پشاور کے ریڈ زون میں واقع پولیس لائنز کی جامع مسجد میں دہشت گردانہ حملے میں اب تک 100 سے زائد نمازیوں کی شہادت اور 49شدید زخمیوں سمیت لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد کے گھائل ہو جانے کا سانحہ دراصل قومی لیڈر شپ کی ذہنی تھکاوٹ کے باعث پیدا ہونے والی سکیورٹی کی خامیوں کا شاخسانہ ہے۔ بے یقینی کا آشوب صرف ایوانِ اقتدار پر ہی سایہ فگن نہیں بلکہ اِس سینڈروم کی جڑیں ہمارے سماج کی جزئیات تک بھی اتر چکی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران معاشرے کے ایک بااثر طبقے نے ملک کے طول و عرض میں بھڑکتے دہشت گردی کے شعلوں کو افغانستان میں امریکی جارحیت کا فطری ردعمل قرار دے کر بالواسطہ طور پر جواز مہیا کرکے پوری قوم کو دل و دماغ کی تقسیم کا شکار بنا کر سماج کو اس تباہ کن تشدد بارے کوئی متفقہ پوزیشن لینے کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہ طرزِ عمل زندگی جیسے انمول عطیۂ فطرت کے بارے میں ہمارے سطحی تصورات کی کلاسیکی مثال تھا جس نے قبرستانوں کو آباد اور بستیوں کو اجاڑ دیا۔ اس نفسیاتی یلغار نے خوف کو بڑھاوا دے کر مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، سکولوں اور مدرسوں میں لقمۂ اجل بننے والے معصوم شہریوں کو یہ سمجھنے کی مہلت تک نہ دی کہ وہ اتنا جان سکیں کہ انہیں کون اور کیوں مار رہا ہے۔ پچیس سالوں پہ محیط بے کسی کی اس کیفیت نے اہلِ وطن کی قسمت کو تاریک بنا کر ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ اب اس قوم کا جسم اور اس کی روح تھک چکے ہیں۔
امریکی فورسز کے انخلا کا امکان پیدا ہوتے ہی جب کیانی دور میں نیشنل ایکشن پلان کے عنوان سے نظریاتی، سیاسی اور انتظامی سطح پر تشدد کے رجحان کو کنٹرول کرنے کا جامع منصوبہ پیش کیا گیا تو اسے مناسب پذیرائی نہ مل سکی۔ 'سانپ کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے‘ کے مصداق خوفزدہ لوگ ریاست کی ہر مساعی کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے کیونکہ آج بھی انہیں ریاست کی سکیورٹی پالیسی 'گڈ‘اور'بیڈ‘طالبان کی بحث کے درمیان جھولتی نظر آتی ہے۔ سیاسی قیادت، نظام عدل، مقتدرہ اور پارلیمان پچھلے دس سالوں میں دہشت گردی کے تدارک بارے کامل اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ حتیٰ کہ ہماری پولیس ایسا ''اکراس دی بورڈ‘‘ سکیورٹی آرڈر مرتب نہیں کر سکی جس میں سرکاری اور غیرسرکاری گاڑیوں کی یکساں چیکنگ ممکن بنائی جا سکتی۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ نواز، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور ملک کے جید علمائے کرام کی قابلِ لحاظ تعداد اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہشمند ہے جبکہ پیپلز پارٹی، اے این پی، بائیں بازو کے لکھاری اور بااثر دانشور ہزاروں معصوم انسانوں کی زندگیاں چھیننے والی دہشت گرد تنظیموں کو ریاستی قوت کے ذریعے کچل دینے کے حامی ہیں۔ اسی طرح دیگر ریاستی اداروں میں بھی دو آرا پائی جاتی ہیں۔ فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے درجنوں دہشت گردوں کی بریت کا فیصلہ نقطۂ نظر کے اختلاف کی ایک نمایاں مثال ہے۔ گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بیرسٹرمحمدعلی سیف کی سربراہی میں علمائے کرام، سیاستدانوں، قبائلی عمائدین اور اہم اداروں کے نمائندوں پر مشتمل پچاس رکنی نمائندہ جرگہ کابل بھیج کر افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے نورولی محسود اور عمرخالد خراسانی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کا ہنر آزمایا، جو بے نتیجہ ثابت ہوا۔ ہمارے اربابِ اختیار کے منقسم طرزِعمل کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی خود بھی بات چیت کے ایشو پر منقسم دکھائی دی۔
عمرخالد خراسانی کی جماعت الااحرار تشدد جاری رکھنے اور مفتی نورولی محسود گروپ مذاکرات کے ذریعے جنوبی وزیرستان میں سیاسی اثر و نفوذ پانے کے علاوہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور مراعات حاصل کرنے کا حامی دکھائی دیا۔ عمرخالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کی داخلی صورت حال پیچیدہ ہوئی تو مفتی نورولی محسود گروپ اپنی قوت کو مربوط رکھنے کی خاطر تشدد کی طرف پلٹ آیا۔ جنگ ایک ایسا مہلک عمل ہے جسے مرضی سے شروع تو کیا جا سکتا مگر اپنی خواہش پر روکا نہیں جا سکتا۔ تصادم کی اسی جدلیات سے نکلنے کی خاطر ابھی حال ہی میں مفتی نور ولی محسود نے پاکستانی علمائے کرام کے نام لکھے گئے اپنے خط میں اپنے طرزِ عمل بارے استفسار کیا تو علماء کونسل کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد اور مفتی تقی عثمانی سمیت تمام جیدعلمائے کرام نے پاکستان جیسی مسلم مملکت کے خلاف مسلح کارروائیوں کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے غیرمشروط طور پر مذاکرت کی طرف آنے کا مشورہ دیا لیکن ٹی ٹی پی کے داخلی تنازعات کی بدولت مفتی نورولی محسود نے علماء کرام کے فتاویٰ کو پس پشت ڈال کر تشدد کی راہ اپنانے کو ترجیح دی۔ ہماری حرماں نصیبی کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے علماء کرام کی اجتماعی رائے کو مسترد کیے جانے کے باوجود ابھی تک بعض علماء کرام نہتے شہریوں کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کی خاطر دہشت گردوں (باغیوں) کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے میں تامل سے کام لے رہے ہیں۔
امر واقع یہ ہے کہ افغان طالبان سے وابستہ کئی طاقتور گروپ ٹی ٹی پی کو ہر قسم کی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے یہ گروہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے اعلانیہ طور پر افغان سرزمین استعمال کرنے سے نہیں گھبراتے مگر ہماری حکمران اشرافیہ تاحال ڈپلومیٹک سطح پر افغان طالبان کو ٹی ٹی پی سے الگ کر سکی ہے نہ ہمارے ادارے اسے ہمارے معاشرے کے اندر سے ملنے والی معاشی، سیاسی اور سماجی معاونت کو روکنے کا فیصلہ کر سکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی سپلائی لائن پہلے کی طرح بحال ہے۔ آج بھی انہیں بیسیوں ایسے سہولت کار میسر ہیں جن کی مدد سے وہ ہماری حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے اور ریڈزون تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور طاقت رکھنے کے باوجود ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات سے ہچکچاتی ہے۔ ان ساری الجھنوں میں اس وقت ہمارے معاشرے میں تشدد کو روکنے میں گورننس کی ناکامیوں کے خلاف ایک قسم کا خطرناک ردِعمل ابھرتا نظر آتا ہے۔ پشاور سانحے کے ردِعمل میں خود خیبرپختونخوا پولیس کے آفیسرز اور جوانوں کی طرف سے شہدا کے قاتلوں سے فی الفور بدلہ نہ لینے کی صورت میں اجتماعی استعفوں کی دھمکی پر مبنی پیغامات وائرل ہو رہے ہیں۔ گویا مرض اپنا تدارک خود کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر بدنظمی ایک عبوری مرحلہ ہوتی ہے اور بالآخر غیرمحسوس انداز میں ایک جوابی انارکی، ظلم و جبریت کا مقابلہ کرنے کو اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا پر ابھرنے والی اکثریتی آرا کا جائزہ لیں تو لوگوں کی کثیر تعداد نہایت بیباکی کے ساتھ حکمران اشرافیہ کی مراعات اور اس کی کارکردگی کا موازانہ کرنے میں سرگرداں ہیں۔
اس وقت عام لوگوں کے پاس اپنی سانسوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اپنی بے توقیر زندگیوں کو بالادست انسانوں کی تفریح طبع میں ضائع کرنے کے بجائے بہادرانہ انداز میں مزاحمت کا راستہ اپنائیں۔ اب بھی مملکت کا ہر شہری یہی چاہتا ہے کہ سیاسی نظم و ضبط ضرور ہونا چاہئے خواہ وہ ابتری کے قریب ہی کیوں نہ ہو‘ جیسا نشاۃ ثانیہ کے وقت فلورنس میں تھا۔ انسانوں کو کم از کم یہ احساس تو ضرور ملنا چاہئے کہ انہیں قدم قدم پہ موت اور ٹیکسوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن کیا کریں‘ ہماری مصیبت زدہ نسل کو خوف کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ سخت ترین مگر بے فیض سکیورٹی انتظامات کے نفسیاتی حصار کے اندر ہماری آدھی طاقت تحلیل ہو گئی۔ یونانی سچ کہتے ہیں کہ غلامی خواہ کتنی ہی منصفانہ کیوں نہ ہو‘ روح کے لیے پنجرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ داخلی تنازعات سے قطع نظر‘ ملک کے طول و عرض میں بڑھتے تشدد کے واقعات کو معاشی طور پر ابھرتے جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے توانتہا پسندی پورے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والا مشترکہ عنصر ہے۔ اگر ہم اپنے مسائل سے نمٹنا چاہتے ہیں تو جنوبی ایشیائی ریاستوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ عام آبادی کی شکایات کا ازالہ اور سماجی و اقتصادی مسائل اور انسانی سلامتی کو ترجیحِ اول بنانے کی ضرورت پڑے گی۔پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں میں بڑھتی مایوسی شدت پسند تنظیموں کو آسان بھرتی کا خام مواد مہیا کرتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved