تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     30-01-2023

بھینس چوری والا مائنڈ سیٹ

''اے ماں! تو نے ہمیں کن زمینوں اور زمانوں میں جنم دیا ہے۔‘‘ مرحوم ومغفور مربی سید عباس اطہر (شاہ جی) کی آزاد نظم کا یہ مصرع کئی بار دہرا چکا ہوں اور آئندہ بھی شاید دہراتا رہوں گا۔ چند ہزار کی اقلیت نے 23کروڑ سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کی اکثریت کو اس طرح یرغمال بنایا ہوا ہے کہ نسل در نسل لوٹنے والوں نے ملک و قوم کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ دھرتی ماں کو اگر کھانا چھوڑ دیں تو نہ اصلاحات کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان سماج سیوک نیتاؤں کے انقلابی اقدامات کی۔ بس تھوڑی سے وفا چاہیے‘ اس مٹی کے ساتھ‘ اس ملک میں بسنے والے عوام کے ساتھ‘ ضرورتوں اور مصلحتوں میں لتھڑی ہوئی سیاست ہو یا مجبوریوں کے فیصلے ملک و قوم کو کس مقام پر لے آئے ہیں؟ آٹے کے لیے لگی طویل قطاریں ہوں یا پٹرول کیلئے مارے مارے پھرنے والوں کا جمِ غفیر‘ سماج سیوک نیتاؤں کی گورننس کا خاص حسن ہے‘ جس کے دیگر جلوؤں کا ذکر چھیڑوں تو ایسے درجن بھر کالم بھی ناکافی ہیں۔ جہاں بنیادی ضروریاتِ زندگی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں وہاں ریاست کے معاملات بھی ہاتھوں سے نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ گورننس شرمسار اور میرٹ تار تار ہو جائے تو کیسی حکومت‘ کہاں کی حکمرانی‘؟
بوئے سلطانی کے مارے حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی نے مخالفین کو سرنگوں کرنے کے لیے جبر اور اوچھے ہتھکنڈوں کو کب نہیں آزمایا؟ اس بدعت کو دوام بخشنے کا سہرا نواز شریف کے سر ہے۔ احتساب بیورو کے بانی نے اپنے حریفوں کو کچلنے کے لیے قانون اور ضابطوں کا وہ قوام بنایا کہ ایسی روایت چل نکلی کہ سبھی حکمرانوں نے کبھی استحکامِ اقتدار اور کبھی طولِ اقتدار کے لیے احتسابی ادارے کا وہ بے دریغ استعمال کیا کہ جزا و سزا کے تصور کو الٹانے سے لیکر صادق اور امین کے معنی بھی اُلٹے لٹکا ڈالے۔ نااہل ہونے کے بعد نواز شریف اپنے ہی بنائے گئے احتسابی ادارے اور قوانین کے خلاف واویلا کرتے رہے‘ گویا یہ دہائی دے رہے ہوں کہ میں نے تو یہ احتسابی ادارہ حریفوں اور مخالفین کو کچلنے کے لیے بنایا تھا پھر مجھے ہی کیوں زیر عتاب رکھے ہوئے ہیں؟ وہ تو اس پچھتاوے کا بھی برملا اظہار کرتے رہے کہ کاش وہ پیپلز پارٹی کی پیشکش قبول کر کے آرٹیکل 62/63 کو ختم کر ڈالتے تو اس طرح نااہل اور زیر عتاب نہ ہوتے۔
جس طرح سماج سیوک نیتاؤں نے اقتدار میوزیکل چیئر کا کھیل بنائے رکھا اسی طرح اقتدار سے باہر ہونے والی پارٹی کو حکومت مخالف لائن لینے پر ریاستی جبر اور عتاب کا بھی برابر سامنا رہا۔ یہ بدعت آج بھی کئی اضافوں کے ساتھ جاری ہے اور اس کا تازہ ترین ایڈیشن یہ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے ڈرائیور اور گن مین کو گرفتار کر کے'' شراب کی بوتلیں‘‘ برآمد کر لی گئی ہیں اور زیر حراست ملزمان سے چوہدری پرویز الٰہی کے فرنٹ مین کے بارے'' انکشافات‘‘ بھی کروائے گئے ہیں۔ اس کارروائی کے بعد کوئی انہیں بتائے کہ ہم بتائیں کیا‘ آج تک کبھی سنا نہ کہیں پڑھا کہ دماغ استعمال کرنے سے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پھر خدا جانے ملک کے اہم ترین منصبوں پر براجمان اور ان کے اردگرد پائے جانے والے بااختیار فیصلہ ساز وزیروں اور مشیروں سمیت سرچڑھے سرکاری بابو اس سے گھبراتے کیوں ہیں؟ شراب برآمدی کی خبر سن کر مجھے بے اختیار چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ یاد آگیا۔
حکومتوں کا بھی عجیب مائنڈ سیٹ ہوتا ہے‘ نہ کچھ شایانِ شان دیکھتی ہیں‘ نہ کوئی تال میل دیکھتی ہیں اور نہ ہی کچھ قابلِ فہم دیکھتی ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتیں کہ ایسی بھونڈی حرکات کو عوام سنجیدہ لینے کی بجائے ان پر ہنستے ہیں۔ عوام کو ہنسنے ہنسانے کا موقع فراہم کرنا ہے تو یہ اور بات ہے۔ ویسے بھی اس مایوسی اور نااُمیدی کے دور میں حکومت اگر عوام کو ہنسنے کا موقع فراہم کر رہی ہے تو عوام کو اس موقع سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے ضرور ہنس لینا چاہیے۔ حکومت نے ان کی زندگی میں ہنسنے ہنسانے کے سبھی مواقع تو ویسے ہی ختم کر ڈالے ہیں۔ ایسے حکومتی اقدامات عوام کے لیے یقینا کسی نعمت اور غنیمت سے کم نہیں۔
عوام کو اسی طرح ہنسنے ہنسانے کے مضحکہ خیز مواقع ماضی میں بھی برابر ملتے رہے ہیں۔ عناد اور انتقام کی بھٹی میں جلانے کے لیے طاقت اور امتیازی قوانین کے استعمال کا رواج ہر دور میں عام رہا ہے۔ ان کی پھیلائی ہوئی بدعتوں نے گورننس کے معنی بھی بدل ڈالے ہیں۔ جہاں طرزِ حکمرانی من مانی بن کر رہ جائے‘ مفادات اور ضرورتیں سیاسی ایجنڈے بن جائیں‘ مصلحتیں منشور بننے لگیں‘ سمجھوتے مجبوریاں بنتی چلی جائیں تو وہاں گورننس کیونکر ممکن ہے۔ سالہاسال بدل جائیں‘ کتنی ہی رُتیں بیت جائیں‘ حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ اور ان کی پھیلائی ہوئی تباہیوں اور بربادیوں کے اثراتِ بد آئندہ نسلوں کو برابر جکڑے ہوئے ہیں تاہم ماضی کے چند ادوار کا ذکر بھی کرتے چلیں جب احتساب کے نام پر مخالفین کو نہ صرف بھر پور رگڑا لگوایا جاتا رہا ہے بلکہ قیدوبند کے ساتھ ساتھ عتابوں اور عذابوں سے بھیانک شکلوں سے بھی دوچار رکھا جاتا رہا ہے۔
چند سال پرانے اپنی ہی ایک کالم بعنوان ''مائنس عوام تو مائنس آل‘‘ کی کچھ مستعار سطریں بطور حوالہ پیش خدمت ہیں کہ ''دورِ ایوبی میں ایبڈو(Elected Bodies Disqualification Ordinance )کے تحت درجنوں سیاست دانوں کو نااہل اقرار دے کر ان کی سیاست پر تاحیات پابندی لگائی جاتی رہی ہے۔ ان متاثرہ سیاست دانوں میں عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین بھی شامل تھے جبکہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایوب کھوڑو بھی اس قانون اور ریاستی جبر کا نشانہ بن کر نااہل قرار پائے۔ ذوالفقار علی بھٹو جس ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے پھر اُنہیں کے خلاف برسرِ پیکار بھی رہے اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے ان کے سکھائے ہوئے گُر بھی آزماتے رہے۔ بم برآمدگی کے بعد عدالتی کٹہرے میں کھڑے استاد دامن کو جب اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا گیا تو وہ صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ: جس نے مجھے یہاں لا کھڑا کیا ہے کل وہ خود اسی جگہ کھڑا ہو گا۔ اسی طرح غلام مصطفی کھر پر کپاس چوری کا مقدمہ کچھ یوں درج کیا گیا کہ موصوف 35من کپاس سر پر اٹھا کر چرُا لے گئے۔ ضیا الحق کے دور میں نظامِ مصطفی کے نام پر اقتدار کو طول اور استحکام دینے کیلئے جھانسوں کے علاوہ آواز اٹھانے والوں کو کوڑوں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی ضیا الحق کی ضد اور خوف کا شاخسانہ تھا۔ بینظیر دور میں بے باک زبان استعمال کرنے پر شیخ رشید کو طویل عرصہ پابندِ سلاسل رکھا گیا‘ شریف برادران کے خلاف مقدمات اور انتقامی کارروائیاں بھی جواب آں غزل کے طور پر برابر جاری رہیں۔‘‘
بات چل رہی تھی ان بوتلوں کی جو ملزمان نے چوہدری پرویز الٰہی کے ڈرائیور سے برآمد کی‘ مقدمے کے حالات و واقعات ہوں یا مندرجات یہ سبھی مضحکہ خیز اور فیصلہ سازوں کا وہ اقدام ہے جو انہوں نے اپنا ہی تمسخر اُڑانے کے لیے کر ڈالا ہے۔ بھینس چوری سے شراب برآمدی جیسے مضحکہ خیز الزامات تک‘ وہی مائنڈ سیٹ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved