تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     29-01-2023

تاریخ کا طبل

27فروری 2002ء کو بھارت کی شمالی ریاست اُترپردیش کے شہر ایودھیا سے ایک ٹرین گجرات آرہی تھی۔ جب سامبرتی ایکسپریس گودھرا ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو اس کی بوگی نمبر چھ میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ میں رام مندر کی تعمیر کیلئے جانے والے 59رضا کار جل مرے۔ اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد بھارتی ریاست گجرات میں وہ خوفناک فسادات پھوٹ پڑے جن کی تپش آج بھی کافی شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے۔ ان فسادات میں ایک سے دو ہزار تک افراد مارے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تب آج کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ فسادات کے دوران ہی ایسی باتیں اٹھنا شروع ہوگئی تھیں کہ ان فسادات میں وزیراعلیٰ نریندر مودی براہِ راست ملوث ہیں۔ قرار دیا جانے لگا کہ انہی کے خفیہ احکامات پر سکیورٹی اداروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ فسادات کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فسادی کئی روز تک ہر جگہ دندناتے رہے اور ظلم کی داستانیں رقم کرتے رہے۔ مودی کے ملوث ہونے کے خدشات کو تب مزید تقویت ملی جب نریندر مودی نے ان فسادات کو سیڑھی بنا کر وزارتِ عظمیٰ کی طرف اپنے سفر میں تیزی پیدا کرنا شروع کردی۔ گجرات فسادات کے بعد بی جے پی نے ایسا ماحول پیدا کردیا تھا جس کے تحت ہندو اکثریت یہ سمجھنے لگی تھی کہ نریندر مودی ہی اکثریت کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ واضح طور پر یہ محسوس کیا جاتا رہا کہ بی جے پی نے گجرات فسادات سے بھرپور سیاسی فوائد حاصل کیے تھے۔ قصہ مختصر یہ رہا کہ ان خوفناک فسادات کے بعد ریاست گجرات میں بی جے پی مسلسل مضبوط ہوتی چلی گئی اور نریندر مودی کے وزارتِ عظمیٰ کی طرف سفر میں بھی تیزی آتی گئی۔ بالآخر نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بنے اور اس وقت بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد وہ لوگ بھی بتدریج بری ہوتے گئے جن کے خلاف فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات درج تھے۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جنہیں خود فسادات کے دوران قتل و غارت کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا لیکن فسادات پر ہمیشہ کسی نہ کسی طور بحث کا سلسلہ جاری رہا۔
ایسی باتوں سے جان چھڑانے کے لیے مودی حکومت نے گجرات فسادات کے حوالے سے ایک اور اہم قدم بھی اٹھایا۔ بھارت میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ سکولوں کے لیے نصابی کتب تیار کرتی ہے۔ اس ادارے نے 12ویں جماعت کی پولیٹکل سائنس کی کتاب میں گجرات فسادات کے بارے میں ایک باب شامل کردیا تھا۔ اس باب میں 1990ء کے بعد سے بھارت میں ہونیوالے اہم واقعات کی بابت معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ اسی باب میں گجرات فسادات کی بابت بھی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ نصابی کتاب میں شامل اس باب کی وجہ سے طالب علموں میں اکثر گجرات فسادات کا چرچا رہتا تھا۔ یہ صورتحال نریندر مودی اور اُن کی جماعت کے لیے کافی تکلیف دہ رہتی تھی۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ گزشتہ سال جون میں درسی کتاب سے یہ باب مکمل طور پر نکال دیا گیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ تب ایسی بہت سی باتیں سامنے آئی تھیں کہ کیا باب نکال دیے جانے سے تاریخ تبدیل ہو سکتی ہے؟ کیا حکومت کی اس کوشش کے بعد لوگ گجرات فسادات کو بھول جائیں گے؟ کیا دنیا ایسی تصاویر کو اپنے ذہنوں سے جھٹک دے گی جن میں فسادیوں کو کھلے عام لوگوں کا قتلِ عام کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا؟ قرار دیا گیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ گجرات فسادات کی تکلیف نسل در نسل آنے والی نسلوں تک پہنچتی رہی گی کیونکہ اس میں ہر برادری کے افراد متاثر ہوئے تھے۔ معاملہ دراصل وہی تھی کہ مودی حکومت بھی اس تاریخی بحث سے ویسے ہی خوفزدہ ہورہی تھی جیسے عمومی طور پر حکومتیں حقیقت سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ ان کی کوشش رہتی ہے کہ ان کے غلط کاموںکی بابت عوام کو کبھی معلوم نہ ہو سکے۔ اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کیلئے وہ مسلسل مختلف اقدامات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس حوالے سے صورتحال زیادہ گمبھیر ہے جہاں حصولِ اقتدار کیلئے ہرحربہ جائز گردانا جاتا ہے۔
اب گجرات فسادات کے بارے میں ایک بار پھر بحث میں شدت آ گئی ہے۔ اس مرتبہ اس کی وجہ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم بنی ہے جس میں فسادات کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر نریندر مودی کے کردار پر متعدد سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ انڈیا: دی مودی کویسچن نامی اس دستاویزی فلم میں سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا گیا کہ بطور وزیراعلیٰ نریندر مودی گجرات فسادات کو روکنے میں ناکام کیوں ہوئے۔ بی بی سی کی یہ دستاویزی فلم دو حصوں میں سامنے آئی ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ فلم میں مودی کا تعارف کچھ یوں پیش کیا گیا ہے کہ مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما ہیں جنہیں دوسری بار بھارتی وزیراعظم منتخب کیا جا چکا ہے اور یہ کہ اُنہیں اپنی نسل کے طاقتور سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مودی کے بارے میں مزید کہا گیا ہے کہ مغرب کی نظر میں مودی چینی تسلط کے خلاف ایک علامت ہیں۔ اس تعارف کیساتھ ساتھ مسلمانوں کے بارے میں مودی کے رویے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ خصوصاً گجرات فسادات کے دوران مودی کے رویے کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ فلم میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تناؤ کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور یہ سب کچھ جاننے کیلئے بے شمار افراد سے گفتگو کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا کے کچھ بیانات کے بھی چرچے ہیں۔ ان بیانات میں اُنہوں نے گجرات فسادات کے حوالے سے کچھ غیرشائع شدہ رپورٹس کی بابت بات کی ہے۔ جیک سٹرا قرار دیتے ہیں کہ یہ حیران کن رپورٹس تھیں جو مودی کے کردار کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھاتی تھیں۔ رپورٹس میں ایسی باتیں سامنے آئی تھیں کہ پولیس کو جان بوجھ کر پیچھے رکھا گیا اور فسادیوں کو مسلسل اکسایا جاتا رہا اور یہ سب کچھ مودی کیلئے کافی نقصان دہ رہا۔
اب ہوا یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر بھارت میں پابندی عائد کردی ہے۔ حکومت کی طرف سے ٹویٹر کو اس فلم کی وڈیو سے متعلق پچاس سے زائد ٹویٹس بلاک کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔ سوال ایک مرتبہ پھر وہی ہے کہ کیا تاریخ سے فرار ممکن ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ تاریخ کو اپنے اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن بہرحال تاریخ کا طبل بج کر ہی رہتا ہے۔ نریندر مودی نے ہمیشہ گجرات فسادات کے دوران خود پر لگنے والے الزامات سے بچنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ آوازیں ہمیشہ بلند ہوتی رہیں۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے سامنے آنے پر یہ آوازیں مزید بلند ہو گئی ہیں۔ گویا یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تاریخ سے فرار حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے لیکن اس سے چھٹکارا بہرحال ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے ہاں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ایک وقت کے کئی ایک جابر حکمران آج دنیا سے جانے کے بعد بھی عوامی احتساب کا شکار نظر آتے ہیں۔ گاہے گاہے ان کی کرتوتوں کا پوسٹ مارٹم جاری رہتا ہے۔ بس اقتدار سے الگ ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ سب کرتوت سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں۔ اگر نہیں یقین آتا تو کچھ ایسی شخصیات کی مثال تو حال کے تناظر میں بھی دی جا سکتی ہے۔ ہمارے ایک ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جو ایک سابق چیف جسٹس کے کراچی میں داخلے کو روکنے کے لیے عوام کو مشتعل کرنے کے مبینہ مرتکب گردانے جاتے ہیں۔ تب کراچی کی سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی تھیں اور یہ صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ عوام نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج ہمارے یہ سابقہ حکمران ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بس یہی ہے تاریخ کا جبر جس کا پہیہ ہمیشہ گھومتا رہتا ہے۔ اس میں ہم سب کیلئے سمجھنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن بے شک انسان خسارے میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved