تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     30-01-2023

ہر آنے والا سال

ویسے تو ہر آنے والا سال معاشی طور پر پہلے سے بدترین ثابت ہورہا ہے لیکن سالِ رواں یعنی 2023ء کو عالمی سطح پر معاشی لحاظ سے بدترین سال قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر روس یوکرین جنگ ختم نہیں ہوتی یا اس میں مزید تیزی آتی ہے اور دیگر ممالک بھی اس آگ میں کود پڑتے ہیں‘ جیسا کہ گزشتہ دنوں جرمنی نے یوکرین میں ٹینک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے‘ تو یوکرین کو دیگر ممالک سے مدد ملنے سے یہ جنگ طویل تر ہوتی جائے گی جبکہ روس کے پاس اسلحے کے اس قدر زیادہ انبار ہیں کہ وہ ان کی مدد سے اگلے دس‘ بیس سال تک بھی یہ جنگ جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد روس سمیت باقی دنیا کی معیشت کا کباڑا ہو جائے گا‘ لیکن یہ باتیں جنگ شروع کرنے سے قبل کوئی نہیں سوچتا۔ اُس وقت تو بس دوسرے کو تہِ تیغ کرنا ہی واحد مقصد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جاپان دنیا کے لیے ایک مثال ہے جس نے امریکہ سے ایٹم بم گرانے کا بدلہ جنگ کی صورت میں نہیں لیا بلکہ معیشت اور ٹیکنالوجی میں وہ اتنا آگے نکل گیا کہ آج امریکہ بھی الیکٹرانکس اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ سامان کا تیس فیصد جاپان سے درآمد کرنے پر مجبور ہے۔اسی طرح امریکہ کو میٹل اور کیمیکل سے متعلقہ بیس فیصد درآمدات بھی جاپان ہی سے کرناپڑ رہی ہیں۔چین نے بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی اور اب دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو چین سے تجارت نہ کر رہا ہو‘ جو اپنی ضروری درآمدات کا بڑا حصہ چین سے نہ منگواتا ہو۔
2022ء کا جائزہ لیں تو 026 3 بلین ڈالر کے ساتھ چین برآمدات میں سرفہرست رہا۔اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے جس کی برآمدات چین کے نصف کے قریب تھیں۔ 1753 ارب ڈالر کے ساتھ یہ دوسرے نمبر پر تھا۔ 1626 ارب ڈالر کے ساتھ جرمنی تیسرے،747 ارب ڈالر کے ساتھ جاپان چوتھے نمبر پر جبکہ 691 ارب ڈالر کے ساتھ نیدرلینڈز پانچویں نمبر پر رہا۔ اس کے بعد اس فہرست میں بالترتیب ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، اٹلی، فرانس، بلجیم، کینیڈا، میکسیکو اور روس کے نام آتے ہیں۔ بھارت اس فہرست میں اٹھارہویں، بنگلہ دیش 53ویں جبکہ پاکستان 67ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے رقبے اور آبادی کے سامنے نیدرلینڈز اور بلجیم جیسے ممالک کس شمار قطار میں ہی نہیں آتے، لیکن ان کی ایکسپورٹس ہمارے جی ڈی پی سے بھی دو گنا ہیں۔ دنیا میں جتنا بھی بڑا معاشی بحران آ جائے‘ یہ جدید ممالک اس کے لیے تیار رہتے ہیں اور ممکنہ بحرانوں کا کسی نہ کسی طریقے سے مقابلہ کرتے رہتے ہیں؛ تاہم پاکستان جیسے ممالک‘ جو عمومی حالات میں بھی ڈگمگاتے رہتے ہیں‘ کے لیے عالمی کساد بازاری کے ماحول میں تگ و دو کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن ایک چیز جو سب سے زیادہ اہم ہے‘ وہ لانگ ٹرم پلاننگ کا نہ ہونا ہے۔ کسی بھی ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے شارٹ ٹرم‘ مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ کرنا ہوتی ہے۔ محدود مدت کی منصوبہ بندی پانچ سال، مڈ ٹرم دس سے بیس سال اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی پچاس سال اور اس سے زیادہ کے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔پاکستان کو دیکھیں تو یہاں کچھ منصوبے ایسے تھے جو لانگ ٹرم پالیسیوں پر مبنی تھے جیسے بجلی کی پیداوار کی بات کی جائے تو تربیلا اور منگلا جیسے منصوبے آج سے پانچ عشرے قبل بنائے گئے اور ان سے آج بھی ملک کی بڑی آبادی مستفید ہو رہی ہے؛ تاہم اس کے بعد کالا باغ منصوبہ آپس کے اختلافات کے باعث شروع ہی نہ ہو سکا‘ جس کا خمیازہ ہم آئے روز گھنٹوں پر محیط لوڈ شیڈنگ اور ملک گیر بلیک آئوٹ کی صورت میں بھگتتے رہتے ہیں۔اسی طرح کچھ شعبے ایسے ہیں جن پر ابھی تک صحیح معنوں میں ابتدائی کام بھی شروع نہیں ہو سکا‘ جیسے کہ ٹورازم کا شعبہ‘ جس سے پاکستان خطیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ ابھی تک اس شعبے میں ہم اپنے قدموں پر ہی کھڑے نہیں ہو سکے۔ کہنے کو ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان جیسا ملک کوئی نہیں اور یہاں کے شمالی علاقوں میں جیسی خوبصورتی اور جیسا حسن موجود ہے‘ اس کا مقابلہ سوئٹزر لینڈ بھی نہیں کر سکتا؛ تاہم یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کو قدرت نے جتنے بھی حسین پہاڑ‘ ندیاں اور جنگل وغیرہ دیے ہیں‘ اس نے انتہائی منظم انداز میں انہیں اس طرح سے سنوارا کہ پوری دنیا سے لوگ وہاں جا کر اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔وہاں آپ کو ہر جگہ پر‘ ہر چیز ایک ترتیب سے ملے گی جبکہ ہمارے ہاں مری سے لے کر سوات اور گلگت سے لے کر ہنزہ تک‘ حسین قدرتی نظارے تو بے شمار ہیں لیکن ان علاقوں میں جانے کیلئے کسی سیاح کو جو عالمی معیار کی سہولتیں ملنی چاہئیں‘ وہ کئی جگہوں پر سرے سے موجود ہی نہیں۔
امریکہ جیسے ممالک میں لوگوں کا سال میں دو مرتبہ‘ پندرہ پندرہ دن کی چھٹیاں لے کر سیروتفریح کے لیے جانا ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے حکومت ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتی ہے۔ تفریحی مقامات پر جانے کے لیے بہترین سڑکیں بنائی جاتی ہیں‘ جگہ جگہ پر فیول سٹیشن‘ رہائش اور دیگر سہولتیں موجود ہوتی ہیں اور لوگ جی بھر کے تعطیلات انجوائے کرتے ہیں۔وہاں موٹر ہوم کا بھی رواج ہے۔ لوگ اپنی گاڑی سے ایک چلتا پھرتا کمرہ باندھ کر سیر کو نکل جاتے ہیں۔ اس موٹر ہوم میں بیڈ روم‘ باتھ‘ کچن سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک موٹر ہوم کا کلچر ہی شروع نہیں ہو سکا کیونکہ اس کے لیے وسیع سڑکیں اور وسیع پارکنگ ایریاز درکار ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کمرشل علاقوںمیں بھی پارکنگ ضوابط کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ امریکہ میں کمرشل پلازہ یا سٹور بناتے ہوئے ایک مخصوص رقبہ پارکنگ کے لیے چھوڑنا لازمی ہے جبکہ ہمارے ہاں کوشش یہ ہوتی ہے کہ سڑک کا آدھا حصہ بھی عمارت کے اندر شامل کر لیا جائے۔جب ہم چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہی منصوبہ بندی نہیں کر پائیں گے تو مڈ ٹرم یا لانگ ٹرم پلاننگ کا خیال بھی کیونکر آئے گا؟ ایک حکومت آتی ہے‘ ایک منصوبہ شروع کرتی ہے اگر وہ اچھا ثابت ہوتا ہے تو اگلی حکومت آ کر سب سے پہلے اسے ختم کرتی ہے تاکہ منصوبہ شروع کرنے والی جماعت کو اس کا کریڈٹ لینے سے روکا جا سکے‘ اس کا ووٹ بینک نہ بڑھ جائے۔ ہمارا صحت کا نظام بھی زمین بوس ہو چکا ہے۔ ہر سال دس‘ بیس ہزار ڈاکٹر پیدا کیے جا رہے ہیں لیکن انہیں کھپانے کے لیے ہسپتال ہی موجود نہیں۔ مجبوراً انہیں بیرونِ ملک جانا پڑتا ہے۔ صدشکر کہ آئی ٹی کی فیلڈ ایسی ہے جس میں آپ امریکہ یا کینیڈا کے لیے کوئی سروس دے رہے ہیں تو اپنے ملک میں بیٹھ کر ہی کام کیا جا سکتا ہے اور بدلے میں تنخواہ ڈالروں میں وصول کی جا سکتی ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت اور غنیمت ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ شاید ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے بس میں ہوتا تو ہمارے نوجوان بیروزگاری اور کم ترین تنخواہوں پر گزارہ کرنے پر ہی مجبور رہتے؛ تاہم آئی ٹی نے ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے لیکن ابھی تک اس شعبے کو اس طرح سٹریم لائن نہیں کیا گیا جیسی ضرورت ہے۔
ملک میں ایک نیشنل آئی ٹی پالیسی بنا نی چاہیے جس کے تحت ملک کی باسٹھ فیصد آبادی یعنی تیرہ کروڑ نوجوانوں کی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مثبت انداز میں استعمال کیا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ٹی کے شعبے میں نہ تو بھاری بھرکم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی بڑی بڑی عمارتیں درکار ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے صرف ڈیجیٹل دنیا کی ضروریات اور لوازمات کو سمجھا اور اپلائی کیا جاتا ہے۔ ایک لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن کی مدد سے سارا کام کیا جا سکتا ہے۔بھارت اس چیز کو عشروں قبل سمجھ گیا تھا‘ اسی لیے آج وہ آئی ٹی کے شعبے میں راج کر رہا ہے اور گوگل سمیت دنیا کی دس بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز اور پالیسی میکرز بھارتی نژاد ہیں۔ بھارتیوں کو اس بات کا بھی فائدہ ہے وہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں جبکہ ہمارے لوگ بیرونِ ملک جا کر بھی دوسرے ہم وطنوں کی ٹانگیں کھینچنے سے باز نہیں آتے‘ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ٹاپ آئی ٹی کمپنیوں میں شاید ہی کوئی پاکستانی کسی قابلِ ذکر لیول تک ترقی کر پایا ہو۔ آئندہ جو بھی حکومت بنے‘ اگر وہ شارٹ ٹرم کے ساتھ ساتھ مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ بھی کرے اور آئی ٹی جیسے شعبوں کو ترجیح دے تو نہ صرف روپے کی بے قدری جیسے بحرانوں سے محفوظ رہے گی بلکہ معیشت کو بھی مستقل طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی‘ وگرنہ ہر آنے والا سال ایسے ہی معاشی تباہیاں مچاتا رہے گا جیسے یہ نیا سال مچا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved