اگلے روز آسٹریلیا میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کے بنیاد الزامات دہراتے ہوئے اپنے ماتھے کی کالک دوسروں پر ملنے کی ناکام کوشش کی۔ بھارت شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہو چکا ہے کہ اسرائیل کی طرح آسٹریلیا سمیت دوسرے ممالک کی آنکھیں اور کان بند ہو چکے ہیں جس سے وہ دہشت گردوں کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے کارنامے سن اور پڑھ کر جان سکتے ہیں کہ دہشت گردی کا اصل پشت پناہ کون ہے۔ آج دنیا میں کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ بھارت کی تمام اقلیتوں سمیت اس کے ہمسایہ ممالک برسوں سے اس کی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والے نریندر مودی کو اگر گوگل پر تلاش کیا جائے تو اس کا نام ایک قصاب کے طور پر سامنے آئے گا جس کی مناسبت سے دنیا اسے Butcher کی حیثیت سے جانتی ہے اور اس بُچر کے کارناموں کی وجہ سے ہی امریکہ میں تو باقاعدہ اس کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ایک دہائی قبل کی بات ہے جب بہت زیادہ عالمی دباؤ پر بھارتی حکومت نے سیاچن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اشارہ دیا ہی تھا کہ اس وقت کے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دیپک کپور نے بھارتی وزیراعظم کو خبرادر کیا کہ آپ جو چاہے کریں لیکن بھارتی فوج دو سال مزید سیاچن پر رہے گی اور دو سال بعد کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم فیصلہ کریں گے کہ فوج کو سیاچن سے واپس بلایا جائے یا وہیں رکھا جائے۔ جب یہ عرصہ گزرا اور امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی جانب سے سیاچن خالی کرنے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھنا شروع ہوا تو بھارتی براہمن سر جھوڑ کر بیٹھ گئے اور پھر اچانک ایک دن یک لخت پورا ممبئی بم دھماکوں سے گونج اٹھا جس سے سینکڑوں لوگ مارے گئے اور سیاچن کا مسئلہ ممبئی کی اس دہشت گردی کی گرد میں چھپ گیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن ایک طے شدہ کشمیری ایجنڈے پر بات کرنے کیلئے بھارت اور پاکستان کے مشترکہ دورے کے پہلے مرحلے کیلئے جب نئی دہلی ایئر پورٹ پر ابھی اترے ہی تھے کہ جہاز ہی میں انہیں اطلاع مل گئی کہ مقبوضہ کشمیر کے گاؤں چٹی سنگھ پورہ کے 34سکھوں کو‘ جن کی عمریں اٹھارہ سے ساٹھ سال کے درمیان تھیں‘ گاؤں کے باہر کھڑا کرکے نامعلوم لوگوں نے ہلاک کر دیا ہے۔ پھر چند لمحوں بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر نے ایک مسلح نوجوان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس کا تعلق پاکستان کی حمایت یافتہ جہادی تنظیم سے ہے اور پھر نئی دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں پاکستان کے خلاف خون ریز مظاہرے شروع کرا دیے گئے۔ جس پر امریکی صدر بل کلنٹن کو اس وقت کی بھارتی حکومت نے پیغام پہنچایا کہ ان حالات میں ہم اگر پاکستان سے کشمیر اور سیاچن پر بات چیت تو دور کی بات‘ اس کا ذکر بھی کرتے ہیں تو بھارتی عوام ہمیں نکال باہر کریں گے۔ جس پر امریکی صدر بل کلنٹن کا یہ دورہ کشمیر پر مزید کوئی بات چیت کرنے کے بجائے اپنے ویزا کارڈ سے تین قالین خریدنے اور بھارتی پارلیمنٹ سے ایک پھیکا سا خطاب کرنے تک ہی محدود رہا۔ کسی بھی امریکی صدر کا بھارت کا دورہ اس قدر محدود کبھی بھی نہیں ہوا۔ امریکی وفد کے سامنے پوری بھارتی قیادت نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھارتی عوام میں پاکستان مخالف جذبات بھرے پڑے ہیں اور اگر ہم نے کشمیر پر کوئی بات کی تو ہم اگلا الیکشن ہار جائیں گے۔
بھارت سرکار کی دہشت گردانہ سوچ کی ایک اور مثال کچھ یوں ہے کہ چند سال قبل بھارتی شہر پونا کا رہائشی سریش یشونت ناشک سرکاروارا پولیس سٹیشن انچارج کے کمرے میں اپنے ریوالور کا اسلحہ لائسنس لیے پہنچا تو اسے شک تھا کہ کہیں اس کا لائسنس جعلی نہ ہو‘ جو اسے بھارتی فوج کے ایک کرنل پرساد پروہت نے بیس ہزار روپے کے عوض بنا کر دیا تھا۔ ناشک پولیس نے جب لائسنس کی تفصیلات چیک کیں تو اس میں سریش یشونت کو دیولالی فوجی کیمپ کا رہائشی ظاہر کیا گیا تھا تاکہ فوجی ہونے کے ناتے اس کا لائسنس بننے میں آسانی ہو۔ سریش یشونت نے پولیس کو صاف بتا دیا کہ وہ فوجی نہیں بلکہ عام شہری ہے اور اس کا لائسنس بنانے کیلئے بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت نے جعلی کاغذات تیار کیے ہیں اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ناشک پولیس نے سریش کی درخواست پر بھارتی فوج کے کرنل پروہت کے خلاف سرکار وارا تھانہ میں بھارتی پینل کوڈ کی دفعہ 420‘ 468‘ 471 اور 474کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ بھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے اس کیس کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ یہ گجرات کے ایک مندر کا پروہت ہے‘ کرنل پروہت نہیں لیکن ہوا یہ کہ چند دنوں بعد پہلے دیولالی فوجی کیمپ کے کچھ فوجیوں نے وہاں کی پولیس کے اہل کاروں کو ان کے ایک ساتھی کو‘ جو سول کپڑوں میں تھا‘ روکنے پر بہت مارا۔ اس معاملہ کو فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسران نے مل کر دبا دیا لیکن جونہی بھارتی فوج کے کرنل کے جعلی کاغذات تیار کرنے کا معاملہ پولیس کی نظروں میں آیا‘ میڈیا کو فوری طور پر اس کی اطلاع کر دی گئی اور پونا کے سریش یشونت نے تو بھانڈا ہی پھوڑ دیا جس نے ناشک پولیس کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کو بھی اس کی اطلاع کر دی۔ جب یہ بات ممبئی پولیس تک پہنچی تو بھارتی کرنل اور بالی وُڈ کے مشہور فلم سٹار سنجے دت کا موازنہ کیا جانے لگا کہ اگر اسے دبایا گیا تو پھر بتانا پڑے گا کہ ''سنیل دت اور نرگس کے بیٹے اور بھارتی فوج کے کرنل پرساد کیلئے قانون میں فرق کیوں ہے‘‘۔ بین الاقوامی میڈیا کو خبر ہونے سے یہ معاملہ سفارتی حلقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ممبئی پولیس کے ایڈیشنل کمشنر انسدادِ ہشت گردی سیل پرم بیر سنگھ پر ہندوستانی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس کے چیف کی طرف سے سخت دباؤ تھا کہ یہ کیس دبا دیا جائے کیونکہ بھارتی فوج کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ان کے ایک اعلیٰ فوجی افسر کی دہشت گردی کے ثبوت سامنے آ رہے تھے لیکن بات دور دور تک پھیل چکی تھی۔
فروری 2007ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی کچھ بوگیوں کو کیمیکل‘ بارود اور تیل سے آگ کا گولہ بنا دیا گیا جس میں 68مسافر جل کر کوئلہ بن گئے۔ بھارتی میڈیا اور اس کی ایجنسیاں دنیا کو بے وقوف بنانے کیلئے ایک ہی راگ الاپتی رہیں کہ یہ کام پاکستانی ایجنسیوں کا ہے جو بھارت کو بدنام کرنے کیلئے اپنے ہی آدمیوں کو مار کر یہ ڈرامہ کر رہی ہیں لیکن جب ناشک پولیس کے انسدادِ دہشت گردی سٹاف نے سریش کے اسلحہ لائسنس کیلئے کرنل پروہت کے خلاف دیولالی فوجی کیمپ کے جعلی کاغذات تیار کرنے میں ملوث دوسرے لوگوں کا پتا چلایا تو ایک بھیانک انکشاف یہ بھی ہوا کہ لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت نے 2006ء میں‘ جب وہ دیولالی کے فوجی کیمپ میں تعینات تھا‘ بھگوان داس نامی ایک شخص کو 60کلوگرام RDX دی تھی جس کے گروپ میں شامل رام نرائن کلسنگرم‘ سمیر ڈینگ اور پرگیا سنگھ نے کرنل پروہت کی مدد سے 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کی بوگیوں اور29 ستمبر کو مالی گاؤں کی مسجد میں بم دھماکے کرتے ہوئے 28مسلمانوں کو جلا ڈالا۔ اس دن پورا بھارت ہل کر رہ گیا جس دن بھارت کے پبلک پراسیکیوٹر اجے مسار نے ناشک میں عدالت کے سامنے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کی تفتیش کے مطا بق بھارتی فوج کا حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت ہی مالی گاؤں اور مکہ مسجد حیدر آباد بم دھماکے اور سمجھوتہ ایکسپریس کو جلانے کا ماسٹر مائنڈ ہے اور اس گروپ میں بھارت کے کچھ ریٹائر فوجی افسر بھی شامل ہیں اور اس سلسلہ میں میجر رمیش اپاڈیا کو بھی گرفتار کیا گیا۔ میجر رمیش کی گرفتاری سے مالی گاؤں مسجد بم دھماکے کے فوری بعد کرنل پروہت کی طرف سے میجر رمیش کو کیے گئے پانچ SMS بھی سامنے آئے۔ بھارت میں اب بھی اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی اور ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے اور اقوامِ عالم اس سے چشم پوشی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved