تو کیا آخرکار منصوبہ بن چکا کہ عمران خان کو مائنس کر دیا جائے کیونکہ وہ رُولز آف دی گیم کے مطابق کھیلنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے سیاست اور جمہوریت کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا ہے؟ذرائع تو یہی کہہ رہے ہیں ‘ منصوبہ بن چکا کہ خان کو مائنس کر دیا جائے کیونکہ طاقتور حلقوں کا خیال ہے کہ اب بات ڈیڈ اینڈ تک پہنچ چکی۔
ایک طرف خان کو مائنس کرنے کا منصوبہ تیار ہے تو دوسری طرف جو اُن کی جگہ لیے بیٹھے ہیں ان کے پاس بھی کوئی منصوبہ نہیں کہ ملک کیسے چلانا ہے‘جس کے نتائج برے نکل رہے ہیں۔ زرداری اور شریفوں کی حکومت بھی بری طرح ناکام ہوچکی۔اسحاق ڈار جو لندن سے بڑے طمطراق کے ساتھ لائے گئے تھے اب پتہ چلا ہے کہ ان کے پاس بھی کوئی پلان نہیں تھا۔ وہ صرف نیب کے مقدمات ختم کرانے‘اپنا لاہور کا گھر اور بینک میں فریز کئے گئے پچاس کروڑ روپے واپس لینے آئے تھے۔ ڈالر جہاں جاتا ہے جائے‘ ان کی بلا سے۔اکانومی کا مزید حشر ہوتا ہے تو ہو جائے ان کا مشن پورا ہوگیا جس کے لیے وہ لندن سے تشریف لائے تھے۔
زرداری اور شریفوں کی حکومت کا یہ حال ہے کہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی ۔ وہ اب نہ حکومت چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں۔دوسری طرف عمران خان بھی اپنے بچھائے گئے ٹریپ میں بری طرح پھنس چکے ہیں‘ جب انہوں نے پارٹی کے اندر کچھ لوگوں کے دبائو پر پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کیا ۔ خان خود کو بھی کم نہیں سمجھتے اور ہر وقت فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے شوقین ہیں۔اگرچہ پچھلے ایک سال میں کوشش کی گئی کہ خان کو سمجھایا جائے‘ روکا جائے کہ ملک کو سیاسی ابتری کا شکار نہ کریں اور اکتوبر تک انتظار کریں۔پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ کشمیر اور گلگت بلتستان ان کی پارٹی کے پاس ہے۔ وزیراعظم بننے کے لیے چند ماہ انتظار کر لیں۔ ایک دفعہ تو آئی ایم ایف کے ساتھ مئی میں مذاکرات ہورہے تھے۔ ان کو کہا گیا کہ وہ ابھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ نہ کریں۔چند دن رُک جائیں۔ انہیں الیکشن کی تاریخ مل جائے گی۔ خان کو لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہورہا ہے ‘اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تو پھر انہیں کس نے پوچھنا ہے‘ لہٰذا جو مارچ انہوں نے 28 مئی کو کرنا تھا وہ انہوں نے 25 مئی کو شروع کر دیا جب دبئی میں مذاکرات ہورہے تھے۔پھر جو کچھ ہوا وہ آپ سب جانتے ہیں۔
ابھی جب خان نے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تو پرویز الٰہی کو اسلام آباد بلا کر دو تین دفعہ باقاعدہ سمجھایا گیا۔ان پر دبائو بھی ڈالا گیا کہ وہ خان کے کھیل میں شریک نہ ہوں ورنہ مسائل پیدا ہوں گے۔اگرچہ پرویز الٰہی نے خان کو سمجھا بھی دیا اور خان صاحب سمجھ بھی گئے تھے لیکن پھر خان پر ان کی پارٹی کے اندر دبائو بڑھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ خان ڈر گیا۔ خان نے یہ سن کر پرویز الٰہی کو کہا: توڑ دیں۔ان کا منت ترلا کسی کام نہ آیا کہ جناب ہم آرام سے بیٹھے ہیں۔ اربوں کے کام چل رہے ہیں۔117 خصوصی معاونین وزیراعلیٰ نے بھرتی کر کے ہر ایک کو گاڑی اور پانچ سو لٹر پٹرول دے دیا کہ مزے کرو۔ حلقوں میں فنڈز دے دیے کہ کھل کر کھیلو‘لیکن بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کی کابینہ کے سابق وفاقی وزرااس کے خلاف تھے کہ دیر نہ لگے اور پنجاب اسمبلی کو توڑ دیں جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا اسمبلیاں توڑنے کے خلاف تھے کیونکہ ان کے کام ہورہے تھے۔ حلقوں میں اربوں کا کام چل رہا تھا۔ ان کی موج لگی ہوئی تھی جبکہ وفاقی حکومت کے سابق وزیر جو بیروزگار پھر رہے تھے وہ یہ برداشت نہیں کرپارہے تھے کہ ہم تو فارغ ہوگئے اور پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی پنجاب کے وزیر مزے کررہے ہیں‘ لہٰذا پی ٹی آئی کے اپنے اندر مرکز اور پی ٹی آئی پنجاب میں ٹھن گئی تھی۔ پی ٹی آئی پنجاب کے وزیر چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے تھے لیکن عمران خان نے اپنے چند وفاقی وزیروں کا ساتھ دیا جو زور ڈال رہے تھے کہ ہرحال میں پنجاب اسمبلی ختم کریں۔
بتایا جارہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی فواد چوہدری کی گرفتاری پر خوشی کی وجہ یہ بھی تھی کہ فواد چاہتے تھے کہ پرویز الٰہی حکومت جلدی ختم ہو‘ لہٰذا جب فواد چوہدری گرفتار ہوئے تو پھر پرویز الٰہی صاحب اپنی خوشی چھپا نہ سکے۔ اگرچہ ان کے الفاظ غیر مناسب تھے اور جو کچھ فواد کے حوالے سے انہوں نے تقریر میں کہا یا جو بعد میں ان کی آڈیو میں گالیاں سامنے آئیں وہ افسوسناک تھیں۔اگر پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے کے اتنے خلاف تھے تو ڈٹ جاتے۔ اب فواد کے کندھوں پر بندوق رکھ کر خود کو بچانے کا کیا فائدہ؟
خیر اب حالت یہ ہے کہ خان صاحب اسمبلیاں تڑاونے کے بعد سب کو فارغ کرا بیٹھے ہیں اوراگلوں نے الیکشن سے بچنے کے لیے مردم شماری کا پلان بنا لیا ہے۔ویسے ہمارا خان بھی دلچسپ کردار ہے۔ پہلے قومی اسمبلی توڑ دی۔ جب عدالت نے بحال کردی تو وہاں سے استعفیٰ دے کر سڑکوں پر آگئے۔اب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تڑوانے کے بعد دوبارہ اسی قومی اسمبلی پہنچ گئے کہ ہمارے استعفے واپس کرو‘ ہم نے اسی اسمبلی میں بیٹھنا ہے جس کو خود توڑا تھا‘ پھر وہاں سے استعفے دیے اور پورا سال ہنگامے کیے۔ اب تقریبا ًسال بعد وہاں پہنچ گئے ہیں۔
ایسی سیاست ہمارا خان ہی کرسکتا ہے جو اُن کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ پارہا۔ جیسے کبھی زرداری کی سیاست سمجھنے کے لیے جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ بندے کو پی ایچ ڈی ہوناچاہئے ویسے ہی عمران خان کی سیاست کو سمجھنے کے لیے ڈبل پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔
خیر اب ذرائع کہہ رہے ہیں کہ امریکہ سمیت مڈل ایسٹ کے اہم ممالک اس بات پر راضی لگ رہے ہیں کہ اگلے الیکشن کے بعد وزیراعظم بلاول کو بنایا جائے۔ اس کے لیے یقینا ایک ایسی پارلیمنٹ لائی جائے جس میں کسی کو اکثریت نہ ہو اور اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنائی جائے۔ پیپلز پارٹی کو سیٹیں دلوانے کے لیے بلوچستان اور سرائیکی علاقوں میں کام کیا جائے۔ پنجاب حکومت نواز لیگ کو دی جائے جبکہ سندھ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے پاس رہے۔ خیبرپختونخوا میں مولانا کی پارٹی کو آگے لایا جائے۔ان کا خیال ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے پہلے فیز میں مولانا کی پارٹی نے بڑی کامیابی لی تھی لہٰذا اس کو بنیادبنایا جائے۔ یوں عمران خان کی پارٹی کو مکمل آئوٹ کر دیاجائے اور وہ اگلے پانچ سال بھی سڑکوں پر گزاریں۔مطلب ہم وہیں جا پہنچے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا۔ وہی پرانی شراب پرانی بوتلوں میں۔
لیکن کیا یہ سب کچھ ایسے ہی کرلیا جائے گا جیسے پلان بنایا جارہا ہے؟ عمران خان اس وقت پاپولر ہیں اور ان کی پارٹی خود کو اگلا الیکشن جیتنے کا اہل سمجھتی ہے جس کا مظاہرہ ہم دیکھ بھی چکے کہ پہلے 17 جولائی کو پنجاب کا ضمنی الیکشن جیتا اور خان جن سیٹوں پر لڑا ان سب پر جیتا۔لیکن اب مسئلہ ایک اور آن پڑا ہے۔عوام عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو ریاست کے کرتا دھرتا خان کو مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں جو کسی طرح جمہوری طریقے سے چلنے کو تیار نہیں۔ دنیا کے اہم ممالک پہلے ہی عمران خان کے ساتھ کام کرنے کوتیار نہیں اور خان بھی خود کو بدلنے کو تیار نہیں۔دیکھتے ہیں پوری دنیا خان کے آگے جھکتی ہے یا خان خود کو بدلتا ہے۔دوسری طرف شریفوں کو بھی ہر کام میں جلدی تھی۔عمران خان کو بھی جلدی میں ہٹایا اور ڈار کو مفتاح کی جگہ بھی جلدی بٹھا دیا۔دونوں کے بھیانک نتائج نکلے ہیں۔شریف بھی جلدی میں تھے تو ہمارا خان بھی دوبارہ وزیراعظم بننے کے لیے بہت جلدی میں ہے۔سنا ہے ادھر زرداری کو بھی بلاول کو وزیراعظم بنوانے کی بہت جلدی ہے۔
ہمارے ہاں سرائیکی کا محاورہ ہے کہ جس مخلوق کو بچہ جننے میں ضرورت سے زیادہ جلدی ہوتی ہے اس کے ہاں بچے اکثر نابینا پیدا ہوتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved