تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     29-01-2023

دو قوانین کی کہانی

ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے موجودہ چیئرمین کو سرِعام گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تیرہ افراد گولیوں سے زخمی ہوکر گر جاتے ہیں۔ شوٹر کو پکڑنے کی کوشش کرنے والا ایک شخص جاں بحق ہو جاتا ہے۔ یہ تین نومبر2022 ء کا واقعہ ہے۔ گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد خود سے ایف آئی آر بھی درج نہ کرا سکے۔ آگے بڑھتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کی پریس کانفرنس کور نہیں ہوتی جبکہ قاتل کے وکیل کی پریس کانفرنس کور ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ شوٹر نے گولی چلانے کا اعتراف کر لیا ہے۔ اور یہ کہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حملہ صرف ایک مذہبی جنونی کا انفرادی فعل تھا۔ اس کے ماضی کا جائزہ بتاتا ہے کہ وہ نشے کا عادی ہے۔ ہاں‘ اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بتاتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ اب ایک جنونی‘ جھوٹے‘ نشئی کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے سہولت میسر ہے۔ دوسری طرف اس کا شکار ہونے والوں‘ جن میں ایک سرکردہ لیڈر شامل ہے‘ کو آزادیٔ اظہار کی اجازت نہیں۔ کیا کہنے کے لیے مزید کچھ باقی ہے؟
یہ دو دنیاؤں کی کہانی ہے۔ پہلی دنیا چھوٹی مگر طاقتور اور مخصوص اشرافیہ کی دنیا ہے۔ دوسری بہت بڑی‘ پھیلی ہوئی لاچار اور کمزور دنیا ہے۔ بہت سے ممالک میں یہ دونوں دنیائیں پائی جاتی ہیں‘ اگرچہ طاقت کی تقسیم کا فرق ہوتا ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ کا کلب بہت طاقتور بن چکا ہے۔ اس کلب میں شمولیت کا معیار انتہائی کڑا ہے۔ اس شخص کو اپنی دولت‘ حیثیت اور روابط کی وجہ سے بے حد بااثر ہونا چاہیے۔ وہ قوانین کو تبدیل کرنے‘ ختم کرنے‘ جھکانے‘ بے اثر کرنے اور لوگوں اور مروجہ طریق کار سے گریز کرتے ہوئے کلب کے مشن اور اراکین کے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے تیار اور آمادہ ہو۔ اس طرح یہ کلب پالیسی سازی‘ سول سوسائٹی اور نظامِ انصاف کو کنٹرول کرتے ہوئے ایسا قانونی ماحول قائم کرتا ہے جو صرف اور صرف اسی کلب کے لیے مخصوص ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ماحول‘ علاقائی ترقی اور سیاسی تصورات سے بے نیاز رہنے والا ملک بار بار سنگین صورتحال سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔ اس سنگینی کا تعلق مندرجہ ذیل صورتحال ہے:
1۔ اقتدار کی ہوس کا گراف: قانون کی حکمرانی کا ہی سکہ چلنا چاہیے۔ حکمرانی کسی قانون کی تابع ہو۔ اگرچہ دوسروں پر تسلط قائم کرنے اور انہیں کنٹرول کرنے کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے لیکن یہ آسان نہیں۔ اس کے لیے غیرمعمولی دولت‘ طاقت اور رسائی درکار ہے۔ ان کا امتزاج ایک عام کلرک کو پراپرٹی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا دیتا ہے۔ ایک سیاست دان کا عام کزن وزیر بن جاتا ہے۔ طاقت کا بھی نشہ ہوتا ہے۔ کچھ چاہنے کی خواہش‘ کسی میگا ڈیل پر دستخط کرنے اور اسے حاصل کرنے کی تمنا‘ پالیسی سازی کے اعلیٰ ترین مناصب تک رسائی کی آرزو تمام انسانوں کے دل میں مچل رہی ہوتی ہے۔ اس کیلئے سیاست دان خود کو نیلامی کے لیے پیش کریں گے۔ جو بڑی بولی لگائے گا‘ اس کے ساتھ ہو لیں گے۔ گزشتہ برس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی خریدوفروخت کے لیے ہوش ربا رقم خرچ کی گئی۔ ہر نشے کی طرح طاقت کا نشہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔ پاناما لیکس اقتدار کی تجارت کرنے والوں کی لالچ کا علامتی مظہر بن کر سامنے آئی تھیں۔ ان کے پاس اس قدر دولت تھی کہ انہیں اسے چھپانے کے لیے سمندر پار اکاؤنٹس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان ناموں میں شریف خاندان کے افراد کے نام بھی شامل تھے۔ اسی طرح ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسز کے بعد زرداری خاندان بھی مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان پر غیرملکی مصنفین کی تحریر کردہ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے چینی‘ گندم اور توانائی کی صنعت کے لیے ایسی پالیسیاں بنائیں جو ان کے کاروبار کے لیے موافق تھیں اور اس طرح انہوں نے بے تحاشا دولت کمائی۔
2۔ بدعنوانی کی معاونت: کسی کبوتر چور کے پکڑے جانے اور اسے تین سال قیدکی سزا ہونے کی خبر کوئی خبر نہیں۔ تاہم معمولی چوروں کی گرفتاری کے لیے پولیس کا چوکس اور قانون کا چوکنا ہونا قابلِ تعریف ہے۔ لیکن ملک کے بڑے اداروں میں معاونین کے نیٹ ورک کے ذریعے بڑے چور قانون کے جال سے بچ نکلتے ہیں۔ تصور کریں کہ وزیر خزانہ اس لیے ملک سے باہر گئے کیونکہ ان پر آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے کیس تھے۔ وہ برطانیہ میں تھے۔ اس دوران وہ سینیٹ سے چار سال تک طبی وجوہات کی بنا پر چھٹی پر تھے۔ قانون نے ریاست کو اجازت دے دی کہ انہیں ایک اجلاس میں بھی شرکت کیے بغیر سینیٹ کا رکن رہنے دے۔ اس کے بعد جب قانون سازوں نے وہ نیب قوانین تبدیل کردیے جو بدعنوان افراد کو گرفت کرتے تھے تو وہ بڑے طمطراق سے واپس آگئے۔ ان کے منجمد اثاثے انہیں واپس لوٹا دیے گئے۔ صرف یہی نہیں‘ ان کی اس عرصے کی بطور سینیٹر تنخواہ اور دیگر مراعات کی مد میں کروڑوں کی رقوم بھی ادا کر دی گئیں۔ یہ ہے دو دنیاؤں کا منظر نامہ۔ عام افراد کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت کا سامناہے۔ آٹے کی قیمت ساٹھ روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر ایک سو تیس روپے فی کلوگرام ہو گئی ہے۔ حکومت نے ڈالر بچانے کے لیے درآمدات کی ایل سی نہ کھولنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ درآمد شدہ خام مال نہ ملنے کی وجہ سے مارکیٹ میں جان بچانے والی ادویات نہیں مل رہیں۔ جس دوران یہ سب کچھ ہورہا ہے‘ حکومت نے قیمتی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی ہے جن پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ دراصل پہلی دنیا کے قوانین حکمرانوں کے لیے ہوتے ہیں‘ جبکہ ان کے زیر حکمران افراد معمولی لعزشوں پر بھی قانون کی کڑی گرفت میں آجاتے ہیں۔
3۔ اقدار کا دیوالیہ پن: عوام سے لوٹ مار کرنے والوں کا مارکیٹ شیئر تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ ایک معاشرے میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو قانون شکنی کرتے ہیں اور وہ جو ان پر عمل کرتے ہیں۔ ان کا تناسب اہمیت رکھتا ہے۔ اگر قانون شکن وہی ہوں جو آگے بڑھتے ہیں اور دوسروں کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو حالات خطرناک رخ اختیار کر جاتے ہیں۔ پھر ڈنڈے کا قانون انسانی اقدار اور آفاقی اصولوں کو مذاق بنا دیتا ہے۔ اگرچہ انہی اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ہمیں ایسے سماجی رول ماڈلز کی ضرورت ہے جو لوگوں کے لیے مثال بنیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کامیابی کے ماڈلز کی بنیاد مشکوک شخصیات ہوتی ہیں جو قانون شکنی میں ماہر نظر آتی ہیں لیکن انہیں کبھی پکڑا جاتا ہے اور نہ سزا ہوتی ہے۔ متمول افراد کا حکم چلتا ہے‘ رشوت چلتی ہے اور وہ ہر ایسی پالیسی کا دھڑن تختہ کردیتے ہیں جو اُن کے مفاد کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ ان کی طرف کوئی انگلی تک نہیں اٹھا سکتا۔ سیاست میں زرداری اور شریف خاندان کئی بار بے نقاب ہوئے‘ متعدد سکینڈلز میں پھنسے‘ ملک سے بھاگے‘ واپس آئے اور دوبارہ حکومت سنبھال لی۔ ایسے اور بھی معاشی مشیر ہیں جو آپ کو ٹیکس سے بچنے‘ اکاؤنٹس چھپانے‘ ٹیکس ادا کرنے کے بجائے پیسہ سمندر پار اکائونٹس میں رکھنے کی تدبیر بتاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کی کثیر تعداد سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے ایمنسٹی سکیموں کی صورت میں مراعات دی جاتی ہیں۔ اگر ٹیکس نہ دینے والے کو سزا کے بجائے مراعات دی جا رہی ہیں تو ایماندار شہری ٹیکس کیوں دے؟ اس نے عدم اعتماد‘ عدم احتساب اور نتیجتاً معاشی اور اخلاقی زوال کا کلچر پیدا کیا ہے۔ قومی سطح پر ادارے تباہ کن طرزِ حکمرانی کے نمونے ہیں۔ وہ سفید ہاتھی ہیں جو ٹیکس دہندگان کے پیسے پر پالے گئے ہیں جو معیشت کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انفرادی سطح پر لوگوں کا اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا یقین اس قدر متزلزل ہو چکا ہے کہ ان میں بہترین کارکردگی دکھانے کی صلاحیت دم توڑ رہی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں قانون شکنی کرنے والوں کو زیرک‘ ہوشیار اور کامیاب سمجھا جاتا ہے اور قانون کی پاسداری کرنے والوں کو احمق‘ نظریاتی اور ناقابلِ عمل سمجھا جائے‘ اس معاشرے میں جرائم اور بدعنوانی ایک معمول بن جاتے ہیں۔
جیسے جیسے اصولوں کی پامالی اور قانون شکنی کو برداشت کرنے کی روایت بڑھتی جاتی ہے‘ امن‘ ہنر اور اختراع خواب و خیال بن جاتے ہیں۔ منصفانہ احتساب سے عاری ملک بدمعاشوں کے لیے لوٹ مار کا میدان بن جاتا ہے۔ اس کی موجودہ مثال کہ کس طرح تمام مطلوب ریاستی افراد ایک ایک کرکے واپس آ رہے ہیں اور ان کے مقدمات خارج ہو رہے ہیں اور انہیں عہدوں سے نوازا جا رہا ہے‘ ملک میں دو قوانین کے نظام کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام محسوس کرتے ہیں کہ ان کے سر سے سائبان اٹھتا جارہا ہے‘ ان کی دیواریں زمین بوس ہورہی ہیں اور وہ لاوارث بن کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے حکومت کی جانب سے صرف ایک اور نام کی تبدیلی سے اب مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ واحد حل یہ ہے کہ ایسے قوانین ہوں جو طاقتور سے زیادہ طاقتور ہوں۔ اس کا واحد حل ایک ایسا نظام ہے جو افراد سے بالاتر ہو۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ طاقتور اور بے اختیار کے لیے ایک ہی کہانی‘ ایک قانون‘ ایک نظام ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved