تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     31-01-2023

بدقسمتی کا کھیل

1857ء کی جنگ آزادی ختم ہوچکی تھی لیکن اِس کی چنگاریاں ابھی تک سلگ رہی تھیں۔ اِس صورت حال پر مکمل قابو پانے کے لیے انگریزوں نے انڈین پینل کوڈ میں دفعہ 124 اے کا اضافہ کیا جس کے تحت ایسے افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاسکتا تھا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا کہ وہ برصغیر پر برطانوی راج کے لیے خطرہ ہیں۔ مسلمانوں کو تو جنگ آزادی کے فوراً بعد ہی سخت سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا لیکن دفعہ 124 اے متعارف کرائے جانے کے بعد انگریز حکومت کے ہاتھ مستقل بنیادوں پر ایک ہتھیار آگیا تھا۔ اِس کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان‘ خصوصاً مسلم علمائے کرام بنے؛ البتہ اسے ہندوؤ ں کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ اِسی قانون کے تحت فتویٰ موالات کے نتیجے میں مولانا حسین احمد مدنی سمیت آٹھ افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا۔ اِس مقدمے میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف کچلو، پیرغلام مجددی، مولانا نثار احمد اور شنکر آچاریہ سمیت متعدد دیگر شخصیات کو نامزد کیا گیا۔ 1921ء میں چلنے والا یہ مقدمہ کراچی کے مقدمے کے نام سے مشہور ہوا۔ 1922ء میں اِسی قانون کے تحت موہن داس گاندھی کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوا جس دوران گاندھی جی کی طرف سے دفعہ 124 کو کسی ایسے جاگیردار کی مانند قرار دیا گیا جس کا مقصد ہرصورت کسی بھی مخالفانہ آواز کو دبانا ہوتا ہے۔ گویا انگریز حکومت نے اِس قانون کے تحت اپنے ہر مخالف پر مقدمات درج کیے، اُنہیں سزائیں سنائیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ مقصد صرف ایک ہی تھا کہ اپنے اقتدار کے خلاف اُٹھنے والی ہرآواز کو سختی سے دبا دیا جائے۔ اس دور میں اِس قانون کے متعارف کرانے اور اِسے استعمال کرنے کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ بیرونی آقا سخت قوانین کا سہارا لے کر ہی اپنے اقتدار کو طوالت بخش سکتے تھے اور وہ یہی کچھ کرتے رہے۔ آزادی کے بعد یہ قانون بھارت اور پاکستان‘ دونوں ممالک کو وراثت میں مل گیا۔ دونوں ممالک کی درجنوں حکومتوں نے کسی ایک موقع پر بھی اِس قانون کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اِس قانون کا استعمال کرتے ہوئے اپنے بے شمار مخالفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیلا گیا۔
ڈیڑھ سوسال گزرجانے کے بعد بھی سرحد کے دونوں طرف کی حکومتیں اِس قانون کا بے رحمانہ استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان کی بات بعد میں کرتے ہیں‘ پہلے بھارت کے حالات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ بھارت میں جمہوریت ابتدائی ایام میں ہی مستحکم ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن پھر بھی حکومتوں نے دفعہ 124 اے کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ بی جے پی کی حکومت نے اِس قانون کو زیادہ بے رحمانہ طریقے سے استعمال کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں 2012ء سے 2022ء تک کی دہائی میں کم از کم 13 ہزار سے زائد افراد کو اِس قانون کے تحت بغاوت کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ اِس قانون پر بھارت کی اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مخالفانہ ریمارکس بھی سامنے آتے رہے ہیں جن میں اِس قانون کے خاتمے کی بات کی گئی۔ عوامی سطح پر بھی دفعہ 124 اے کے خلاف متعدد بار مظاہرے ہوچکے ہیں لیکن مجال ہے کہ مودی حکومت نے اِس حوالے سے کوئی قدم اُٹھایا ہو۔ اتنا ضرور ہوا کہ عوامی دباؤ بڑھنے پر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے حال ہی میں اِس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اِس قانون کے خاتمے پر غور کیاجائے گا۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرحد کے اُس پار اس قانون کے خاتمے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں، ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد اِس قانون کے خاتمے کا وقت بھی آجائے لیکن سرحد کے اِس پاریہ قانون ابھی مزید کچھ عرصے تک چلتا نظر آ رہا ہے۔
ملکی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ قانون ہرحکومت کے ہاتھ میں ایک مہلک ہتھیار کی مانند ہے۔ اِس کے تحت کسی پر بھی بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے جس کے بعد وہ شخص طویل عرصے تک تاریخیں ہی بھگتتا رہے گا۔ آج اگر یہ قانون تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کے خلاف استعمال ہوا ہے تو تحریک انصاف کے دور میں یہی قانون مختلف سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو چکا ہے۔ اکتوبر 2020ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف اِسی قانون سمیت متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔ لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں درج ہونے والے ایک مقدمے میں مجموعی طور پر 12 دفعات شامل کی گئی تھیں، جن میں 124 اے بھی شامل تھی۔
اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے مقدمہ درج ہونے پر ایک بیان دیا تھا جس میں کہا گیا تھا ''نواز شریف جو کھیل کھیل رہے ہیں، وہ بہت خطرناک ہے، یہی کچھ قائدِ متحدہ نے کیا تھا‘ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اُن کے پیچھے بھارت ہے اور وہ اُن کی پوری مدد کررہا ہے، پاکستان کی فوج کو کمزور کرنے میں دلچسپی ہمارے دشمنوں کی ہے‘‘ ۔ اِس بیان میں عمران خان کی طرف سے واضح طو رپر یہ قرار دیا گیا کہ نواز شریف بھارت کے ایما پر اس طرح کی بیان بازی کر رہے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والا شخص بھی وقت پڑنے پر غدار قرار دیا جاسکتا ہے۔ بعد میں اِس مقدمے کا انجام وہی ہوا جو سیاسی بنیادوں پر درج کیے جانے والے مقدمات کا ہوتا ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ بیشتر صورتوں میں ایسے مقدمات کے مدعی وہ افراد ہوتے ہیں جن کا براہ راست اِن معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں وہ کہاں سے ٹپک پڑتے ہیں اور اُن کے درخواست دیتے ہی فوری طور پر مقدمہ درج بھی ہوجاتا ہے۔ کیا اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہوسکتی ہے کہ سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج کرائے جانے کی روش نے ہمارے پورے سسٹم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جس پر چاہو بغاوت کا مقدمہ درج کرا دو‘ جسے چاہو غدار قرار دے دو‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غدار‘ غدار کے اِسی کھیل نے پوری دنیا میں آج ہمیں تماشا بنا کررکھ دیا ہے۔ جس نے کوئی مخالفانہ بات کردی‘ اسے دہشت گرد بنا دیا۔ حد ہوتی ہے ہربات کی! لیکن ہمارا معاملہ کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ جیسے ہم تمام حدیں پار کرچکے ہوں۔یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ہمارے ہاں غدار اور دہشت گرد ہمیشہ مخالف سیاستدان ہی قرار پاتے ہیں۔
بہر کیف‘ دفعہ 124 اے کا تازہ ترین شکار فواد چودھری بنے ہیں‘ جن کے بارے میں وزیرداخلہ صاحب نے فرمایا ہے کہ فواد چودھری کے خلاف مقدمہ درست بنیادوں پر درج ہوا ہے۔ چلیں مان لیا کہ فواد چودھری نے ایک آئینی ادارے کے خلاف کچھ بیانات دیے‘ لیکن اِن میں بغاوت کہاں سے آگئی؟ ایسے ہی بیانات گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر داخلہ سمیت موجودہ حکومت کے کئی اراکین بھی دے چکے ہیں۔ جب موجودہ وزیر داخلہ کے خلاف منشیات برآمدگی کا مقدمہ درج ہوا تھا‘ تب رانا صاحب بے گناہی کا رونا رویا کرتے تھے اور تحریک انصاف والے اِس پر بغلیں بجایا کرتے تھے۔ آج فواد چودھری بغاوت کے مرتکب ٹھہرائے گئے ہیں تو رانا صاحب اِس پر اطمینان کا اظہا ر کررہے ہیں۔ مطلب ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی آزادیٔ اظہار کے قانون میں۔ ملک میں آج بھی ڈیڑھ سو سال پرانے قانون کے تحت بیان بازی پر کسی کو بھی دہشت گرد اور باغی قرار دے دیا جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ صورتحال میں کسی نمایاں تبدیلی کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ جو اس قانون کے پھندے میں پھنسے گا‘ وہ اِسی طرح چیخ وپکار کرتا رہے گا اور پھنسانے والے قہقہے لگاتے رہیں گے۔ پھر وقت کی میز پلٹا کھائے گی تو کردار بدل جائیں گے‘ باقی سب کچھ ویسے کا ویسا رہے گا۔ اِس دوران یہ رَٹ بھی مستقل بنیادوں پر جاری رہے گی کہ ہم آزادیٔ اظہارِ رائے پر مکمل یقین رکھتے ہیں‘ ہر کسی کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی پوری آزادی ہے، وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سب کچھ بھی بیانات کی حد تک ہی رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی نظروں میں شاید سبھی بے اعتبارے ہوچکے ہیں۔ عوام نے سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دی ہے۔ اس سیاسی کھیل میں ملک بدحال ہو چکا ہے۔ ایک ایک ڈالر کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھائی جارہی ہیں لیکن بغاوت‘ بغاوت کا یہ بدقسمت کھیل بھی پورے جوش وخروش سے جاری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved