تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     31-01-2023

ڈالر کی اونچی اڑان

پاکستان میں اس وقت روپے کی تنزلی جاری ہے اور ڈالر اونچی اڑان میں مگن ہے۔ پی ڈی ایم حکومت مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور کہا گیا تھا کہ چھ ماہ میں معیشت ٹھیک کردیں گے لیکن یہاں تو کچھ اور ہی ہورہا ہے۔ کوئی وعدہ ایفا نہیں ہوا اور دعوے بھی سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی تھی تو کہا گیا تھا کہ ڈالر نیچے آیا ہے اور روپیہ مستحکم ہوا ہے۔ اس دن کے بعد سے قوم کو کوئی خوشی نصیب نہیں ہوئی اور ایسا اندھیرا چھایا کہ چراغوں میں بھی روشنی نہ رہی۔ اپریل 2022ء کے بعد سے پاکستان بدل کر رہ گیا ہے۔ مہنگائی نے وہ ریکارڈ قائم کیے ہیں کہ شاید ہی گزشتہ 75سالوں میں کسی نے اتنے ریکارڈز بنتے دیکھے ہوں۔ ہم قسمت کے مارے یہ سب کچھ نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ برداشت بھی کررہے ہیں۔ ایک عزت دار شہری اور ٹیکس پیئر تنقید، شکوہ یا ٹویٹ کرنے پر بھی مشکلات میں پھنس جاتا ہے، ایسے میں عوام کی اکثریت چپ رہنے کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ اگلے روز پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ خبر عوام پر بم کی طرح گری ہے۔ ان کی تنخواہیں تو بڑھ نہیں رہیں‘ ایسے میں وہ اپنی قوتِ خرید کو کیسے زیادہ کریں؟ اگر ہم بات کریں ڈالرکی‘ تو جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں‘ ڈالر کا ریٹ 269 روپے بتایا جا رہا ہے۔24 جنوری کو انٹر بینک میں ڈالر 225 روپے پر تھا۔گزشتہ تین کاروباری دنوں میں ڈالر کی قیمت میں 39 روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ یہ اچھا ریکارڈ تھا یا برا‘ اس کا تعین سب اپنے سیاسی نظریات کے حساب سے کریں گے یا اپنی معاشی صورتحال کے حساب سے۔ اگر کوئی پی ڈی ایم سپورٹر ہے‘ تو وہ اس بات کا بھی کوئی نہ کوئی جواز پیش کرے گا۔ بہرکیف‘ یہ اضافہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔
ایسی صورتحال میں بیرونِ ملک جانے والے لوگ ، مریض اور طالبعلم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ وہ رقم جمع کرتے رہتے ہیں کہ ڈالر لیں گے اور یکایک ڈالر ان کی قوتِ خرید سے باہر نکل جاتا ہے۔ ایک اور مشکل جو اس وقت درپیش ہے‘ وہ یہ کہ مارکیٹ میں ڈالر مل ہی نہیں رہا۔ کوئی منی چینجر کہتا ہے کہ سو ڈالر ہی مل سکتے ہیں‘ کوئی کہتا ہے کہ صرف دو سو ڈالر ہیں۔ سفر میں رقم کی حد پانچ ہزار ڈالر ہے، یعنی آپ سفر میں پانچ ہزار ڈالر کیش تک اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں‘ وہ بھی ایک ساتھ کہیں نہیں مل رہے۔ مسافر ٹھوکریں کھا کھا کر یہ رقم جمع کر رہے ہیں۔ سو ڈالر ایک منی چینجر سے‘ پچاس ڈالر ایک منی چینجر سے اکٹھے کرنے میں وقت اور پیسوں کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ بینک ریٹ، اوپن مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر اپنے اپنے حساب سے بک رہا ہے۔ خاص طور پر طالب علم اور ان کے والدین‘ جن کا بجٹ اتنا زیادہ نہیں ہوتا‘ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ عوام کی کوئی شنوائی نہیں۔ آپ سرکاری ریٹ کے حساب سے ڈالر لینے کے خواہش مند ہوں اور مارکیٹ میں آپ کو اضافی ادائیگی کرنا پڑے تو سوچیں جیب پر کتنا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ ایک متوسط آدمی کو کئی ہفتے‘ مہینے لگا کر یہ پیسے جمع کرنا پڑتے ہیں۔ کیا خبر جب یہ پیسے جمع ہوں گے تب ڈالر کا کیا ریٹ ہو گا کیونکہ ڈالر کو تو پَر لگ گئے ہوئے ہیں۔ روپے کی تنزلی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں سے ہر چیز مہنگی ہورہی ہے۔ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت چار ارب ڈالررہ گئے ہیں۔ ایک طرف ڈالر مل نہیں رہا اور اگر مل رہا ہے تو بیچنے والے اپنی مرضی کررہے ہیں اور مجبوری میں لینے والے لُٹ رہے ہیں۔ سونے کی قیمت ہے تو وہ بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوگ اپنی ضروریات کے لیے سونا بیچنا چاہ رہے ہیں لیکن خریدار نہیں ہیں۔ لوگ اپنے پلاٹ بیچنا چاہ رہے ہیں لیکن اس کے بھی خریدار نہیں ہے ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بھی بیٹھ گئی ہے۔ ہر طرف بے یقینی سی بے یقینی ہے، اس عالم میں سرمایہ دار پیسے روک کر بیٹھ گئے ہیں اور متوسط اور غریب طبقے پر بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب کیا کریں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی نئی قسط جاری ہو گی تو دوست ممالک نے بھی جو قرض اور امداد روکی ہوئی ہے‘ وہ بحال ہو جائے گی۔ حکومت نے بیرونی دورے تو بہت کیے، جنیوا میں بھی بلند بانگ دعوے کیے گئے لیکن ابھی تک ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ سب کچھ صرف وعدے وعید اور زبانی جمع خرچ پر چل رہا ہے۔ حکومت اور اوپن مارکیٹ کے ساتھ ایک تیسری قوت‘ جو عمومی حالات میں نظر نہیں آتی‘ بھی مارکیٹ میں موجود ہے اور اپنی من مانی کر رہی ہے۔ وہ ڈالر کو مقرر کردہ ریٹ سے زیادہ پر بیچ رہی ہے اور خریداروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھارہی ہے۔ ایسے میں لوگ حوالہ ہنڈی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے میری ایک جاننے والی کو اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے ڈالر چاہئیں تھے۔ پہلا ریٹ ان کو257 روپے ملا، پھر 258،پھر 262 روپے۔ آئے روز ریٹ بڑھنے سے وہ اپنے روزمرہ بجٹ میں توازن قائم نہ رکھ سکی اور اس کو بیٹی کی تعلیم کے لیے اپنی گاڑی بیچنا پڑگئی۔
دوسری طرف وہ پاکستانی جن کی سیلری ڈالرز میں پاکستان آتی ہے‘کہتے ہیں کہ ہمیں ابھی تک 227 روپے کے حساب پر سیلری مل رہی ہے۔ ویسے اوپن مارکیٹ میں ڈالر274 روپے کا ہو چکا ہے، کیاکوئی ان کے پیسوں کو اپنے کھاتے میں ڈال رہا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ پہلے بھی بہت بار ملک ''نازک دور‘‘ سے گزرا ہے لیکن اس بار تو جیسے ڈالر‘ پٹرول اور سونا عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہی ہوگئے ہیں۔ ان تینوں کے بارے میں اب عوام سوچ بھی نہیں سکتے اور مجبوری میں یہ حاصل کرناپڑیں تو وہ اذیت اٹھانا پڑتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ڈالر کے مہنگا ہونے اور روپے کی قدر کم ہونے کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں، مثلاً امپورٹڈ اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں، برآمدات اور درآمدات کا توازن بگڑ جاتا ہے، مہنگائی کا ایک سیلاب آتا ہے۔ اب رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی خسارہ ہوگا اور قرضوں کا حجم مزید بڑھ جائے گا۔
اس وقت ملک میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ شاید ہم جلد معاشی طور پر دیوالیہ ہوجائیں گے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ حالات اس نہج تک پہنچیں گے۔ ہماری ملکی تاریخ میں کئی بار حالات خراب ہوئے ہیں مگر پھر کوئی ایسا کرشمہ ہو گیا کہ بہتری کے امکانات نکل آئے۔ قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کی بات یاد آتی ہے کہ پاکستان ایک شب دیگ کی طرح پکتا جارہا ہے اور لوگ اس کو کھا رہے ہیں۔ لوگو ں کا ایک گروہ آتا ہے، اس دیگ کو کھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ پھر دوسرا گروہ آتا ہے تو دیگ دوبارہ بھری ہوئی ملتی ہے۔ دیگ پکتی جارہی ہے اور لوگ اس کو کھاتے جارہے ہیں مگر یہ دیگ ختم نہیں ہو رہی۔ اب پھر کوئی کرشمہ ہو گا، کوئی دوست ملک عارضی طور پر ہماری معیشت کو سہارا دے گا، بھاری سود پر قرضے کی قسط جاری ہوجائے گی اورمعاشی گاڑی جیسے تیسے چلنا شروع کر دے گی۔ افسوس کہ ہمارا ملک قرضے اور کشکول کا عادی ہوچکا ہے۔ ایک ایٹمی طاقت کی اشرافیہ کو اپنی عیاشیوں کیلئے پیسہ درکار ہے۔ عوام تو پہلے بھی بدحال تھے‘ اب مزید بدحال ہوں گے۔
اگلے چند ماہ میں 2.7 ارب ڈالر کے قرضوں کی واپسی واجب الادا ہے۔ اس وقت سب سے کڑا امتحان وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ہے کہ وہ کس طرح ان پیسوں کا بندوبست کرتے ہیں اور انٹر بینک‘ اوپن مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ کیسے یکساں بناتے ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ وہ معیشت کو ٹھیک کردیں گے اور ڈالر کو دوسو روپے پر لے آئیں گے‘ دیکھیں اب وہ کیا کرتے ہیں۔ ان کے ناقد اب شوکت ترین کے دور کو یاد کررہے ہیں۔ موجودہ وقت کو مشکل ترین اور اُس دور کو اچھا قرار دے رہے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ ملک بنا وژن اور بغیر قیادت کے ہی چل رہا ہے۔ لوگ مہنگائی سے بدحال ہوگئے ہیں اور حکومت کی آخری امید آئی ایم ایف سے ہے۔ 31 جنوری سے آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آرہی ہے مگر عوام زیادہ خوش فہمی کا شکار مت ہوں کیونکہ ان قرضوں سے ان کی بھلائی کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ ان پیسوں سے غیر ملکی دورے ہوں گے، سیاسی جوڑتوڑ ہوگی، مہنگی گاڑیاں آئیں گی اور سرکاری دفاتر کی تزئین و آرائش ہوگی۔ عوام اور ان کی آنے والی نسلیں قرضوں کے بوجھ تلے پیدا ہوں گی اور مزید بدحال ہوں گی۔ اشرافیہ اور ان کے بچے مغرب میں عیاشی کریں گے۔نئی قسط کے آنے سے مزید مہنگائی ہو گی اور بوجھ صرف عوام پر آئے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved