تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-02-2023

تین بیانیوں کی وفات حسرتِ آیات … (1)

اگر کسی کو آنکھیں اور دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی توفیق ہی نہ ہو تو اور بات ہے مگر جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت بخشی ہوئی ہے اور وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں اور دماغ کی کھڑکیاں کھول کر عقل کو ہوا لگاتے ہیں تو ان کو بہت سی چیزیں دکھائی بھی دیتی ہیں اور بہت سی باتیں سمجھ بھی آتی ہیں۔ تاریخ وغیرہ تو اب یاد نہیں لیکن تقریباً ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے‘ میرے ایک ایسے کالم پر جس میں مَیں نے عمران خان کے طرزِ حکمرانی‘ ماضی کے وعدوں اور حال کی حقیقت کے علاوہ پنجاب پر عثمان بزدار کو مسلط کرنے پر بطور قلمکار اپنا فرض ادا کرتے ہوئے تنقید کی تھی۔ اس روز علی الصبح مجھے نواز شریف کے ایک نہایت اعلیٰ پائے کے چاپلوس صحافی کا بظاہر بہت محبت بھرا فون آیا اور انہوں نے میرے اس کالم کی تعریف کرتے ہوئے پہلے تو مجھے بانس پر چڑھانے کی کوشش کی اور پھر آخر میں اپنا دلی بغض نکالتے ہوئے فرمانے لگے کہ آخر آپ کو عقل آ گئی اور آپ نے تبدیلی کے دعویدار کی حقیقت جان ہی لی۔ میں نے نہایت ہی اطمینان اور سکون سے ان کی بات سنی اور عرض کیا کہ یہ توفیق اللہ کے کرم کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس نے اس عاجز پر سوچنے اور سمجھنے کے دروازے کھلے رکھے ہیں اور اپنی غلطیوں سے رجوع کرنے کی توفیق عطا کر رکھی ہے۔ یہ اس مہربان ذات کا اس معمولی سے قلمکار پر اپنا خاص کرم ہے کہ اس نے اس فقیر کو زیادہ دیر دشتِ گمراہی میں بھٹکنے نہیں دیا اور صراطِ مستقیم سے زیادہ دیر دور نہیں رکھا؛ تاہم میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقلِ سلیم عطا کرے اور انہیں سیاسی لیڈروں کی ذہنی غلامی سے نجات عطا فرمائے جو گزشتہ عشروں سے چوروں‘ ڈاکوؤں اور ملکی دولت لوٹ کر دیارِ غیر میں جائیدادیں خریدنے والوں کی چمچہ گیری اور چاپلوسی میں مصروف ہیں۔ میری دعا ہے کہ جس طرح اس رحمان اور رحیم نے مجھ پر اپنا کرم فرمایا ہے‘ وہ ذاتِ مہربان مسلسل گمراہی اور چھوٹے چھوٹے دنیاوی فائدوں کی خاطر اس ملک کو لوٹنے والوں کی کاسہ لیسی میں مصروف قلمکاروں کو بھی ہدایت بخشے۔ پھر پنچ لائن کے طور پر اس گفتگو کو ختم کرتے ہوئے کہا: یہ دعا تو عمومی تھی؛ تاہم آپ کے مرتبۂ خاص کو مدنظر رکھتے ہوئے میری آپ کے لیے بھی بطورِ خاص یہی دعا ہے۔ اس مہربان نے جواباً فون بند کر دیا۔ پہلے کبھی کبھار طنزیہ تیروں والے فون کر لیا کرتے تھے‘ اس دن کے بعد دوبارہ اس عاجز کو کبھی یاد نہیں کیا۔ مروت تو گویا اس ملک میں عنقا ہوتی جا رہی ہے۔
اس ملک میں ہر سیاستدان اور سیاسی پارٹی ہمہ وقت کوئی نہ کوئی بیانیہ لیے پھرتی ہے اور بیانیہ بھی ایسا جو حالات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ دراصل یہ بیانیہ کسی نظریاتی حوالے سے نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی حالات‘ مقتدرہ کی سوچ‘ اقتدار کے حصول اور دنیاوی فوائد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے اور اس بیانیے کے زور پر عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا اُلو سیدھا کیا جاتا ہے۔ عوام جذباتی ہیں اور ان کو کسی بھی بیانیے سے خواہ وہ کتنا ہی ناممکن العمل کیوں نہ ہو‘ نہ صرف بیوقوف بنایا جا سکتا ہے بلکہ تادیر بیوقوف بنایا جا سکتا ہے جو ایک نہایت ہی مشکل کام ہے مگر ہمارے ہاں یہ بہت ہی آسان کام ہے‘ اگر کسی کو اس پر یقین نہیں تو وہ آج سے پچاس‘ پچپن سال پہلے پیپلز پارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے پر غور کر لے‘ اسے ساری حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ان پچاس پچپن سالوں پر تو چار حرف بھیجیں‘ خود ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے دورِ اقتدار میں نہ کسی کو آسانی سے روٹی نصیب ہوئی‘ نہ کسی کو سرکار کی طرف سے کپڑے کی ایک دھجی ملی اور نہ کسی کو مفت مکان ہی ملا مگر ان تین چیزوں کا جادو ایسا سر چڑھ کر بولا کہ آج پچپن سال ہونے کو آئے ہیں مگر پرانے جیالے‘ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کی غریب پروری‘ مزدور پرستی اور عوام دوستی کے گن گاتے نہیں تھکتے‘ کئی بار ان سے پوچھا کہ آخر بھٹو نے اپنے ان تین وعدوں میں سے کون سا پورا کیا تو جواباً بغلیں جھانکتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے عوام کو سیاسی شعور بخشا اور انہیں اپنی طاقت کا احساس دلایا۔ سوشلسٹ نظریات کے حامل ہمارے ایک مرحوم دوست بڑے فخر سے بیان کرتے تھے کہ بھلے بھٹو صاحب نے اس ملک کے غریب کے لیے کچھ بھی نہ کیا ہو‘ کیا یہ کم ہے انہوں نے نیشنلائزیشن کے ذریعے اس ملک کی اشرافیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یہ لفظ اشرافیہ تو میں نے آسان ترجمہ کرکے لکھا ہے وہ اس کے لیے قدیم اور متروک اشتراکی اصطلاح ''بورژوا طبقہ‘‘ استعمال کرتے تھے۔
کہتے تھے کہ بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے اس ملک کو لوٹنے والے بورژوا طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور بائیس خاندانوں کا شیرازہ بکھیر کر ان کے تاروپود اڑا کر رکھ دیے۔ پہلے انہوں نے پرولتاری طبقے (یہ بھی غریب اور مزدور کے لیے استعمال ہونے والی خاص اشتراکی اصطلاح تھی) کے لیے کچھ بھی نہ کیا ہو مگر انہوں نے استحصالی اور مراعات یافتہ بورژوا طبقے کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔ اگر انہیں موقع ملتا تو وہ دوسرے مرحلے میں پرولتاری طبقے کے لیے بھی بہت کچھ کرتے مگر دنیا بھر کے بورژوا اور استحصالی طبقے کے امام امریکہ نے ان کو مروا دیا۔ میں نے ایک دوبار اپنے اس دوست سے کہا کہ ان کے اس اقدام سے ہم پرانے بائیس خاندانوں کے پنجۂ استبداد سے نکل کر نئے بائیس خاندانوں کے ہاتھ آ گئے۔ غریب نہ صرف یہ کہ غریب رہا بلکہ نیشنلائزیشن کے طفیل ملکی صنعتیں ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف چل پڑیں تو جواباً وہ منہ بھینچ کر‘ مکا لہرا کر اور رگیں پھلا کر علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھتے:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ان کی جلالی کیفیت دیکھ کر مزید کسی بحث کی جرأت نہیں ہوتی تھی؛ تاہم ایک بار ہمت کرکے ان سے پوچھا کہ کیا کھیت کے جلنے کے بعد دہقاں کو گندم یا روزی مل جائے گی؟ کہنے لگے: بھلے دہقان کو روزی ملے یا نہ ملے مگر بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والا جاگیردار بھی تو بھوکا مرے گا۔ دہقان کا کیا ہے‘ وہ تو پہلے سے بھوک و افلاس کا عادی ہے۔ ہمیں تو یہ خوشی ہو گی کہ پرولتاری اور بورژوا ایک صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ میں نے ان کی طبیعت کو خوشگوار پا کر اگلا سوال کر دیا کہ اگر جاگیردار کے پاس اس کھیت کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی اور بینک بیلنس ہے تو پھر آپ کی خواہش کا کیا بنے گا؟ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ کیا تم علامہ اقبال سے بڑے فلسفی ہو؟ جن پیچیدگیوں میں وہ نہیں پڑے تم ان پیچیدگیوں کے ''مامے‘‘ لگتے ہو۔ میرے پاس خاموش ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا‘ اللہ جنت نصیب فرمائے بڑے مخلص‘ بے لوث اور لکیر کے فقیر قسم کے سوشلسٹ تھے۔ عقل کے استعمال اور عقلی گفتگو کے اتنے شدید دشمن تھے کہ بھٹو صاحب جیسے پکے جاگیردار کو سوشلسٹ سمجھتے تھے۔ اور صرف وہی کیا؟ ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک بار کسی نظریے‘ بیانیے یا نعرے سے جڑ گئے تو پھر اپنی باقی ساری زندگی عقل و خرد کو کسی بینک کے لاکر میں رکھ کر اس کی چابی دریا میں پھینک دی۔ اور پھر اپنی ساری زندگی ہٹ دھرمی‘ ضد اور ذہنی غلامی کے زیر اثر گزار دی۔ پرانی باتیں چھوڑیں۔ گزشتہ دو چار سال کے اندر اندر ہمارے سامنے کم از کم تین عدد بیانیوں کی وفات کا سانحہ پیش آتا ہے مگر کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اس پر عقل‘ دلیل‘ ثبوت اور منطق سے سوچتے ہوئے اپنی اندھی تقلید سے رجوع کیا ہو اور اپنے پسندیدہ بیانیے کو اپنے سامنے مرتے دیکھ کر اس پر فاتحہ پڑھی ہو؟ یہ تین بیانیے پیشِ خدمت ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved