ستیش کے لیے یہ احساس ہی جان لیوا تھا کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے سماعت سے محروم ہو گیاہے۔ اب وہ کبھی ماں باپ اور بہن بھائیوں کی آوازیں نہیں سن سکے گا۔ درختوں پر اُڑتے پرندوں‘ دریائے جہلم کی لہروں اور پوٹھوہار کی سنسناتی آندھیوں کی آوازیں اس کے لیے اجنبی ہو جائیں گی۔ ماں نے ننھے ستیش کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔پہلے جب بھی وہ ماں کے سینے کے ساتھ لگتا تو اسے ماں کے دل کی دھک دھک سنائی دیتی تھی لیکن آج اسے یوں لگا ماں کا دل دھڑکنا بھول گیا ہے۔ اسے ماں کے دل کی دھک دھک کیوں سنائی نہیں دے رہی۔ ماں کو یقین ہو گیا کہ یہ حکیم کے نسخے کی کارستانی تھی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ ستیش کو شہر کے ڈاکٹروں کے پاس لایا گیا‘اس کی ٹانگ کے کئی آپریشن ہوئے‘ ٹانگ تو بچ گئی لیکن ستیش ہمیشہ کے لیے سماعت سے محروم ہو گیا تھا۔ ستیش کے والد اوتار نارائن نے اسے بتایا کہ یہ زندگی کا اختتام نہیں۔ ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو کئی در کھل جاتے ہیں۔
سماعت کی حس سے محروم ہونے سے پہلے ستیش نے سکول میں گورمکھی اور اردو سیکھی تھی‘ وہ یہ زبابیں لکھ او رپڑھ سکتا تھا۔ بارہ سال کی عمر میں وہ غالبؔ اور فیضؔ کی شاعری سے واقف ہو گیا تھا۔ بہت بعد میں جب اس نے انگریزی زبان میں اپنی خود نوشت Brush with Life لکھی تو اس کا آغاز فیضؔ صاحب کے اس شعر سے کیا:
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
ستیش کے والد اوتار نارائن کی خواہش تھی کہ ستیش کی معذوری اس کی زندگی بھر کی مجبوری نہ بن جائے۔ عام سکولوں میں سماعت سے محروم بچے کی تعلیم مشکل تھی۔ اسے دہلی ایک بورڈنگ سکول میں داخل کرایا گیا‘لیکن یہ سکول سے زیادہ ایک قید خانہ تھا جس میں ستیش کا دم گھٹنے لگا اور پھرکچھ ہی دنوں بعد اس کے والد اسے جہلم اپنے گھر لے آئے۔اب کیا کیا جائے؟ کیا ستیش اب کبھی سکول نہیں جا سکے گا؟ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ ایک دن انہیں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ہوا یوں کہ ایک روز انہوں نے دیکھا کہ ستیش کاغذ پر درخت پر بیٹھے ہوئے ایک پرندے کی تصور بنا رہا ہے۔ اوتار نارائن نے اپنے بیٹے کے اندر چھپا ہوا مصور پہچان لیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ستیش کو مصوری کی تعلیم دلائی جائے۔ ان دنوں لاہور میں مصوری کا ایک ہی معروف ادارہ تھا جس کا نام میو سکول آف آرٹس تھا۔ اوتار نارائن نے ستیش کا مصوری کے اس معیاری ادارے میں داخل کرا دیا۔ یہیں پر ستیش کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملی۔ ستیش نے مصوری اور مجسمہ سازی میں اپنے فن کا اظہار دیکھا۔ اس کی زندگی ایک قلزمِ خاموش کی مانند تھی جس میں ستیش بہتا جا رہا تھا۔ اس خاموشی سے اس نے دوستی کر لی۔ اسی خاموشی کے بطن سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی کونپلیں پھوٹیں اور اس نے ایک اور دنیا کو دریافت کر لیا‘ یہ آرٹ کی دنیا تھی جس میں ہرچیز کو دوام حاصل ہے۔ ایسا ہی گوشۂ عافیت انگریزی کے معروف رومانوی شاعر کیٹس (Keats) نے آرٹ کی دنیا میں دیکھا تھا جس کا خوب صورت اظہار اس نے اپنی نظم Ode on a Grecian Urnمیں کیا ہے۔ آرٹ کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب ستیش کی اگلی منزل بمبئی تھا جہاں 1944ء میں اس نے یہاں کے J. J. School of Art میں داخلہ لے لیا۔ بمبئی آ کر بھی اس نے اردو کا مطالعہ جاری رکھا اور اردو میں لکھی ہوئی کہانیاں‘ ناول اور شاعری کا مطالعہ کیا۔یوں ادب کا مطالعہ اس کی خاموش زندگی میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیرتا تھا۔بمبئی کے سکول آف آرٹ نے اس کے فنی سفر کو مہمیز لگائی۔ اس کالج میں اس کے کچھ ہم جماعت بعد میں آرٹ کی دنیا کے اہم نام بنے۔
کوئی زبان بولنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس زبان کو آپ نے سنا ہو۔ بچہ پہلے گھروالوں کی زبان سنتا ہے اور یہ Input بعد میں Output بن کر اس کی گفتگو بنتی ہے۔سماعت کھونے سے پیشتر ستیش صرف پنجابی اور اردو زبان سے واقف تھا اس لیے جب وہ بمبئی میں آیا تو انگریزی اس کے لیے مکمل اجنبی زبان تھی۔ادھر ستیش بمبئی کےJ. J. School of Art میں فن کے نئے دریچے کھول رہا تھا اور دوسری طرف ہندوستان میں فرنگیوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد زور پکڑ رہی تھی اور پھر 1947ء کا سال آگیا جب انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے اور اس کی تقسیم کا فیصلہ کر لیا۔ ستیش کا گھرانہ جہلم میں آباد تھا۔ والد اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے‘ ان کا خیال تھا کہ یہ وقتی بے چینی ہے‘ حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ جہلم کے اپنے گھر میں رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اوتار نارائن خاندان 1947ء میں پاکستان میں ہی رہا‘لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہیں اندازہ ہوا کہ اب جہلم چھوڑ کر ہندوستان جانا ناگزیر ہو گیا ہے۔1947ء میں ہجرت کا تجربہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے لیے زندگی کا ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔ فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے‘ بہت سے خاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ ستیش ایک آرٹسٹ تھا اس نے اپنی آنکھوں سے ہجرت کے خوں رنگ مناظر دیکھے تھے۔ اس نے لوگوں کا کرب اپنے رنگوں میں سمو دیا اور ان رنگوں سے وہ تصویریں بنائیں جس میں اس کا اپنا درد اور لوگوں کا دکھ رل مل گئے تھے۔ ستیش نے پارٹیشن کے حوالے سے تصویروں کی ایک سیریز بنائی۔ پارٹیشن کے حوالے سے بنائی گئی یہ تصویریں بطورِ مصور ستیش کا پہلا تعارف تھا۔کہتے ہیں اچھے ادب کی طرح معیاری مصوری بھی وہ ہوتی ہے جس میں دیکھنے والوں کو اپنا عکس نظر آئے۔ یہ محض تصویر یں نہیں تھیں‘ تقسیم کے سارے تجربے ان میں مجسم ہو گئے تھے۔ لوگوں کو تصویریں دیکھ کر یوں لگا جیسے ان کے زخموں کو زبان مل گئی ہے۔
اب ستیش کی تخلیقی صلاحیتوں کا برملااعتراف ہونے لگا تھا۔ تب اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا جب 1952ء میں اسے میکسیکو جانے کے لیے سکالرشپ ملا۔ اس روز اس کی مسرت دیدنی تھی لیکن پھر ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ وہ تو سُن ہی نہیں سکتا‘ میکسیکو میں اکیلے کیسے زندگی بسر ہو گی۔ دوسری طرف اس کی فنی زندگی کے لیے یہ ایک نادر موقع تھا جس میں اسے معروف مصوروںDiego Riveraاور David Alfaroکے ساتھ آپرینٹس شپ کا موقع مل رہا تھا۔ سمندری جہاز کا سفر یادگار تھا‘ یہاں کئی لوگوں سے ستیش کی ملاقات ہوئی‘ ان میں آسڑیلیا کی خوبصورت اور نوجوان لڑکی بھشکا بھی شامل تھی۔ وہ ستیش کے خاندان کی آزادی کی جدوجہد سے کافی متاثر تھی۔ ساوتھمپٹن میں ستیش کا چچازاد بھائی ہربنس اس کے استقبال کے لیے موجود تھا‘ وہ ستیش کو اپنے ہمراہ لندن لے گیا۔ اگلی صبح وہ ٹامس کک ٹریول آفس پہنچے تو معلوم ہوا نیوپارک جانے والے بحری جہاز کے مسافروں میں اس کا نام ویٹنگ لسٹ پر ہے‘ اسے بتایا گیا کہ ایک ماہ تک اس کی باری آئے گی۔ ہوائی جہاز پر بھی ایک ہفتے سے پہلے سیٹ نہ مل سکی۔ ٹامس کک ٹریول آفس سے نکل کر ستیش اور ہربنس انڈر گراؤنڈ ٹرین میں آبیٹھے جسے برطانیہ میں ٹیوب کہتے ہیں۔یہ ستیش کے لیے ایک عجوبہ چیز تھی۔اسے یوں لگا وہ کسی طلسم کدہ میں آگیا ہے۔ ایک سٹیشن پر ٹیوب سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ میں اس کا کزن ہربنس اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اب لندن کے ٹیوب سٹیشن پر ستیش تنہا کھڑا تھا۔ اس کے پاس جتنے پیسے تھے سب جہاز کا ٹکٹ خریدنے میں صرف ہو گئے تھے اس کے پاس ہربنس کا پتا موجود نہ تھا۔ وہ وہیں کھڑا ہو کرہربنس کا انتظار کرنے لگا ایک گھنٹہ گزر گیا‘ پھر دو گھنٹے گزر گئے لیکن ہربنس کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ اجنبی دیس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کا دل بھی ڈوبتا جا رہا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved