تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     04-02-2023

ہم کب جاگیں گے؟

آٹھ سال قبل آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم اور پھول سے بچوں اور والدین جیسی شفقت رکھنے والے اساتذہ پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ اس سانحے کی کربناک اور دل خراش یادیں ابھی تک ہمیں تڑپا جاتی ہیں۔ اب 30جنوری کو پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں عین نمازِ ظہر میں سر بسجود فرزندانِ توحید پر پہلے سے بھی بڑی قیامت ٹوٹ پڑی۔ مسجد میں تو انسان یوں محفوظ ہوتا ہے جیسے بچہ ماں کی گود میں۔ عبادت گاہوں پر تو کسی دین پر ایمان نہ رکھنے والے بھی حملہ نہیں کرتے۔
یہ کیسے لوگ ہیں جو خدا کے گھر میں خدا سے بے خوف ہو کر سیروں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ خودکش بمبار جب اپنے آپ کو اڑاتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی سینکڑوں معصوم اور بے قصور لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ سانحہ پولیس لائنز میں 101 افراد شہید اور تقریباً 200 شدید زخمی ہیں جن کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں علاج کیا جا رہا ہے۔
یہ خودکش بمبار اب زیادہ تر ہماری عساکر اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہم کئی بار اُن کے خلاف ضربِ عضب اور رد الفساد جیسے آپریشنز بھی کر چکے ہیں۔ یہ آپریشنز بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ مگر جونہی خودکش دھماکوں میں کمی آتی ہے اور حالات قدرے پُرسکون ہوتے ہیں تو پھر ہم دہشت گردوں سے نیک چال چلن کی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو خودکش بمبار کئی کلو وزنی دھماکہ خیز مواد اپنے جسموں کے ساتھ باندھنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ جو انسانی بمبار خودکش جیکٹس پہننے اور سینکڑوں لوگوں کی جان لینے پر برضا و رغبت تیار ہو جاتے ہیں اور جو بمبار ہر طرح کے خطرات مول لینے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں‘ اُن کی کتنے برسوں تک برین واشنگ کی گئی ہو گی۔ انہیں اسلام کے نام پر کیسے کیسے گمراہ کن اور انسانیت کُش فلسفے گھول کر پلائے گئے ہوں گے۔ اگر اچانک آپ ایسے انتہا پسندوں کو واپس بلا لیں گے۔ انہیں اپنے ٹھکانوں پر جانے کی آزادی دے دیں گے تو کیا وہ اس حسنِ سلوک کی بنا پر ''اچھے بچے‘‘ بن جائیں گے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں! 2021ء اور 2022ء کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی کے قائدین سے فیاضانہ انداز میں مذاکرات کیے گئے تھے اور کالعدم تحریک پاکستان کے ایک سو کے قریب قیدی رہا کیے گئے۔ اُن کے ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو سرحد پار اپنی پناہ گاہوں اور تربیت گاہوں سے واپس آ کر صوبہ خیبرپختونخوا میں آباد ہونے کی اجازت بھی دی گئی۔ ان لوگوں کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ لگانے کے لیے اُن کے مذاکرات کے دوران پیش کردہ مطالبات پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ اُن کا پہلا مطالبہ تھا کہ اس تنظیم کے تمام قیدیوں کو نہ صرف غیر مشروط طور پر رہا کردیا جائے بلکہ اُن کے خلاف قائم کردہ تمام مقدمات کو ختم کردیا جائے۔ ایک ڈیمانڈ یہ تھی کہ جن قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم کیا گیا ہے‘ اُن کی سابقہ حیثیت بحال کر دی جائے اور وہاں سے سکیورٹی فورسز واپس بلا لی جائیں۔ ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ آئین پاکستان کی ''غیر شرعی‘‘ دفعات کا واپس آنے والوں پر اطلاق نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے ''غیر شرعی‘‘ ہونے کا فیصلہ بھی تو بندوق بردار خود ہی کریں گے۔ مذاکرات کرنے والے یہ بھی چاہتے تھے کہ انہیں اپنا اسلحہ ساتھ لانے اور ساتھ رکھنے کی اجازت دی جائے۔ یقینا پاکستان کی طرف سے مذاکرات کرنے والوں نے نیک نیتی سے ہی بات چیت کی ہو گی؛ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہماری جانب سے ڈائیلاگ کرنے والوں کو غالباً اس معاملے کی گہرائی اور شدت کا کماحقہٗ اندازہ نہیں تھا۔
حال ہی میں پاک فوج سے ریٹائر ہونے والے بریگیڈیئر (ر) عمر ستار‘ جو پاکستان کی سرحدوں پر دفاعِ وطن کا مقدس فریضہ انجام دیتے رہے ہیں‘نے ''دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟‘‘ کے موضوع پر مصر کی ایک عالمی شہرت یافتہ عسکری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ اُن کا یہ تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے اور عسکری و سیاسی حلقوں میں بہت سراہا گیا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب کی تحقیق و تجزیہ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی سے مکمل نجات حاصل کرنے کے لیے سہ نکاتی پروگرام کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔ اس تجزیے کے مطابق دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے قومی سطح پر یکسوئی ضروری ہے۔ پہلے مرحلے پر وطن کے خلاف ہونے والی ہر طرح کی مسلح کارروائیوں کا پوری قوت سے کچلنا ضروری ہے۔ دوسرے مرحلے پر ان دہشت گرد گروپوں کی نوجوانوں تک رسائی کے تمام راستوں کو بند کرنا ہوگا۔ ان کی سوشل سطح پر آمد و رفت‘ میل ملاقات اور لین دین کا مکمل خاتمہ بھی ضروری ہے اور اس سلسلے میں کسی نرمی سے ہرگز کام نہ لیا جائے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ایسا متشدد اور انتہا پسند گروہ اس وقت تک سروائیو نہیں کر سکتا جب تک اسے کہیں نہ کہیں سے مالی رسد اور کمک نہ پہنچ رہی ہو۔ ڈاکٹر بریگیڈیئر(ر) عمر ستار کے عملی تجربے اور تحقیقی تجزیے کے مطابق جب تک دہشت گرد سرنڈر نہ کریں اور غیر مسلح نہ ہو جائیں اس وقت تک انہیں ہرگز کوئی رعایت نہیں دی جانی چاہیے۔ جب وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیں تب اُن کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے اور اس وقت تک انہیں سوسائٹی تک رسائی نہ دی جائے جب تک کہ یہ اطمینان نہ کر لیا جائے کہ اُن کے متشددانہ عقائدو خیالات کی مکمل اصلاح ہو چکی ہے۔
ہمارے خوشحال طبقات بالعموم اور ہمارے حکمران بالخصوص اپنے اپنے مشاغل و مفادات کے اسیر ہیں۔ خدا جانے وہ کون سی گھڑی ہو گی جو انہیں خوابِ غفلت سے جگائے گی۔ یقینا دستور کی عملداری ہر چیز سے بڑھ کر ہے؛ تاہم دستور کی تمام شقوں پر باہمی بات چیت اور گفت و شنید سے بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں ایک سیاسی خلفشار کی صورت ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں توڑی جا چکی ہیں۔ دونوں صوبوں کے گورنروں نے آئینی تقاضے کے مطابق 90 دنوں کے اندر اندر ہونے والے انتخابات کی تاریخیں نہیں دیں۔ گورنروں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے کہ وہ تاریخیں دے۔ قومی اسمبلی کو تحریک انصاف نے غالباً اپریل 2022ء میں داغِ مفارقت دیا تو پی ڈی ایم کی حکومت انہیں آواز دے کر واپس بلاتی رہی تب تحریک انصاف کے چیئرمین نے واپسی کو اپنے دفتر سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا اب بوجوہ پی ٹی آئی محدود تعداد میں واپس آنا چاہتی ہے تو قومی اسمبلی کے سپیکر نے ان پر واپسی کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔ پاکستان میں معاشی بحران بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ڈالر 275 روپے کا اور مہنگائی کی مجموعی شرح 40 فیصد سے اوپر جا چکی ہے۔ کم از کم 9 کروڑ انسان بدترین قسم کی غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ طرح طرح کی تباہی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں مگر حکمران خوابِ غفلت سے جاگنے کو تیار نہیں۔ خدارا! سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور ملک میں سیاسی خلفشار کے خاتمے کے لیے فوری طور پر باہمی مذاکرات پر آمادگی ظاہر کریں۔ اس کے علاوہ سلامتی کا کوئی اور راستہ نہیں۔ کالم کے اختتام پر پہنچا تو ایک اطمینان بخش خبر ملی کہ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خاتمے اور دیگر متنازع معاملات کے حل کے لیے آل پارٹیز کانفرنس 7 فروری کو بلا لی ہے۔ ہم اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved