تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     29-01-2023

مریم نواز کی واپسی

مریم نواز نے وطن واپسی کے بعد واضح کیا ہے کہ میاں نوازشریف جلد پاکستان میں ہوں گے ‘ لیکن وہ کب واپس آئیں گے ‘ اس حوالے سے انہوں نے کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو تین بار حکومت ملی‘ انہیں تینوں بار نکالا گیا۔دو بار پاکستان سے نکالالیکن نواز شریف آج بھی وہ مقبول لیڈر ہیں۔مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ وہ دن دور نہیں جب نواز شریف کی قیادت میں ملک ایک بار پھر آگے بڑھے گا۔انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار پر یقین رکھو‘وہ معیشت کو سنبھالیں گے۔پارٹی کی ری سٹرکچرنگ کے حوالے سے مریم نواز نے اعلان کیا کہ وہ یکم فروری سے پنجاب کے دورے شروع کریں گی ۔مریم نواز کا کہناتھا کہ چند دن پہلے تک پنجاب‘ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت تھی‘ خود ہی اپنی حکومت توڑ کر اب وہ رو رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اس وقت بحرانوں کی صورتحال سے دوچار ہے۔نواز شریف فی الحال وطن واپس آنے کو تیار نہیں۔ لگتا ہے کہ جب تک ان کے کیسز ختم نہیں ہوتے اور جب تک انہیں جیل نہ جانے کی ضمانت نہیں مل جاتی وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔اب ظاہر ہے نواز شریف کا وطن واپس آنے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ وہ آتے ہی جیل چلے جائیں‘ وہ اگلے الیکشن کیلئے ووٹرز کو متحرک کرنے کیلئے میدان میں آنا چاہتے ہیں۔نواز شریف وطن واپس آکر باقائدہ انتخابی مہم چلانا چاہتے ہیں‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ اُن کے کیسز ختم کئے جائیں۔اس وقت وفاق میں ان کی حکومت ہے لیکن اس کے باوجود نواز شریف کو اپنے لئے حالات سازگار نظر نہیں آتے۔ اسی لئے مریم نواز وطن واپس آئی ہیں‘ نواز شریف نہیں آئے۔نواز شریف مریم نواز کے ذریعے پارٹی کو متحرک کرنا چاہتے ہیں اور وہ مریم نواز صاحبہ سے یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی واپسی کی کوئی صورت نکال سکیں‘ ساتھ ہی مریم نواز پر بھاری ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ کسی طرح اپنی پارٹی کے ڈھانچے کو تبدیل کرکے اس کو مضبوط بنائیں‘لیکن (ن) لیگ کی سینئر قیادت ان کے پارٹی کو لیڈ کرنے سے نالاں نظر آتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز پارٹی کے اندر کی مزاحمت کو کیسے ہینڈل کرتی ہیں۔ مریم نواز کیلئے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیں جو عوام میں مؤثر ثابت ہو سکے۔ابھی تک (ن) لیگ کوئی بھی مضبوط اور مربوط بیانیہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ابھی حال ہی میں (ن) لیگ نے ریٹائرڈجرنیلوں اور ریٹائرڈ ججز کے خلاف بیانیہ بنایالیکن لگ ایسا رہا ہے کہ اس بیانیے کو لے کر (ن) لیگ خود بھی پُر اعتماد نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس کیلئے اُن کے پاس مضبوط بیانیہ بھی ہونا چاہیے‘جیسا کہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘۔ نواز شریف ہوں یا مریم نواز دونوں نے اس بیانیے کو لے کر دھواں دار تقریریں کیں لیکن نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد سے (ن) لیگ میں بیانیے کا فقدان پایا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عمران خان نے نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو مزید تڑکا لگا کر اُس کو modify کردیا ہے اور( ن) لیگ کیلئے مشکل یہ ہے کہ وہ عمران خان کے modify بیانیے کو مزیدmodify کرنے سے قاصر ہے۔ مریم نواز وطن واپس آگئی ہیں اور وہ اپنی پارٹی کو منظم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی‘ بیانیہ بھی بنائیں گی اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش بھی کریں گی لیکن ملک کی گرتی ہوئی معیشت ان کیلئے ایک چیلنج ہوگی۔ اگر آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوجاتے ہیں تو اس سے ممکنہ طور پر معیشت پر تو اچھے ا ثرات ہوں گے مگر( ن) لیگ اپنا پولیٹکل سرمایہ کھودے گی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کا سگنل دے دیا ہے اور اس گرین سگنل کا مطلب یہ ہے کہ مزید مہنگائی کا طوفان اُٹھے گا۔اور لوگ پہلے ہی بڑھتی مہنگائی سے ہریشان ہیں ایسے میں بجلی‘گیس اور پٹرول کی مزید بڑھتی قیمتیں (ن) لیگ کی سیاسی سرمائے کو مزید دھچکا پہنچائے گی۔ایسے میں مریم نواز کی پارٹی کو ابھارنے کی کوشش مشکلات سے دوچار ہوسکتی ہے۔ مریم نواز کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے وہ اپنی جماعت کی ساکھ بحال کریں اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت صوبائی انتخابات سے بھی راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔خیبر پختونخوا اور پنجاب میں عمران خان اسمبلیاں توڑ چکے ہیں اور دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اَپ آچکا ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کی تجویز دیے جانے کے باوجود اب تک دونوں صوبوں کے گورنرزکی جانب سے انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی۔ صوبائی الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ حکومت اس وقت الیکشن کے موڈ میں نہیں ۔( ن) لیگ کے ملک احمد خان نے تو حیران کن بات کہہ دی ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ آئین کے اندر یہ تو لکھا ہے کہ الیکشن 90 روز کے اندر کروانے ہیں لیکن آئین کے اندر یہ نہیں لکھا کہ اگر 90 دن کے اندر الیکشن نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔اب اس کے جواب میں تحریک انصاف والے یہی کہتے ہیں کہ پھر ملک بھر میں وفاق اور صوبوں کے ایک ساتھ الیکشن کروادیے جائیں اور ہوسکتا ہے کہ آگے مردم شماری کا مسئلہ بھی بنے کیونکہ دونوں صوبوں میں انتخابات کروائے جاتے ہیں تو وہ پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندی کی بنیاد پر ہوں گے اور جب باقی دو صوبوں اور مرکز میں نئی حلقہ بندیوں کے مطابق الیکشن ہوں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دو صوبوں میں پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن ہوں۔یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ پھر سارے ا نتخابات پرانی مردم شماری پر ہی ہوںورنہ یہاں پر بھی مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے لیکن اگر مجموعی طور پر بات کی جائے تو حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
تحریک انصاف کا مؤقف یہ ہے کہ اگر 90 روز میں صوبائی انتخابات نہ ہوئے تو آئین کا آرٹیکل 6 نافذ ہوگا۔گو کہ میرے خیال سے ہر آئینی خلاف ورزی پر غداری کا مقدمہ تو نہیں بن سکتا لیکن عدالت میں بہر حال یہ معاملہ ضرور جاسکتا ہے ۔ تحریک انصاف نے اب نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقرری کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ اپوزیشن مخالف اور حکومتی مددگار کے طور پر سامنے آئے ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے آپریشن کے اہم کردار رہے ہیں ۔اب ہر طرف سیاسی الجھن ہے۔(ن) لیگ میں الجھن ہے‘مریم نواز ان الجھنوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں ‘عمران خان کو یہ الجھن ہے کہ انہیں کسی طریقے سے قبل از وقت الیکشن مل جائے اور ان کی یہ الجھن دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے باوجود ختم نہیں ہوسکی‘لیکن ملکی معیشت کی الجھن کو کوئی نہیں دیکھ رہا کیونکہ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved