تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     30-01-2023

سندھ طاس معاہدے پر پاک بھارت اختلاف

بھارت اور پاکستان کے درمیان اب ایک ایسے معاملے پر تنازع کھڑا ہوا ہے جسے ساری دنیا کے ممالک ایک مثالی معاہدہ مانتے رہے ہیں۔ اب سے قریب 62 سال پہلے بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان کی کوششوں سے دونوں ممالک کے درمیان بہنے والے دریائوں کے پانی کو لے کر سندھ طاس آبی معاہدہ ہوا تھا۔ پاکستان کے شہر کراچی میں یہ معاہدہ طے پایا تھا اور ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے میں ضامن ہے۔ اس معاہدے سے قبل9 برس طویل مذاکرات ہوتے رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی تعمیل کئی جنگوں کے دوران بھی ہوتی رہی لیکن بھارت نے اب اس معاہدے کے قواعد و ضوابط کو بدلنے کی پہل کی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو 90 دن کا نوٹس دیا ہے کہ دونوں ملک مل کر اب معاہدے کے مول پاٹھ میں ترمیم کریں۔ ترامیم کیا کیا ہو سکتی ہیں‘ یہ بھارت سرکار نے ابھی تک واضح نہیں کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ ایسے قوانین اب بنانا چاہے گی کہ جیسا طول اس معاہدے نے ابھی پکڑا ہے‘ ویسا مستقبل میں پھر نہ دہرایا جائے۔ ابھی بھارت اور پاکستان کے درمیان جو جھگڑا چلاہے‘ وہ اس بات پر ہے کہ پاکستان نے بھارت کی شکایت ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کو کر دی ہے اور اس سے درخواست کی ہے کہ دونوں کے اختلافات پر اپنا پنچایتی فیصلہ دے یا ثالثی کرے۔ اصل معاہدے کے مطابق کسی بھی آپسی جھگڑے کو لے کر بین الاقوامی عدالت میں جانا تیسرا متبادل ہے۔ پہلے دو متبادل ہیں؛ یا تو سندھ طاس کمیشن میں جانا یا پھرکسی غیر جانبدار ثالثی کی مدد لینا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع چھڑا، دو ڈیموں کو لے کر‘ جو بھارت بنا رہا تھا۔ بھارت ان دریائوں پر‘ جن کا زیادہ تر پانی پاکستان میں جاتا ہے‘ دو ڈیم بنا رہا ہے۔ کشن گنگا اور راتلے پن بجلی پروجیکٹس سے پاکستان اپنے لیے بڑا خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ یہ دونوں پن بجلی پروجیکٹس جہلم اور چناب کے دریائوں پر بن رہے ہیں۔ پاکستان کو ڈر ہے کہ ان ڈیموں کے ذریعے پاکستان کے انتہائی ضروری پانی کو نہ صرف بھارت روکے گا بلکہ ڈیموں کو اچانک کھول کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کی کوشش بھی کرے گا۔بھارت کے آبی منصوبوں کے متنازع ڈیزائن پر پاکستان نے 19 اگست 2016ء کو عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا۔ پاکستان کی کوششوں کے بعد ورلڈ بینک نے مارچ 2022ء میں عدالتی تشکیل کا عمل شروع کیا۔ 330 میگا واٹ کے کشن گنگا منصوبے کو ماہرین ہر اعتبار سے سٹرٹیجک منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ اس منصوبے کے ڈیزائن سے پاکستان کا ایک ہزار میگا واٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ متاثر ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے جب یہ اعتراض کیا تو سندھ طاس کمیشن کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ اس کمیشن میں دونوں ملکوں کے افسران شامل ہیں۔ تب پاکستان نے پہل کی کہ کوئی تیسرا غیر جانبدار شخص ثالثی کرے۔ پاکستان کی یہ پہل سندھ طاس آبی معاہدے کے موافق تھی لیکن 2015ء میں کی گئی اس پہل کو اچانک 2016ء میں واپس لے لیا گیا۔ اس کی کوئی وجہ بھی اس نے نہیں بتائی۔ اب بھارت کی رضامندی کے بغیر ہی پاکستان ہیگ کی عالمی عدالت میں چلا گیا ہے۔ اسی سے ناراض ہو کر بھارت نے اب پاکستان کو 90 دنوں کا نوٹس دیا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ہیگ کے ججوں کو ابھی تک معاہدے کے اصولوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ پاکستان کے اصرار پر عالمی بینک نے غیر جانبدار ماہر اور ثالثی کا عمل بیک وقت شروع کیا ہے۔ بھارت نے موقف اپنایا کہ بیک وقت غیر جانبدار ماہر کی تقرری اور ثالثی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ بھارت ہیگ کورٹ کی ثالثی کو ہی قبول کرے۔ ہیگ کے ججوں نے کیا سندھ طاس آبی معاہدے کے قواعد کو پڑھے بغیر ہی اس معاملے پر غور کرنا قبول کر لیا ہے؟ یقینا یہ سارا معاہدہ ان کے بھی سامنے ہے۔ بھارت کے لیے عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف بھارت سے سیدھی بات چیت کرنے کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف بات چیت کے ساتھ ساتھ وہ عالمی ثالثی عدالت میں جا رہے ہیں۔
ملائم سنگھ یادیو کو مودی کی ریوڑی
آنجہانی ملائم سنگھ یادیو کو پدم بھوشن ایوارڈ کیا ملا‘ بھارت میں نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ سب سے پہلے تو سب کو حیرانی یہ ہوئی کہ ملائم سنگھ کو یہ اعزاز اس بی جے پی حکومت نے دیا ہے‘ جسے پورے ملک میں سب سے زیادہ اگر کسی نے پریشان کیا تھا تو وہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادیو نے کیا تھا۔ رام مندر کے لیے ہوئے مظاہروں میں بی جے پی لیڈران اور کارکنان کی جیسی دھنائی ملائم سنگھ نے کی تھی‘ کیا کسی اور وزیراعلیٰ نے کی ہو گی۔ شنکرآچاریہ کو گرفتار کرنے کی ہمت کیا آج تک کسی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی ہوئی ہے؟ اگر ملائم سنگھ کی صحت ان کا ساتھ دیتی تو وہی ایسے واحد لیڈر تھے، جو نریندر مودی کو ٹکر دے سکتے تھے۔ ان کے چاہنے والے پورے ملک میں موجود تھے لیکن وہ اتنے فراخ دل بھی تھے کہ پارلیمنٹ میں انہوں نے کھلے عام مودی کی تعریف کی، لیکن کیا اسی لیے ملائم سنگھ کو ان کی موت کے بعد بی جے پی نے ملک کے ایک بڑے سول اعزاز سے نوازا ہے؟ شاید نہیں! اگر مودی پر کیے گئے احسانات کا سوال ہے تو ایسے دوچار لوگ تو اب بھی زندہ ہیں‘ جنہیں بھارت رتن بھی دیا جائے تو وہ بھی کم ہی ہو گا۔ تو ملائم سنگھ کو یہ اعزاز کیوں دیا گیا؟ میرے خیال میں یہ اعزاز نہیں ہے‘ یہ ایک سرکاری ریوڑی یعنی رشوت ہے، جو بعد از مرگ اور زندہ رہتے ہوئے بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ غریبوں میں تقسیم کی جانے والی ریوڑیوں اور ایسے اعزازات کی ریوڑیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ مسز اندرا گاندھی نے اس ریوڑی کو اپنا 'ریوڑا‘ بناکر سب سے پہلے اسے اپنے حوالے کرلیا تھا۔ اب ملائم سنگھ جی کو دی گئی اس ریوڑی کی انہیں بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ کہہ دیتے کہ انہوں نے میٹھا کھانا چھوڑ دیا ہے۔ اب تک جتنے لوگوں کو بھارت رتن ملا ہے‘ ان میں سے دو تین لوگوں کو میں ذاتی طور پر اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ لوگ ملائم سنگھ کے پاسنگ کے برابر بھی نہیں تھے۔ اسی لیے سماج وادی پارٹی کے کچھ لیڈروں کا یہ بیان کچھ بہتر ہے کہ اگر مودی جی نے ملائم سنگھ کو کچھ دینا ہی تھا تو بھارت رتن ہی دینا چاہیے تھا۔ ان سماج وادیوں کو محسوس ہورہا ہے کہ یہ ملائم جی کی عزت نہیں ہے بلکہ یوپی کے یادو ووٹ حاصل کرنے کا ایک پینترا ہے۔ اگر اکھلیش یادیو یا ان کی اہلیہ یہ اعزاز حاصل کرنے پہنچ جائیں تو بی جے پی کی یہ ریوڑی اس کا رس گلا بنے بغیر نہیں رہے گی۔ اکھلیش یادیو کے لیے بی جے پی نے یہ بڑا مخمصہ پیدا کر دیا ہے۔ بی جے پی کے کچھ لیڈر یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ اگر ملائم سنگھ کو وہ اپنا بنالیں تو اکھلیش یادیو کو حاشیے پر کھسکانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گا۔ ان کی ایک حکمت عملی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگلے الیکشن میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کا اتحاد ہوجائے۔ جہاں تک اکھلیش یادیو کا تعلق ہے‘ اسے ڈاکٹر لوہیا کے سوشلسٹ اصولوں پر کوئی خاص پروا نہیں ہے اور معلومات بھی نہیں ہے۔ اسی لیے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے میں سماج وادی پارٹی کو زیادہ مشکل بھی نہیں ہوگی۔ یہ اعزاز ایک شاندار چال بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved