پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پی ٹی آئی کے غیر مقبول فیصلوں اور مہنگائی کو تحریک عدم اعتماد کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا تھا کیونکہ عوام مہنگائی سے تنگ تھے؛ تاہم آج اتحادی حکومت بھی تحریک انصاف کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی تھی‘ آج اتحادی حکومت کیلئے یہ چیلنج کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی تو معاشی تباہی میں اضافہ ہو گیا‘ اتحادی حکومت نے بھی اس غلطی کو دہرایا ہے۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے بغیر ملک کو چلانے کے دعوے کیے تو روپے کے مقابلے میں ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اب نقصان کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہے۔جو نقصان ہو چکا اس کی تلافی ممکن نہیں ہے‘ کیونکہ ایک دن میں ملکی قرضوں میں چار ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور ڈالر پر عائد کیپ (فکس ریٹ) ختم کیے جانے کا تعلق آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنے ہی سے ہے۔ ان اقدامات کے بعد آج آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آ رہا ہے۔ منی بجٹ میں دو سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جانے کا امکان ہے جس سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ روپے کی قدر میں کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ایسے اقدامات ہیں جن سے ہر فرد اور شعبۂ زندگی متاثر ہوتا ہے‘اس کے نتیجے میں ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس سے لوئر مڈل کلاس اور غریب افراد کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے بظاہر کڑی شرائط پوری کر دی ہیں جس کے بعد ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے اجرا کا ابتدائی مرحلہ طے ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قسط کے اجرا کے بعد دوست ممالک سے بھی قرض کا حصول آسان ہو جائے گا۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے ملنے والا قرض ہمارے لیے آکسیجن کا کام کرے گا لیکن یہ قرض ہمیں مسائل کی دلدل یا خسارے سے مکمل طور پر باہر نہیں نکال سکے گاکیونکہ 2023ء کے اختتام تک عالمی کساد بازاری اور پاکستان کیلئے مشکلات کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اگر اس میں صداقت ہے تو پھر بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف کیسے فراہم کرے گی؟
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اس جواز کے تحت عہدے سے ہٹایا گیا تھا کہ ان سے معیشت نہیں سنبھل رہی تھی‘ ان کی جگہ پر اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا گیا کیونکہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ معاشی معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں؛چنانچہ انہیں چوتھی بار ملک کا وزیر خزانہ بننے کا اعزاز دیا گیا۔ توقع تھی کہ وہ معاشی معاملات کو درست سمت لانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر انہوں نے روایتی انداز سے معیشت کو ٹھیک کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ کارگر ثابت نہیں ہو سکیں اور بظاہر سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا مؤقف ہی درست معلوم ہونے لگا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے ڈالر کو مارکیٹ میں آزادکرنے‘ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے اور ٹیکس بڑھانے کی معاشی پالیسی پیش کی تھی۔ دکانداروں پر ٹیکس لگا تو انہوں نے احتجاج کیا‘ مجبوراً حکومت نے ٹیکس واپس لے لیا۔ اسحاق ڈار بھی وہی پالیسی اپناتے نظر آتے ہیں‘ مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ایسے حالات میں عام انتخابات کا انعقاد اور اتحادی جماعتوں کیلئے انتخابی مہم چلانا ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہوگا۔
اتحادی حکومت کو وفاق میں اقتدار سنبھالے دس ماہ ہونے کو ہیں‘ اس بنا پر عوام اسی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے وفاق میں ساڑھے تین برس جبکہ خیبرپختونخوا میں نو برس سے زائد حکومت کی ہے‘ جب تک تحریک انصاف کی حکومت تھی تو مختلف حیلوں بہانوں سے وہ خیبرپختونخوا میں عوامی تنقید سے بچتی رہی‘ اب جبکہ حکومت ختم ہو گئی ہے تو حلقے کے عوام اپنے نمائندوں سے سوال کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی وزرا کی موجودہ مالی حیثیت اور اقتدار سے قبل کی مالی حیثیت کا موازانہ کیا جا رہا ہے کیونکہ دورانِ اقتدار جو بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف بدعنوانی کی خبر دیتا تھا‘ حکومتی وسائل اور اثرو رسوخ کے بل بوتے پر اس کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی تھی‘ اب جبکہ حکومت نہیں رہی ہے تو پی ٹی آئی وزرا کے بدعنوانی سے متعلق سکینڈلز سامنے آنے لگے ہیں۔ بلین ٹریز‘ بی آر ٹی‘ مالم جبہ ٹور ازم اینڈ کلچر اتھارٹی میں بدعنوانی پر کھل کر بات ہونی لگی ہے۔ یہ عقدہ بھی اب کھل رہا ہے کہ قرضوں سے حکومت چلانے کی کوشش کی گئی‘ پی ٹی آئی حکومت خیبرپختونخوا میں قرضوں کا ایسا جال بچھا کر گئی ہے جس سے اگلے چند برسوں تک آنے والی ہر حکومت کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت ختم ہونے سے دو تین ماہ قبل سرکاری خزانے کو ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے نام پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں میں بے رحمی سے بانٹا گیا ہے۔ اس حوالے سے علی امین گنڈا پور کی آڈیو کال بھی لیک ہوئی ہے جس میں وہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر اپنے حلقے کیلئے کروڑوں روپے ٹرانسفر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اکتوبر 2022ء میں صوبائی قرضوں کا حجم 877ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا‘ حالانکہ نو برس قبل تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے سے پہلے صوبائی قرضوں کا حجم محض 97 ارب روپے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریک انصاف کے نو برسوں میں 791 ارب روپے سے زائد کے قرضے حاصل کیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے قرض کے حصول کیلئے جو معاہدے کر رکھے ہیں‘ اگر انہیں بھی شامل کیا جائے تو پانچ برس بعد خیبرپختونخوا 966 ارب روپے کا مقروض ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بیرونی امدادی اداروں سے قرض حاصل کیا‘ مگر صوبے میں ترقیاتی کاموں کا سرسری جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی آر ٹی اور سوات موٹروے کے علاوہ کوئی بڑا منصوبہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے ٹورازم کے فروغ اور سیاحت کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن کے جو اعداد و شمار پیش کیے تھے‘ زمینی حقیقت اس کے برخلاف ہے‘ خیبرپختونخوا میں گزشتہ نو برس کے دوران سیاحت کو فروغ ہی نہیں دیا جا سکا تو سیاحت کی مد میں آمدن کیا حاصل ہونا تھی؟ پی ٹی آئی حکومت نے توانائی منصوبوں کیلئے 36ارب روپے حاصل کیے‘ پن بجلی اور 350 چھوٹے ڈیموں کا بھی بڑا چرچا رہا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں توانائی کا بحران شدید ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے بیرونی امدادی اداروں سے قرض کے حصول کیلئے 25 معاہدے کر رکھے ہیں جو صوبائی قرض میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
اتحادی حکومت آئی ایم ایف کی تمام کڑی شرائط تسلیم کر چکی ہے‘ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کی سیاسی قیمت کون چکائے گا؟ کیونکہ تیرہ جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے‘ اگر تیرہ جماعتیں مہنگائی کی سیاسی قیمت چکاتی ہیں تو اگلے انتخابات میں تحریک انصاف ہی عوام کیلئے واحد آپشن ہوگا۔ لیکن کیا تحریک انصاف سے اس کے دورِ اقتدار کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا؟ اتحادی جماعتیں انتخابات میں جانے سے پہلے کوشش کریں گی کہ وہ تحریک انصاف کو معاشی حالات کا ذمہ دار قرار دے کر اپنا دامن بچا لیں‘ مگر کیا عوام اسے قبول کر لیں گے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ماضی کی معاشی پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے اگر بالفرض تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں آئی تو اس کی معاشی پالیسی کیا ہو گی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved