تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-01-2023

سبھی مبتدی تھے

کسی بھی انسان کے لیے سب سے مشکل ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے؛ اور ابتدائی مرحلہ بھی کیا‘ ابتدا ہی کہیے۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے والے افراد کو ابتدا کے وقت شدید ذہنی الجھن کا سامنا ہوتا ہے۔ ناکامی کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ گھبراہٹ حواس پر سوار رہتی ہے۔ دل کبھی ڈوبتا ہے اور کبھی ابھرتا ہے۔ ذہن میں نشیب و فراز کی کیفیت رہتی ہے۔ کیا ابتدائی مرحلے میں یا ابتدا کے وقت یوں بدحواس ہونا، گھبراہٹ کا شکار ہونا، ذہن میں شدید الجھن محسوس کرنا غلط ہے؟ یہ غلط ہے نہ غیر فطری! سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ گھبراہٹ اور الجھن ہی کچھ بہتر کرنے کی راہ سجھاتی ہے۔ ابتدا کسی کے لیے آسان نہیں ہوتی۔ اگر کوئی نوجوان کسی شعبے کے بارے میں اچھا خاصا پڑھنے اور دیکھنے کے بعد اُس میں قدم رکھے تو بھی تھوڑا بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔ یہ خوف اور یہ گھبراہٹ کسی بھی درجے میں اِتنی بری نہیں کہ اِس سے نفرت کی جائے۔ ہاں‘ اِسے بروئے کار لانے کا ہنر آنا چاہیے۔ ابتدا کے وقت محسوس ہونے والا خوف انسان کو ایک طرف تو کچھ کرنے سے روکتا ہے اور دوسری طرف کچھ اور کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے، راہ بھی سجھاتا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ ابتدا کے وقت محسوس ہونے والی گھبراہٹ بہتر کارکردگی کی راہ میں دیوار بنتی ہے لیکن اگر تربیت اچھی ہو اور سکھانے والے معیاری ہوں تو ابتدا کو مثالی بھی بنایا جاسکتا ہے۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ پوری تیاری کے ساتھ پہلی بار میدان میں اُترے اور قابلِ رشک حد تک کامیاب رہے۔
آج ہمیں جتنے بھی کامیاب انسان دکھائی دے رہے ہیں وہ کبھی مبتدی تھے۔ ابتدا تو ہر انسان کو کرنا پڑتی ہے۔ اگر آج کوئی نوجوان ہے تو یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اُس نے لڑکپن اور اُس سے پہلے بچپن گزارا ہوگا۔ کسی بھی شعبے میں جتنے بھی کامیاب انسان دکھائی دے رہے ہیں وہ ایک مرحلے پر مبتدی یا نو آموز تھے۔ ہر مبتدی کو شدید نوعیت کی ذہنی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض شعبے نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ اگر بچہ اپنے باپ، دادا اور دیگر رشتہ داروں کو ایک ہی کام کرتے ہوئے دیکھتا آیا ہو تو اُس کام کا اچھا لگنا حیرت انگیز نہیں۔ اس کے باوجود وہ بچہ جب کام شروع کرتا ہے تو کچھ عجیب محسوس کرتا ہے، تھوڑی سی گھبراہٹ ہوتی ہے، حواس ذرا سے مختل ہوتے ہیں۔ بہت سے نوجوانوں کو آپ اس حال میں دیکھیں گے کہ کسی بھی شعبے میں قدم رکھتے وقت غیر معمولی توقعات اور امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہوں گے۔ سبھی چاہتے ہیں کہ میدان میں قدم رکھتے ہی فتح نصیب میں لکھ دی جائے۔ ایسا تو کسی کے لیے بھی نہیں ہوتا! آج جو لوگ ہنستے گاتے مقابلے جیت لیتے ہیں اُن کی محنت کے بارے میں بھی تو سوچنا چاہیے۔ کوئی بھی کھلاڑی دن رات مشق کرتا ہے تو کچھ کر پاتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ بچوں کا کھیل نہیں۔ ہر کھیل تمام کھلاڑیوں سے بھرپور کارکردگی کا طالب رہتا ہے۔ جس نے خوب مشق کی ہوتی ہے وہ میدان میں دوسروں سے الگ دکھائی دیتا ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی کا یہی حال ہے۔ جو پوری تیاری کے ساتھ عمل کی طرف جاتا ہے وہی کامیابی کی طرف بڑھتا ہے۔
نئی نسل بہت سے معاملات میں شدید الجھن محسوس کرتی ہے۔ پہلی الجھن تو یہ ہوتی ہے کہ کون سا شعبہ منتخب کیا جائے۔ کیریئر یعنی زندگی بھر کے لیے کوئی شعبہ منتخب کرنا سہل نہیں۔ فی زمانہ بہت کچھ ہے جو خاصی تیزی سے الٹ پلٹ جاتا ہے۔ ایسے میں شعبہ منتخب کرتے وقت غیر معمولی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ جس شعبے میں قدم رکھا جارہا ہے وہ کچھ مدت کے بعد کس مقام پر کھڑا ہوگا۔ جب کوئی نوجوان کسی شاندار اور کامیاب شعبے میں قدم رکھتا ہے تب اُس میں جوش بھی زیادہ ہوتا ہے اور توقعات بھی بھرپور ہوتی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اُسے بہت کچھ مل سکتا ہے مگر اس بات پر وہ غور نہیں کرتا کہ بہت کچھ بہت آسانی سے نہیں ملے گا۔ کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے ناگزیر ہے کہ ڈٹ کر، جم کر محنت کی جائے۔ ثابت قدمی بنیادی شرط ہے۔ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی ہی کی بدولت لوگ کامیابی سے ہم کنار ہو پاتے ہیں۔
فی زمانہ ہر شعبے میں چند آسانیاں اور چند مشکلات ہیں۔ ایک بڑی آسانی یہ ہے کہ اب کوئی بھی شعبہ اپنانا بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ کل تک کسی بھی شعبے میں اینٹری کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے تھے۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے! آج کی دنیا میں اینٹری لیول آسان ہوگیا ہے۔ ٹیکنالوجی اتنی ترقی کرچکی ہے کہ کوئی بھی نوجوان کسی بھی شعبے میں بہت آسانی سے قدم رکھ سکتا ہے۔ اگر پوری تیاری کے ساتھ قدم رکھا جائے تو ابتدا میں تھوڑی بہت کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں! سوال یہ ہے کہ بھرپور کامیابی کیونکر یقینی بنائی جائے اور اُسے دیرپا کیونکر رکھا جائے۔ یہ ہے اصل جھنجھٹ۔ اس طرف کم ہی نوجوانوں کا دھیان جاتا ہے۔ ابتدائی مرحلے کی گھبراہٹ کو کنٹرول کرنا اور اُس سے کامیابی کشید کرنا بھی ہنر ہے۔ کسی بچے کا ذہن اگر آٹھ‘ دس سال کی عمر سے بنانا شروع کیا جائے تو وہ سولہ‘ سترہ برس کا ہونے تک کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے کے حوالے سے اپنے آپ کو پوری طرح تیار پاتا ہے۔ پہلا قدم رکھتے وقت کی گھبراہٹ فطری ہے اس لیے اُسے روکا نہیں جاسکتا مگر ہاں‘ اُسے مثبت ضرور رکھا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات کیریئر کونسلنگ کے وقت جامعیت کے ساتھ سکھائی جانی چاہیے کہ ابتدائی مرحلے کی گھبراہٹ کو حواس پر زیادہ سوار نہیں کرنا ہے۔ یہ گھبراہٹ چونکہ فطری ہے اس لیے اس کی راہ روکنا ممکن نہیں‘ مگر ہاں‘تھوڑی سی کوشش سے اسے ایک خاص حد تک رکھنا ضرور ممکن ہوتا ہے۔
نوجوانوں کے لیے کیریئر کونسلنگ لازم ہے کیونکہ اِسی کے ذریعے اُنہیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ انہیں کس شعبے میں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ اس حوالے سے غور و خوض کی منزل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ آج کل ہر شعبہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ مسابقت بڑھتی جارہی ہے اور اس کی مناسبت سے زیادہ اور بہتر کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ محنت کے بغیر چارہ نہیں۔ ہر دور میں کامیابی محنت ہی سے ملی ہے اور آج تو یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوچکا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں نئی نسل کو کیریئر کی ابتدا کے لیے ڈھنگ سے تیار ہونے میں خاصی مدد کی جاتی ہے۔ اسے سمجھایا جاتا ہے کہ کوئی بھی شعبہ مسابقت سے خالی اور عاری نہیں۔ کسی بھی کام میں ایسی آسانیاں نہیں کہ بیٹھے بٹھائے بہت کچھ مل جائے۔ ہر شعبہ غیر معمولی مشقت کا طالب ہے۔ جب کیریئر کونسلنگ ڈھنگ سے کی جاتی ہے تب نئی نسل کچھ کرنے کے قابل ہو پاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے اب تک زیادہ نہیں سوچا گیا۔ کیریئر کونسلنگ کا کلچر پوری دنیا میں ہے۔ چند پسماندہ معاشروں نے اس طرف متوجہ ہونے کی زحمت اب تک گوارا نہیں کی۔ بدقسمتی سے ہم بھی اِنہی میں شامل ہیں۔
عنفوانِ شباب کا زمانہ عجیب ہوتا ہے اور دل و دماغ کی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ ایسے میں نئی نسل کو غیر معمولی مشاورت اور معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی نسل میں جوش و خروش کی کمی نہیں ہوتی مگر دانش وہ کہاں سے لائے؟ یہ تو تجربے کا معاملہ ہے۔ جو اپنی زندگیاں گزار چکے ہیں وہی بتاسکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ نئی نسل کو اس بات کے لیے بھی آمادہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ عملی زندگی کی بہتر ابتدا کے لیے بڑوں کی بات سنے، اُن کے مشوروں پر غور اور عمل کرے۔ فی زمانہ نئی نسل اپنی ہی دنیا میں رہتی ہے اور بڑوں سے زیادہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ عملی زندگی کی ابتدا اچھی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے پہلے سے تیاری کرنا پڑتی ہے۔ نئی نسل کو بتایا جانا چاہیے کہ ابتدائی مرحلے کی گھبراہٹ پر قابو پاکر ہی وہ کچھ کرسکتی ہے۔ ذہن نشین کرایا جانا چاہیے کہ آج کے تمام کامیاب افراد کبھی مبتدی تھے۔ ابتدا میں گھبراہٹ اُن پر بھی طاری ہوئی ہوگی۔ ہر انسان کو مبتدی تو ہونا ہی پڑتا ہے مگر اِس مرحلے کے لیے پہلے سے کی جانی والی تیاری بہت سی مشکلات سے بچا لیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved