اور تو کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا‘ قومی سوچ کچھ بدل رہی ہے۔اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب ہرکوئی مہنگائی کے بارے میں رورہا ہے نظریے کی بات سننے کو نہیں مل رہی۔یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ نظریے کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔مہنگائی کی مار ایسی پڑ رہی ہے کہ فضول نعرے بازی‘ جس کے بطورِ قوم ہم ماہر ہیں‘ یکسر بند ہو گئی ہے۔ کوئی نہیں کہہ رہا کہ پاکستان فلاں نظریے کا قلعہ ہے۔صرف اسحاق ڈارکو یہ بات سوجھی کہ اس ملک کو اللہ نے بنایا تھا اور اس ملک کی ترقی و خوشحالی وہیں سے ہوگی۔کچھ پہلے کے وقتوں میں ایسے بیان پر شاید ایک زوردار قہقہہ اٹھتا لیکن معاشی حالات کی وجہ سے قوم اتنی بدحال ہو رہی ہے کہ جنابِ ڈار کے اس بیان کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔فضول کی گفتگو بھرے پیٹوں کی جاتی ہے۔ آسودگی ہو‘ ڈالر آ رہے ہوں‘ پاکستان کی چوکیداری افغانستان میں یا کہیں اور لگی ہو‘ امریکہ کی طرف سے مہربانی ہو رہی ہو‘ تب ایسی باتوں کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ پاکستان کی پسندیدہ کیفیت فرنٹ لائن سٹیٹ کی رہی ہے۔ یہ کہنا کہ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا‘ سراسرغلط ہے۔ بھلے وقتوں میں ہم دہائی دیتے تھے کہ ہمیں استعمال کیا جائے اور جب کسی بیرونی کام پر لگتے توشاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے۔ہماری کارکردگی Above and beyond the call of duty ہوتی۔امریکی امداد آ رہی ہوتی تو ہم نظریات کا نعرہ بلند کرتے۔امریکی مسکرا کر ہماری طرف دیکھتے۔سب سے بڑے نظریات کے علمبردار جنرل ضیا الحق تھے۔افغانستان میں امریکیوں کا کام ہو رہا تھا‘ ہم بخوشی استعمال ہو رہے تھے اور معاشی لحاظ سے ملک کے حالات ٹھیک تھے۔امریکی امداد سے ہم نے بنایا کچھ نہیں لیکن خرچہ توچل رہا تھا۔یہ بھی ہے کہ جسے افغان جہاد کا نام دیا گیا‘ کئی تھے جن کے ہاتھ رنگے گئے۔
آج کیفیت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ایک چھوٹی سی قسط کو قوم ترس رہی ہے۔ تابعداری دکھا رہے ہیں‘ ناک رگڑ رہے ہیں اور مزید رگڑنے کو تیار ہیں۔برادر اسلامی ملک یو اے ای کے صدر شکار کیلئے پاکستان آئے جیسا کہ وہ ہرسردیوں میں کرتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے رحیم یارخان میں اُن کا استقبال کیا اور طے یہ ہوا تھا کہ ہِز ہائی نیس اسلام آبادکا سرکاری دورہ کریں گے۔استقبال کیلئے اسلام آباد کو تیار گیا‘ بینروغیرہ لگائے گئے‘ ایک دن کی چھٹی کا اعلان بھی کر دیا گیا۔پھر اچانک ایک بیان آیا کہ خراب موسم کی وجہ سے ہِزہائی نیس کا اسلام آباد کا دورہ مؤخرکردیا گیا ہے۔اسلام آباد کے آسمان صاف ہیں‘ خراب ہونے کے بجائے موسم خاصاخوشگوار ہے۔لیکن جب حالات خراب ہوں تو خوشگوار موسم بھی خراب ہو جاتا ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ گلف کے حکمران خاص طور پر ابوظہبی کے حاکم شیخ زید النہیان اکثرپاکستان آیا کرتے تھے۔لاہور میں قیام ہوتا تھا‘ پی سی ہوٹل کو تب انٹرکانٹی نینٹل کہتے تھے‘ وہاں رہائش ہوتی۔ترقی کے لحاظ سے گلف کی امارات بہت پیچھے ہوا کرتی تھیں۔یہ تو 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے راتوں رات تیل کی قیمتیں بڑھیں اور سعودی عرب اور گلف امارات کے خزانوں میں دولت کا ایک سیلاب امڈآیا۔روایت ہے کہ صدر ایوب خان کے زمانے میں شیخ النہیان راولپنڈی ایئرپورٹ پر آ رہے تھے توآغا حسن عابدی مرحوم نے حکومت سے منت سماجت کی کہ شیخ النہیان کا استقبال مناسب انداز میں کیا جائے۔ کمال مہربانی سے فیصلہ ہوا کہ کمشنر راولپنڈی‘ جوکہ سید دربارعلی شاہ تھے‘ معزز مہمان کا استقبال کریں گے۔کہا جاتا ہے کہ آغا حسن عابدی نے بازار سے لال کپڑے کا ایک تھان خریدا جو کہ ہوائی جہاز کی سیڑھیوں کے سامنے کھولا گیا۔وہ وقت بھی تھااورآج کا وقت بھی ہے۔کوڑیوں کیلئے مارے مارے پھررہے ہیں۔
ایٹمی قابلیت ہے‘ ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے اور دنیا کہتی ہے کہ یہ ذخیرہ بڑھ رہا ہے مگر ان صلاحیتوں کے باوجود مسائل ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے۔ہماری نظروں میں دشمن بھارت تھااور بھارت کی ایٹمی صلاحیت کو کاؤنٹر بیلنس کرنے کیلئے ہم نے ایٹمی پروگرام مرتب کیا۔ اب معلوم ہوا کہ اصل دشمن تو ہماری اپنی معاشی اور دیگر کمزوریاں ہیں۔ان کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے ہمارے پاس کون سا ہتھیار ہے؟ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اس کے بارے میں بھی ایک ذہنی تبدیلی آ رہی ہے۔جب وزیراعظم پاکستان ایک اخباری انٹرویو میں یہاں تک فرما دیں کہ ہم بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور بھارت کے حوالے سے ہم نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے اس سے بڑی تبدیلی کیا ہوسکتی ہے؟ یعنی ایک پچھتر سالہ سوچ جوکہ قومی پالیسیوں کی بنیاد رہی وہ اس معاشی بحران کی وجہ سے یکسرتبدیل ہوتی جا رہی ہے۔
مبصرین نے نوٹ کیا ہوگاکہ بھار ت کے بارے میں کوئی بیان بازی نہیں ہو رہی۔ کشمیر کا مسئلہ کہیں پیچھے جا پہنچا ہے اور نریندرمودی بھی ہمارے اعصاب پر کوئی اتنا زیادہ سوار نہیں۔یہ حقیقت پسندی ہے لیکن یہ سبق کبھی پہلے نہ سیکھ سکے۔مہنگائی‘ گرتے زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کی اُڑان‘ ان اسباب کی وجہ سے پاکستان کی قومی سوچ حقیقت پسندی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ یعنی خود سے عقل نہیں آئی بہ امرِمجبوری آ رہی ہے۔رونا صرف اتنا ہے کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔ جب سب کچھ ہاتھ سے چلا گیا‘ بیچارگی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں تواس عقل کا کیا فائدہ۔ پہلے سالوں میں قومی سوچ پختہ ہوتی تو ریاست کی غلط ترجیحات نہ بنتیں۔ جنگی ساز و سامان کی جس دوڑ میں ہم پڑ گئے اُس سے شاید اجتناب ہو جاتا۔ امریکہ کی گود میں اتنی تندہی سے نہ لپکتے۔ سردجنگ میں ایک فریق کے فرنٹ لائن سٹیٹ نہ بنتے۔ بڈھ بیرکو امریکہ کے حوالے نہ کرتے۔ افغانستان میں شورش برپا ہوئی تو اُس سے دور رہتے۔جنہیں مجاہدین کا رتبہ اور لقب دیا گیا اُن کو کاندھوں پر نہ چڑھاتے۔ نظریات کے نام پر قومی تعلیمی نظام کا ستیاناس نہ ہونے دیتے۔ بطورِ قوم عقل کے تقاضوں کے اتنے دشمن نہ ہوتے۔ جیسے کوئی جواری جوئے کی میز پر سب کچھ ہار جائے اور پھرراہِ اصلاح و نجات پر چلنے کا تہیہ کرے‘ ہماری وہ حالت ہے۔
چلیں‘ دیر آید درست آید۔نظریات کا بخار اُترے تو شاید چیزیں صاف نظرآنے لگیں۔گو دھڑکا رہے گا کہ خیالات کے اعتبار سے ہم ناقابلِ اصلاح ہو چکے ہیں۔جو آتا ہے کام ہوتا نہیں‘ وعظ و نصیحت پر لگ جاتا ہے۔ بہرحال اگر حالات کی مجبوری ہمیں ذہنی اصلاح کی راہ پر لے آتی ہے تو ایک دو اور کام بھی ہیں جو ہوجائیں تو اچھا ہوگا۔جنرل ضیا الحق کو گئے تین سے زیادہ دہائیاں ہو چکی ہیں لیکن کئی اعتبار سے اُن کا ورثہ باقی ہے۔ کوئی تو ہو جس میں اس ورثے کو ختم کرنے کی ہمت ہو۔ایک پاکستان تھا 1977ء سے پہلے کا۔ مثالی معاشرہ نہ تھا لیکن آج کی نسبت بہت اچھا تھا۔ وہ پاکستان تو واپس نہیں آسکتا لیکن اُس کی چند چیدہ چیدہ خصوصیات واپس لائی جاسکتی ہیں‘ بشرطیکہ حکمرانوں میں کچھ جرأت ہو۔افسوس تو اس امر پر ہے کہ عمران خان آئے وہ بھی تسبیح لہراتے رہے‘ جو اور تھے اُن کا مشن ہی کچھ اور تھاکہ اپنی جیبیں بھریں۔معاشرے کے مستقبل سے اُنہیں کوئی سروکار نہ تھااور نہ ہے۔اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں‘یہ حقیقت ہے۔اور ہمارے نصیب یہ کہ ہمیں ایسے ہی لوگ ملے۔آج اس نکتے پر ہمارے معاشی ماہرین پہنچ رہے ہیں کہ بھارت سے کھلی تجارت ہونی چاہئے۔ درست لیکن اب تک آنکھوں پر پٹیاں کیوں بندھی ہوئی تھیں؟ متحارب ممالک تجارت بند نہیں کرتے۔ امریکہ اور چین نے کبھی تجارت بند کرنے کا سوچا ہے؟ لیکن یہی سمجھا جائے کہ ہم کوئی الگ مخلوق ہی تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved