یہاں آ گئے۔ ایک آدھ فلم بنائی بھی لیکن وہ بات نہ رہی جو پہلے تھی۔ البتہ جس بات سے میں حیران رہ گیا‘ وہ یہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ضیا سرحد ی کو حکام نے تحویل میں لے لیا اور اُنہیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا‘ محض اس لیے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ کمیونسٹ خیالات رکھتے ہیں۔ دکھ اس بات پر ہوا کہ کیسا ملک ہمارا رہا ہے کہ ایک تو یہاں مارشل لاء لگتے رہے اور پھر عدمِ برداشت کے عجیب عجیب مظاہرے بھی ہوتے رہے۔ ضیا سرحدی کا پڑھ کر خیالات کہیں اور بھی جانے لگے۔
ساحر لدھیانوی یہاں نہ رہ سکے۔ جیسے نام سے ظاہر ہوتا ہے‘ تھے لدھیانہ کے لیکن لاہور میں رہنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک سال نہ رہ سکے اور 48ء میں ہمیشہ کیلئے ہندوستان کے ہو گئے۔ قرۃالعین حیدر یہاں آئی تھیں‘ اس ارادے کے ساتھ کہ یہیں رہیں گی لیکن یہاں کا ماحول انہیں راس نہ آیا اور پھر وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔ اور تو اور استاد بڑے غلام علی خان جو خالصتاً اس مٹی کے تھے‘ وہ یہاں نہ رہ پائے۔ جلد ہندوستان چلے گئے اور وہاں صرف نام نہ کمایا بلکہ یوں سمجھئے کہ امر ہو گئے۔ اتنا تو ہم اپنے معاشرے اور اپنے ماحول کے بارے میں جانتے ہیں کہ بڑے غلام علی خان یہاں رہ جاتے تو عمرگزر جاتی توبہ توبہ کرتے۔ جوش ملیح آبادی ہندوستان سے یہاں آئے حالانکہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو ان سے منتیں کرتے رہے کہ مت جائیے۔ یہاں کوئی کراچی کے اردو سپیکنگ کمشنر صاحب تھے جنہوں نے حضرتِ جوش کو طرح طرح کے سبز باغ دکھائے۔ بعد میں جوش صاحب پچھتاتے ہی رہے اور ایک دو مضامین ہیں جن میں ان کا پچھتاوا بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نیا ملک معرضِ وجود میں تو آ گیا لیکن پہلے دن سے ہی اس کا ماحول ایسا بنتا گیا کہ جسے آپ تخلیقی آزادی کہہ سکتے ہیں وہ سکڑتی گئی۔ اور ایسے سکڑی کہ غیر جمہوری حکومتوں کے رواج نے جنم لیا تو تخلیقی آزادی بالکل ختم ہو کر رہ گئی۔ نئی ریاست میں ایک بات تو بڑی واضح تھی کہ مارکسسٹ خیالات کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔ فیض صاحب معتوب ٹھہرے کہ مارکسسٹ خیالات کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اتنے عظیم شاعر تھے کہ ان کی شاعری یا شاعری کی وجہ سے مقبولیت دب نہ سکی۔ اگرچہ حکومتوں نے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا مگر عوام کے دلوں پر اُنہوں نے راج کیا۔ ٹریڈ یونین لیڈر حسن ناصر کا کیا قصور تھا؟ کمیونسٹ سمجھے گئے اور اسی بنا پر اٹھائے گئے اور قلعہ لاہو رکے عقوبت خانے میں انہیں رکھا گیا تو ان کی لاش ہی پھر باہر آئی۔ یہ تو چلو کمیونسٹ سمجھے گئے‘ سعادت حسن منٹو بھی اس معاشرے سے برداشت نہ ہوئے کہ عریانی لکھتے ہیں۔ بطورِ سکرپٹ رائٹر ہندوستان فلم انڈسٹری میں ان کا بڑا مقام تھا لیکن تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئے اور پھر شراب کی لت پر ایسے چڑھے کہ اس آستانے پر اپنی جان دے بیٹھے۔
سیاست یہاں کیوں نہ چل سکی؟ کیوں ہرچیز یہاں ممنوع ٹھہری؟ کیوں پے در پے مارشل لاء لگتے رہے؟ جمہوریت کی پہلی شرط برداشت ہے۔ باقی چیزیں بعد میں آتی ہیں۔ اتنا حوصلہ تو ہو کہ مخالفانہ نقطۂ نظر سنا جا سکے۔ لیکن جہاں ریت پڑی ہو کہ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں یہی سچ ہے اور اس سے ہٹ کر کوئی اور سچ نہیں ہو سکتا تو وہاں برداشت کہاں سے آئے؟ افسر شاہی کا ایک مخصوص ٹولہ اقتدار پر قابض ہو گیا اور جب ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو مختلف یا آزاد نقطۂ نگاہ کو برداشت کرنے کی گنجائش یکسر ختم کر دی گئی۔ عجیب سا سیاسی نظام ملک پر ٹھونس دیا گیا۔ جہاں تک مارکسسٹ خیالات کا تعلق ہے اس کیلئے تو یہاں سرے سے گنجائش نہ تھی۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی یا کمیونسٹ پارٹیاں رہ سکتی تھیں لیکن جسے ہم مملکتِ خداداد کہنے لگے‘ یہاں پر ایسا ہونا ناممکن تھا۔
یکجا قسم کا قومی ذہن بنانے کی کوشش کی جائے تو اور عوامل میں سے ایک یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کاسہ لیسی کا رجحان قومی شعور میں داخل ہو جاتا ہے۔ شروع سے ہی ہمارا قومی رویہ بن گیا کہ امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے ہیں اور بیرونی امداد پر جینا ہے۔ اپنے وجود کے بارے میں کچھ گھمنڈ بھی ہم نے پیدا کیا کہ ہماری اہمیت اتنی ہے کہ بیرونی دنیا ہمیں نظر انداز نہ کر سکے گی۔ قومی مزاج ایسا بن جائے تو آزادیٔ سوچ نہیں رہتی‘ جو باہر سے ٹونے ٹوٹکے آتے ہیں وہی قومی سوچ بن جاتی ہے۔ 1996-97ء میں ہندوستان کو ایک من موہن سنگھ مل گیا جس نے اپنے ملک کیلئے نئے قومی راستے روشن کیے۔ یہاں کوئی من موہن سنگھ پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ معاشرہ ایسا جس میں تخلیقی سوچ کا فقدان ہو‘ اوپر سے چن چن کے نااہل حکمران۔ ایسے میں کون سی آگے دیکھنے والی سوچ پیدا ہو سکتی ہے؟ یہی ہمارا المیہ رہا ہے اور آج یوں لگتا ہے کہ اس المیے کے آخری مناظر ہم دیکھ رہے ہیں۔
مالی بحران سے زیادہ دکھ قومی بیچارگی پر ہوتا ہے۔ لگتا ہے ہمارے پلے کچھ رہا ہی نہیں۔ کوڑی کوڑی کے محتاج بنے ہوئے ہیں اور مالی بحران کے ساتھ ذہنی دیوالیہ پن اس انتہا کو پہنچا ہوا ہے کہ کسی کے پاس نہ حل ہے نہ کچھ کہنے کو۔ سیاسی پارٹیاں بے تکی گفتگو میں مبتلا ہیں۔ جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں‘ وہ بھی نئے خیالات سے عاری لگتے ہیں۔ عوام صرف مہنگائی سے پریشان نہیں‘ پریشانی اس وجہ سے بھی ہے کہ ریاست کی کوئی سمت دکھائی نہیں دیتی۔ جیسے شتربے مہار ہو‘ پاکستان اس وقت ایسے لگ رہا ہے۔ قومیں جنگوں میں مبتلا ہوتی ہیں‘ تباہی ہوتی ہے لیکن قوموں کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ ہم کسی جنگ میں مبتلا نہیں‘ شہروں پر بمباری نہیں ہو رہی‘ شہری زندگی مفلوج نہیں ہوئی لیکن لگ یوں رہا ہے کہ اندر سے حوصلے ختم ہو گئے ہیں۔ لیڈروں کا کام ہوتا ہے قوم کو حوصلہ دینا اور قوم کو کچھ راہ دکھانا۔ یہاں ایسا کچھ ہو رہا ہے؟ حکومتوں میں جو بیٹھے ہیں ان کا معیار کیا ہے؟ ان جیسی شخصیات پر عوام کا کتنا بھروسا ہو سکتا ہے؟
اس بحران میں ذہنوں میں یہ خیال بھی اٹھتا ہے کہ بطورِ قوم جن راہوں کا ہم نے انتخاب کیا‘ ان کی کوئی منزل نہ تھی۔ کارواں تو تھا‘ صحرا میں چل بھی پڑا لیکن اب واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ایک تو میرِکارواں ویسے ہی تھے اور دوسرا کچھ سمجھ نہ تھی کہ جانا کہاں ہے۔ اب ادھراُدھر دیکھ رہے ہیں اور پریشانی کا عالم ہے کیونکہ واضح نہیں کہ کرنا کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved