ایک پرانی ہندوستانی فلم جس کا نام یاد نہیں رہا‘ اس میں تین مسخروں کے کردار تھے۔ جہاں بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی‘ وہیں تینوں ایک دائرہ بنا کر کھڑے ہو جاتے ۔ ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے۔ سر جوڑتے۔ کھسر پھسر کرتے اور پھر بیک وقت کہتے ’’چلو! ٹھیک ہو گیا‘‘ اور پھر روزمرہ کے کام میں مشغول ہو جاتے۔ وہ ایک دوسرے سے کیا کہتے؟ ناظرین کو پتہ نہ چلتا۔ کیا ٹھیک ہو گیا؟ یہ بھی کوئی نہ جان پاتا اور فلم کی کہانی آگے بڑھتی رہتی اور کانفرنس ہوتی رہتی۔ یاد رہے کہ یہ تینوں مسخرے سر جوڑ کر کھسرپھسر کرنے کے اس عمل کو ’’کانفرنس‘‘ کا نام دیتے تھے۔ جب کوئی مشکل مرحلہ آتا۔ ایک آواز لگاتا ’’کانفرنس‘‘ اور پھر وہی کچھ ہوتا‘ جو بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں جس طرح آل پارٹیز کانفرنسیں ہوتی ہیں اور جس کثرت سے ہوتی ہیں اور جس طرح یہ بے نتیجہ نکلتی ہیں‘ انہیں دیکھ کر مجھے وہ فلم یاد آ جاتی ہے۔ سچی بات ہے‘ مجھے تو یاد بھی نہیں تھاکہ پچھلے چند برسوں میں کتنی کانفرنسیں ہو چکی ہیں؟ تازہ آل پارٹیز کانفرنس میں منظور ہونے والی قرارداد کو پڑھا‘ تو اس میں گزشتہ کئی کانفرنسوں کا حوالہ آیا ہے۔ یہ صرف وہ کانفرنسیں ہیں‘ جو حالیہ جمہوری دور میں منعقد کی گئیں۔ اگر تمام کل جماعتی کانفرنسوں کو ایوب خان کے دور سے شمار کیا جائے‘ تو بلا تردید کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جتنی کل جماعتی کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں‘ ان کا اندراج گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں ہونا چاہیے۔ سیاست کا کوئی بھی طالب علم‘ ریسرچ کر کے‘ مجھے بتا سکتا ہے کہ پاکستان کل جماعتی کانفرنسوں کا عالمی ریکارڈ ہولڈر نہیں ہے۔ مجھے تفصیل کے ساتھ تعداد بتا دی جائے‘ تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائوں گا۔ اس طرح کی تمام کانفرنسوں میں دردبھرے انداز سے‘ ملک کے بحرانی حالات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ناکامیوں اور مایوسیوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے اور پھر حالات کو سدھارنے کے ارادے ظاہر کئے جاتے ہیں اور پھر ایسے وقت کا انتظارشروع کر دیا جاتا ہے‘ جس میں نئی کل جماعتی کانفرنس منعقد کی جائے۔ کئی سیاسی جماعتیں تو ایسی ہیں‘ جن کے لیڈروں کی تمام سیاسی سرگرمیاں‘ کل جماعتی کانفرنسوں میں شرکت تک محدود ہیں۔ جیسے ہی کسی کانفرنس کا اعلان ہوتا ہے‘ وہ فوراً اپنے ملبوسات وغیرہ تیار کر کے کارڈ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ کارڈ مل جائے‘ تو ان کی سیاسی جماعت کے اجلاس شروع ہو جاتے ہیں اور نہیں ملتا‘ تو احتجاجی بیانات آنے لگتے ہیں کہ انہیں کیوں نظرانداز کیا گیا؟ حالیہ کل جماعتی کانفرنس تو بہت ہی ڈری سہمی تھی۔ اتنی ڈری سہمی کہ شیخ رشید کا سامنا کرنے سے بھی گھبرا گئی۔ حالانکہ وہ صرف لفظی دہشت گرد ہیں۔ سگار کے سوا ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہوتا اور اعجاز الحق تو ہومیوپیتھک دوائوں جیسے بے ضرر سیاستدان ہیں۔ انہیں بلا بھی لیا جاتا‘ تو سرکاری پالیسیوں کی تائید کرتے۔ کانفرنس میں منظورشدہ قرارداد کو غور سے پڑھا جائے‘ تو اس میں دہشت گردوں کا ذکر تک نہیں ملتا۔ ہندو ناریوں کی طرح ان کا نام بھی نہیں لیا گیا۔ صرف دہشت گرد اور انتہاپسند کی اصطلاحیں استعمال ہوئیں اور گریہ زاری کی گئی کہ ملک میں بگڑتی ہوئی صورتحال بہت خراب ہے اور اسے دیکھ کر کانفرنس کے شرکاء بڑی تکلیف میں ہیں۔شہدا کے لئے دعائیںاور ان کے پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ لیکن جن لوگوں نے انہیں شہید کیا‘ نہ وہ نامزد ہوئے‘ نہ ان کاذکر آیا اور نہ ان کی مذمت کی گئی۔ آپ اس قرارداد کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھیے اور پھر کریدکرید کر ڈھونڈیئے کہ ان لفظوں میں کہیں وہ عزم اور ارادہ ظاہر ہوتا ہے‘ جو کوئی ایٹمی ریاست اپنے باغیوں کی سرکوبی کے لئے استعمال میں لاتی ہے؟ اپنی طاقت پر اعتماد کرتے ہوئے مخالف قوتوں کو چیلنج کرتی ہے۔ دھمکی دیتی ہے کہ باغیانہ حرکات سے باز آجائو‘ ورنہ تمہیں بے دست و پا کر دیا جائے گا۔ ہمارے ملک کے اندر تباہی تحریک طالبان پاکستان نے مچا رکھی ہے۔ اس کا بھی نام نہیں لیا گیا۔ مذاکرات کا فیصلہ تو ہو گیا۔ مگر کس کے ساتھ؟ یہ بھی واضح نہیں۔ مذاکرات کب تک شروع ہوں گے؟ اس وقت کا اندازہ تک پیش نہیں کیا گیا۔ مذاکرات کس بات پر ہوں گے؟ اس کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ کانفرنس کے شرکا نے حکومت کو مذاکرات میں کیا حاصل کرنے کا مینڈیٹ دیا؟ اس کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ گذشتہ پارلیمانی اور کل جماعتی کانفرنسوں کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونے کا رونا تو رویا گیا۔ مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ اس قرارداد میں وہ سب کچھ ہے‘ جو کل جماعتی کانفرنسوں میں ہوا کرتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کا ڈرافٹ ہے‘ جو اقو ام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں پاس کئے جاتے ہیں۔ وہ بھی خوش رہے۔ وہ بھی ناراض نہ ہو۔ کسی کو برا بھی نہ لگے۔ کسی کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آئے۔ جس کے حق میں قرارداد ہے‘ اسے بھی فائدہ نہ ہو۔ جس کی مخالفت میں قرارداد پاس ہوئی‘ اس کا بھی کچھ نہ بگڑے۔ کیا یہی ساری خوبیاں ہماری کل جماعتی کانفرنس کی منظور کردہ قرارداد میں موجود نہیں؟ مزے کی بات یہ ہے کہ قرارداد پاس کرنے والوں نے نہ تو مکمل ایجنڈے اور ٹائم ٹیبل کے ساتھ کوئی کام وزیراعظم کے سپرد کیا ہے اور نہ ہی انتہاپسندوں سے کوئی مطالبہ کیا ہے۔وہ بھی خوش‘ ہم بھی خوش۔ ان کی طرف سے خیرمقدم ہو گیا۔ ان کے خیرمقدم کا ہم خیرمقدم کر دیں گے اور پھر آئندہ کی کل جماعتی کانفرنس کی تیاریوں میں لگ جائیں گے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ بطور قوم ہم اپنا ملک حاصل کر کے‘ بوکھلا گئے۔ قائد اعظمؒ نے واضح طور پر ریاست کے جو خدوخال ہمارے سامنے رکھے تھے‘ اگر ہم ان سے انحراف نہ کرتے اور انہی میں رنگ بھرتے ہوئے نکھارتے چلے جاتے‘ تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتاکہ ہم ملک کے دشمنوں کا نام لیتے ہوئے بھی گھبرائیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرنے سے بھی کترائیں۔ انہیں چیلنج کرتے ہوئے احتیاط کریں۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہ ہو کہ ہمارا ملک اصل میں ہے کیا؟ یہ اسلامی مملکت ہے؟ نظریاتی مملکت ہے یا قومی ریاست ہے؟ میں یہ سوال بلاوجہ نہیں کر رہا۔ ہمارے لیڈر‘ ہمارے حکمران‘ ہمارے اداروں کے سربراہ‘ سب کے سب اسلام اور پاکستان کا نام اکٹھا لیتے ہیں۔ اسے نظریاتی مملکت قرار دیتے ہیں۔ جس کا مطلب یحییٰ خان کے دور حکومت میں نوابزادہ شیرعلی خان کے زیرقیادت تخلیق کردہ نظریہ پاکستان ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ کر لیا ہے۔ مگر ایک قومی ریاست کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ اب اسلام ہی کا نام لینے والے ہم پر چڑھ دوڑے ہیں۔ انہوں نے ہماری ریاست کاڈھانچہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس کا اعتراف کل جماعتی کانفرنس کی قرار داد میں بھی کیا گیا اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بات بات پر نظریہ پاکستان کا نام لینے والے رہنمائوں نے بھی اس قرارداد پر دستخط کر دیئے‘ جس میں ’’ہماری قومی ریاست‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ کاش! یہ بات ہم پہلے ہی دن سمجھ جاتے کہ آج کی دنیا میں صرف قومی ریاستیں ہوتی ہیں۔ مذہب کی بنیادوں پر ریاستیں قائم نہیں کی جاتیں۔ پاکستان ‘ مسلمان قوم کے لئے بنایا گیا تھا‘ جو برصغیر میں آباد مسلمانوں کا وطن تھا اور جسے جمہوری اصولوں کے تحت‘ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والے علاقوں میں قائم کیا گیا تھا۔ اس میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی برابر کے شہریوں کی طرح شامل تھے۔ اسلام کی ٹھیکیداری کرنے والے 90فیصد مذہبی سیاستدان‘ تحریک پاکستان کے مخالف تھے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے رجعت پسند حکمرانوں کے ساتھ مل کر‘ ریاست کو مذہبی بنانے کی مہمات شروع کر دیں۔ پہلے انہوں نے مشرقی پاکستانیوں کو اپنی طرز کا مسلمان بنانے کی کوشش کی۔ وہ جان چھڑا کر الگ ہو گئے۔ پھر ہم نے افغانستان کو کمیونسٹوں سے بچانے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ بیچارے افغان قوم پرست تھے۔ نتیجے میں لاکھوں افغانوں کو اپنے گھر میں لابٹھایا۔ اب وہ اسلام آباد میں بھتے وصول کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان والے کہتے ہیں کہ ہم اس ملک میں اپنا نظام نافذ کریں گے اور اس کے لئے وہ ہماری ریاست کے خلاف اسی طرح کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ جیسی افغان طالبان‘ غیرملکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو تضادات کے گرداب میں پھنسا لیا ہے۔ ہمیں اپنی ریاست کی طاقت پر یقین نہیں رہا۔ یقین ہوتا‘ تو ایسی قرارداد پاس نہ کرتے۔ ہمارے حکمران عموماً عوام سے شکایت کرتے ہیں۔ عوام کیا کریں؟ انہوں نے عام انتخابات میں ملکی امور چلانے کا مینڈیٹ دے کر حکومت قائم کی۔ اس حکومت کو فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا مکمل اختیار دیا۔ وہ پھر بھی ایسا نہ کرے‘ تو اس میں عوام کا کیا قصور؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved