تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     28-01-2023

کراچی کی شہری حکومت

اعلیٰ عدالتوں کی طرف مراجعت اور عوامی مطالبات کے بعد کافی وقفے سے کراچی کے مقامی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کا آزادانہ و منصفانہ ہونا یا کسی منظم دھاندلی کا شکار ہونا اِس وقت ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں انتخابی نتائج کبھی بھی متفق علیہ نہیں رہے۔ 2018ء کی طرح قبل از انتخابات اور مابعد انتخابات دھاندلی کے بھی شواہد ملتے رہے ہیں، مثلاً: پولنگ سٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹس نکالے گئے، امیدواروں کو پریزائڈنگ افسر کے دستخط شدہ رزلٹ نہ مل سکے، نتائج کی فوری ترسیل کا نظام مفلوج ہوا، آج تک اس کی کوئی تحقیق ہوئی، نہ کسی ایسی تحقیق کے نتائج سامنے آئے اور نہ کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
15 جنوری کو کراچی میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کردہ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہوئی، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی دو بڑی پارٹیاں بن کر سامنے آئی ہیں اور دونوں کی کامیابی کا تناسب قریب تر ہے، کافی فرق کے ساتھ پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر آئی ہے، وہ اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال کر فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
کئی لوگوں کی خواہش ہے کہ جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی مل کر کراچی میں شہری حکومت قائم کریں، کیونکہ بلدیاتی حکومتوں کو وسائل صوبائی حکومت سے ملتے ہیں، سو اگر ان دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ نہ ہو تو وسائل کا بہائو رک جاتا ہے، کام ٹھپ ہو جاتے ہیں، بیورو کریسی بھی ایسی صورتِ حال میں رکاوٹیں ڈالتی ہے یا سیاسی جماعتوں کے اختلافات کے سبب اپنا دامن بچانے میں عافیت سمجھتی ہے، فائلیں رک جاتی ہیں یا دب جاتی ہیں اور نقصان شہریوں کا ہوتا ہے۔ ہماری بھی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس جو پچاس ارب روپے جمع ہیں، وہ بلدیہ کراچی کی نئی قیادت کو منتقل کیے جائیں تاکہ وہ اس سے شہری خدمات کا آغاز کر سکیں۔
جنابِ نعمت اللہ خان کی میئرشپ کے زمانے سے کراچی کی مقامی حکومتوں کا بجا طور پر یہ شکوہ رہا کہ کراچی کے انفراسٹرکچر کو سب شہری ادارے استعمال کرتے ہیں، لیکن تمام کنٹوٹمنٹ، کراچی پورٹ ٹرسٹ وغیرہ کے علاقے بلدیاتی کنٹرول سے باہر ہیں، وہاں کا وصول شدہ پراپرٹی ٹیکس بھی بلدیہ کی تحویل میں نہیں آتا اور یوں شہر ایک مربوط اور جامع بلدیاتی نظام تشکیل دینے سے محروم رہتا ہے۔ بلدیاتی حکومت کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ کراچی کی ساری شہری حدود کا لینڈ کنٹرول اور پراپرٹی ٹیکسوں کا نظام کراچی میگا پولیٹن کارپوریشن کے تحت آئے تاکہ شہری سہولتوں کی بابت ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جا سکے۔
جنابِ عبدالستار افغانی کی میئرشپ کے زمانے میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کراچی کی مقامی سڑکوں، فلائی اوور اور انڈر پاسز وغیرہ کی تعمیر و مرمت اور نگہداشت کراچی میگاپولیٹن کارپوریشن کی ذمہ داری ہے، لہٰذا اس کا موٹر وہیکل ٹیکس بھی بلدیہ کراچی کو دیا جائے، اُس زمانے میں بلدیاتی کونسلروں نے اس حوالے سے احتجاجی جلوس نکالا اور اس وقت کے وزیرِاعلیٰ جناب غوث علی شاہ نے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے منتخب ادارے کو تحلیل کر دیا، اس کے بعد سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔
کراچی کی آبادی کے بارے میں بھی دعوے مختلف ہیں۔ آخری قومی مردم شماری 2017ء میں منعقد ہوئی، اس میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پچاس ہزار بتائی گئی ہے، جبکہ اہلِ کراچی کا دعویٰ ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں، ان میں دانستہ یا نادانستہ کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ کراچی کی نمائندگی کی دعویدار مختلف جماعتیں کراچی کی آبادی اڑھائی سے تین کروڑ کے درمیان بتا رہی ہیں۔ یہ آبادی دنیا کے کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ کراچی کی آبادی کے بارے میں یہ تنازع رفع ہونے کی ایک ہی صورت ہے: ''کراچی کی نمائندگی کی دعویدار جماعتیں اتفاقِ رائے سے مردم شماری کے لیے ایک متفقہ فارمولا اور طریقۂ کار وضع کریں، اُسے وفاقی حکومت سے منظور کرائیں، پھر اس کے تحت مردم شماری کرائی جائے، اس مردم شماری کے لیے جب شمار کنندگان گھر گھر جائیں تو اُس میں مسلح افواج اور عوام کے نمائندے بھی شامل ہوں، اسے ڈیجیٹل طریقے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ حکومت پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے نئی مردم شماری کرائی جائے گی، اس کے تحت از سرِ نوحلقہ بندیاں ہوں گی اور پھر قومی انتخابات منعقد ہوں گے۔
کراچی میں سڑکوں، سیوریج لائن، واٹرسپلائی لائن اور بجلی کی ٹرانسمیشن کا جو نظام ہے، وہ موجودہ آبادی کے لیے ہرگز نہ تھا اور نہ اس کی طلب اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ پس ضروری ہے کہ کراچی کا جدید ترین ماسٹر پلان بنایا جائے، اس میں سیٹلائٹ سے بھی مدد لی جائے، جیو فینسنگ کی جائے۔ کراچی شہر ہرطرف بے ہنگم پھیلا ہوا ہے، موجودہ حدود میں ترقیاتی کام اور بنیادی ڈھانچہ مکمل ہونے تک اس کے مزید پھیلائو کو روکا جائے، کم از کم آئندہ پچیس سال کی متوقع آبادی کو پیشِ نظر رکھ کر شہری ضروریات کا ڈھانچہ تیار کیا جائے۔ سابق صدر ایوب خان کے زمانے میں اور بعد میں گلشن اقبال اور گلستانِ جوہر کی منصوبہ بندی تک کراچی شہر کا ٹائون پلاننگ کا نظام مثالی تھا، کھلی سڑکیں تھیں، مکانات کے لیے مختص خطۂ زمین کے مقابلے میں گرین بیلٹ کے لیے بڑی وسیع وعریض جگہ چھوڑی گئی تھی۔ یہ موجودہ اور آنے والے زمانے میں رفاہی ضروریات، مثلاً: مساجد، مدارس، تعلیمی ادارے، ہاسپٹل، نرسنگ ہوم اور کھیل کے میدانوں کے لیے کافی تھی۔ لیکن پھر اسی گرین بیلٹ پر فلیٹوں کے جنگل بن گئے، چائنا کٹنگ ہوئی، فٹ پاتھ تک گھیر لیے گئے، رفاہی پلاٹ بھی باقی نہ رہے اور آنے والی نسلوں کی دیدہ و دانستہ حق تلفی کی گئی۔ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں باقاعدہ لینڈ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے، لیکن اس شعبے نے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی، اس کا سبب بدعنوانی کے علاوہ سیاسی دبائو اور اثر و رسوخ بھی تھا، کچھ رسہ گیر، دادا گیر اور قبضہ گروپ بھی تھے، اس لیے سب نے مل کر کراچی کا حلیہ بگاڑ دیا۔
کراچی کی شہری حکومت کا یہ بھی مطالبہ رہاہے کہ شہری خدمات سے متعلق ادارے کے ڈی اے، واٹر بورڈ، کے الیکٹرک اور اس طرح کے دیگر اداروں کو شہری حکومت کے کنٹرول میں دیا جائے۔ پرویز مشرف اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا نظریہ لے کر آئے، سابق ڈی ایم جی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ کی، ڈی پی او کا نظام لے کر آئے، میئر کے بجائے ناظم کا عہدہ متعارف کرایا گیا، کئی محکمے بلدیاتی حکومت کے تحت لائے گئے، لیکن پولس کا محکمہ ناظمِ شہر کے ماتحت نہیں تھا۔ لہٰذا وہ اختیارات تو سب استعمال کرتے تھے، لیکن امن و امان کیلئے جوابدہ نہیں تھے، سو یہ ایک واضح تضاد تھا جو اُس نظام کی ناکامی کا باعث بنا، کیونکہ اختیارات ذمہ داریوں کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ شعار ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کوستی ہیں، ہرخرابی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتی ہیں، نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ یہ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے ان سے فرار اور گریز کا راستہ ہے۔ درحقیقت حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حقائق کا سامنا کیا جائے، کامیابیوں کا بجا طور پر کریڈٹ بھی لیا جائے، لیکن ناکامی کی ذمہ داری بھی خوش دلی سے قبول کی جائے۔
حال ہی میں صوبۂ خیبر پختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا اتفاقِ رائے ایک اچھی علامت ہے، یہ سیاست کی نفرت انگیز اور گرم ہوائوں میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ شاید اس میں پرویز خٹک صاحب نے ٹھنڈے مزاج کے ساتھ مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا اور کامیاب ٹھہرے، جبکہ پنجاب میں ایسا نہ ہو سکا۔ خان صاحب کی تگ و تاز کا میدان بھی پنجاب ہے اور وہ اس میں مسلم لیگ (ن) کو اپنا حریف سمجھتے ہیں اور اقتدار میں شرکت خان صاحب کوکسی قیمت پر گوارا نہیں ہے۔
ہماری نظر میں شہری ترقیاتی کاموں کی مرمت و نگہداشت کا الگ بجٹ ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے کروڑوں اربوں روپے سے نئی سڑکیں بنتی ہیں اور چند دنوں یا چند مہینوں کے اندر وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، کہیں واٹر لائن اور کہیں سیوریج لائن لیک ہو جاتی ہے اور بنی بنائی سڑک چند دنوں میں کھنڈر بن جاتی ہے۔ یونیورسٹی روڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے، سڑک پر پانی بہہ رہا ہوتا ہے، کھڈے اور گڑھے بن جاتے ہیں، لیکن واٹر بورڈ کی طرف سے اس کی نگرانی اور تعمیر و مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، یہ قومی وسائل کا نہایت سنگ دلانہ اور ظالمانہ ضیاع ہے۔ اس کا مستقل تدارک ہونا چاہیے۔
ایک مطالبہ یہ ہے کہ ثانوی تعلیمی سطح تک تعلیمی ادارے بلدیاتی حکومت کی نگرانی میں ہونے چاہئیں، ان اداروں کے بڑے بڑے بجٹ ہیں، عملہ بھی مقرر ہے، لیکن ادارے بالعموم ویران نظر آتے ہیں، طلبہ موجود ہوتے ہیں اور نہ اساتذہ، کیونکہ ان کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ شعبہ بھی انتہائی توجہ کا متقاضی ہے، یہی صورتِ حال ہسپتالوں کی ہے۔
برطانیہ میں جی سی ایس ای یعنی او لیول تک اور امریکہ میں سکول گریجویشن یعنی انٹرمیڈیٹ لیول تک تعلیمی ادارے مقامی حکومتوں کی زیرِ نگرانی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی کارکردگی، تحدید و توازن اور نگرانی کا انتظام بہتر ہوتا ہے، وفاقی حکومت صرف نصاب اور نظامِ امتحان کے معیارات مقرر کرتی ہے اور ان کی نگرانی کرتی ہے؛ چنانچہ ہمارے انگریزی میڈیم سکولوں کی طرح وہاں بھاری بھرکم نصاب نہیں ہوتے، مگر اُن کا معیارِ تعلیم بہتر ہوتا ہے، کیونکہ اُن کے نظامِ تعلیم میں کتابوں کا بوجھ لادنے کے بجائے معلمین و معلمات اپنے طلبہ و طالبات کے جوہرِ قابل کو نکھار کر سامنے لاتے ہیں، اُن میں اعتماد پیدا کرتے ہیں، ان کا ذہن تخلیقی بناتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں سارا دار و مدار رٹّا لگانے پر ہوتا ہے۔ طلبہ و طالبات کی قابلیت اور ان کے اندر مستور صلاحیتوں کو نکھارنے کا ہمارے ہاں کوئی سائنٹیفک طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ طے کرتے ہیں کہ بچے کو میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی یا کس شعبے میں جانا چاہیے، جبکہ وہاں طالبِ علم میں اتنا اعتماد پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے رجحانِ طبع کے مطابق خود اپنے لیے شعبے کا انتخاب کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved