تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     11-09-2013

بدقسمت ماں اور بدترین معاشرہ

کس قدر بد قسمت ہوتے ہیں وہ معاشرے جہاں کسی ماں یا باپ کو خوف سے آزادی نہ مل سکے اور وہ یہ چاہتے ہوئے بھی کہ ان کے بیٹے کے قاتل کیفر کردار تک پہنچیں، یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں کہ بقیہ زندگی دیت سے حاصل کردہ رقم سے عیش و آرام کے ساتھ گزار سکیں۔ اس سے بھی بدترین ہوتے ہیں وہ گروہ جوان طاقت ور لوگوں سے لڑنے کی بجائے قانون کا مذاق اڑانے لگیں۔ کیا اس ملک میں قصاص اور دیت کے قانون سے پہلے گواہ آزاد تھے؟ کیا انہیں خوف سے گواہی نہ دینے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا؟ کیا بے گناہوں کو پھانسی تک پہنچانے کے لیے جھوٹے گواہ پیش نہیں ہوتے تھے؟ کیا انگریز کے بنائے ہوئے تعزیراتِ ہند اور تعزیراتِ پاکستان کے تحت تفتیشی افسر اور دوسرے دولت کی چمک سے مستثنیٰ تھے۔ وکیلوں کی بحثیں، شک کا فائدہ، جھوٹے سرٹیفکیٹ اور دولت کے اثر سے غلط میڈیکل لیگل رپورٹیں نہیں مرتب ہوتی تھیں؟ پنجاب کی ہائی کورٹ کا چالیس کی دہائی کا وہ فیصلہ اس معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے‘ جس میں کہا گیا کہ یہاں کے عوام کانزاعی بیان بھی قبول مت کرو، کیونکہ یہ مرتے مرتے بھی جھوٹ بول کر اپنے دشمنوں کا نام قاتلوں کی فہرست میں شامل کر دیتے ہیں حالانکہ وہ بے گناہ ہوتے ہیں۔ اس ملک کی جیلوں میں ہزاروں بے گناہ منظم جھوٹی گواہی کے مافیا کے ہاتھوں سزائیں بھگت رہے ہیں۔ کون سی ایسی عدالت ہے جس کے باہر جھوٹے گواہ میسر نہیں؟ اور شاید ہی کوئی وکیل ہو جو یہ نہ جانتا ہو کہ کون پیشہ ور جھوٹا گواہ ہے۔ اس پورے لیگل سسٹم میں‘ جو انگریز نے ہمیں تحفے میں دیا ہے، کسی قاتل کے ورثا جب وکیل کے پاس جاتے ہیں تو وہ چند مفید مشورے ضرور دیتا ہے۔ پہلا یہ کہ تفتیش کو اپنے حق میں کیسے کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تفتیشی افسر کو رشوت ، سفارش یا تعلق سے کیسے رام کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ موقع کے گواہوں کو کس طرح رشوت یا دھونس کے ذریعے گواہی سے روکا جا سکتا ہے۔ تیسرا یہ کہ کس طرح میڈیکل سرٹیفیکیٹ اپنے حق میں بنوا یا جا سکتا ہے اور چوتھا یہ کہ اگر گواہ پھر بھی اپنی ضد پر قائم ہیں تو اپنی جانب سے جھوٹے گواہ پیش کر کے کیسے کیس کو مشکوک بنایا جا سکتا ہے۔ ان’’ مفید‘‘ مشوروں کے بعد وکیل اصل کہانی کے مقابل ایک نئی کہانی وضع کرتا ہے، اس میں سب سے پہلے کسی دوسری جگہ پر قاتل کی موجودگی ثابت کی جاتی ہے۔ حاضری کا جھوٹا سرٹیفکیٹ، جعلی ٹکٹ یا کوئی اور طریقہ، اس کے بعد گواہوں پر جرح، تفتیش کی کمزوریاں اور پھر گزشتہ عدالتی فیصلوں کے حوالوں میں انصاف کہیں گم ہو جاتا ہے اور قانون کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وکیل نے قانون کے تمام تقاضے پورے کیے ہوتے ہیں۔ ایسے ہزاروں کیس قانون کی کتابوں کی زینت ہیں جن میں بہت سے قاتل گواہی کی کمی، گواہوں میں اختلاف، تفتیش کی خامی اور شک کے فائدہ کی وجہ سے عدالتوں سے با عزت بری ہوئے۔ لیکن1860ء یعنی آج سے153سال پہلے بننے والی تعزیرات ہند پر کبھی کسی نے انگلی تک نہ اٹھائی۔ کسی نے اسے ایک ناقص اور موجودہ حالات سے غیر مطابق قرار نہ دیا۔ ان 153سالوں میں ایک عام دستور ہمارے قانونی حلقوں میں رائج ہے جسے ’’بیرون از عدالت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لیکن چالاک وکیلوں اور اثرو رسوخ والے مجرمان نے اس کا ایک راستہ نکالا اور وہ یہ تھا کہ روپیہ دے کر یا دھونس وغیرہ کے ذریعے ورثاء کو قائل کر لیا جاتا اور پھر و رثاء کیس کی پیروی کرنا چھوڑ دیتے۔ پولیس اور سرکاری وکیل چند دن عدالت کی پیشیاں بھگتتے تاکہ ان کے ’’معاوضے‘‘ میں اضافہ ہو سکے‘ پھر جب ان کی جیبیں بھی گرم ہو جاتیں تو سناٹا چھا جاتا۔ کیس عدم پیروی، گواہوں کی عدم دستیابی یا ناقص تفتیش کے بہانے ختم ہو جاتا اور ملزم باعزت بری۔ ایسے قصوں اور داستانوں سے ہندوستان کی 153سالہ عدالتی تاریخ بھری پڑی ہے۔اب تک ہزاروں مائوں نے اس بد ترین معاشرے میں کبھی پیسے لے کراور کبھی خوف کے زیرِ اثر اپنے جگر گوشوں کے خون معاف کیے ہوں گے لیکن چونکہ ان کا یہ عمل اینگلو سیکسن قانون کی بھول بھلیوں میں نظر نہیں آتا‘ وہ بیچاری خاموش ہو کر بیٹھ جاتی ہیں، ان کے گھرانے کے لوگ پیروی نہیں کرتے‘ اس لیے کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ماں نے اپنے بچے کے خون کی قیمت کیسے لگائی۔ یہ ہے اس پورے قانونی نظام کی منافقت۔ لیکن قصاص اور دیت کے قا نون کے تحت اس ماں کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ اسے لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ اس نے اتنی رقم وصول کی یا پھر اللہ کے لیے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کیا۔ اس طرح یہ قانون پورے معاشرے کے سامنے ایک سوال چھوڑتا ہے اور اس سوال کا جواب پورے معاشرے کو دینا ہوتا ہے۔ کیا اس کا یہ فیصلہ آزادانہ تھا؟ کیا اس معاشرے یا حکومت نے اسے یہ تحفظ فراہم کیا تھا تا کہ وہ اپنے بچے کے خون کے بدلے خون یا قصاص کی رقم میں کسی ایک کا انتخاب بلا خوف کر سکے؟ لوگ کہتے ہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ کون اس طرح کے حالات پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن میں نے اپنی زندگی کے ان نو برسوں میں‘ جب میں عدالت کی ایک ایسی کرسی پر تھا جہاں قتل کے فیصلے ہوتے تھے، ایک قبائلی معاشرے میں بار بار اس آزادی کا استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ پشتون اسے ’’ ننوات‘‘ اور بلوچ اسے’’ میہڑ‘‘ کہتے تھے۔ اس رسم میں مقتول قبیلے کے گھر میں سب لوگ زمین پر گائو تکیے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں ، قاتل کا قبیلہ قاتل کے ساتھ آکر مجرموں کی طرح کھڑا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کوئی بزرگ قرآن کی ان آیات کوتلاوت کرتا ہے جو عفو و درگزر اور معافی کی فضیلت پر ہوں۔ پھر پورے قبیلے کے بزرگ دست بستہ معافی کی درخواست کرتے ہیں۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کا مجرم حاضر ہے اور ایک طشت میں خون بہا کی رقم اور پستول رکھ کر پیش کر دیا جاتا ہے کہ اب جو تمہارا فیصلہ۔ ہمیں منظور ہے۔ قبائلی تاریخ میں کبھی کسی نے خون بہا کی پوری رقم نہیں اٹھائی اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر میں آئے ہوئے میہڑ یا ننوات سے بدلہ لیا ہو۔ یہ ہوتی ہے فیصلے کی آزادی ۔ یہ ہوتا ہے قصاص اور دیت کی اصل روح پر عمل درآمد۔ پورے کا پورا معاشرہ مقتول کے گھرانے کی آزادی اور عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اینگلو سیکسن قانون کے لیے بنائی گئی پٹڑی پر قصاص و دیت کے اعلیٰ وارفع قانون کو چلانے کے کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ سوال جو اس معاشرے کے لیے ہے کہ ایسا معاشرہ کیسے جنم لے سکتا ہے جس میں ایک عام گھرانے کی ماں بھی اپنے بیٹے کے قاتلوں سے بدلہ لینے یا معاف کرنے کے فیصلے میں آزاد ہو۔ ایسا معاشرہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب معاشرے سے مجرم ، مفرور اور بدمست لوگوں کا قبضہ ختم کرایا جائے۔ آپ اسلام کی تعلیمات اُٹھا کر دیکھ لیں۔ اسلام غلبے کا قائل ہے۔غلبہ کیا ہوتا ہے؟ غلبہ ایک گائوں پر پانچ قاتلوں، ڈکیتوں ، ہیروئن بیچنے والوں یا ظالم جاگیرداروں کا قبضہ ہوتا ہے۔ انہی کی مرضی سے گائوں میں دوستیاں دشمنیاں ہوتی ہیں، بیٹیوں کے رشتے ہوتے ہیں، مکان میں اضافے ہوتے ہیں حتیٰ کہ انہی کی مرضی سے بچوں کو سکول بھیجا یا نہ بھیجا جاتا ہے۔ یہی قاتل، چور، ڈکیت اور وڈیرے ہیں جن کی بندوقوں کے سائے میں ’’عظیم ترین جمہوری نظام‘‘ کے لیے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ خوف میں ڈوبا ہوا ووٹر کسی وڈیرے کو ہی الیکشن میں جتواتا ہے اور پھر جب وہ اپنے اس ناجائز قبضے کو آئینی تحفظ دلوا لیتا ہے تو اس کی دھاک پوری انتظامی مشینری پر بیٹھ جاتی ہے۔ اسی کی مرضی سے ایف آئی آر کٹتی ہے، تفتیش ہوتی ہے، جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں۔ افسران تبدیل ہوتے ہیں۔ ایسے عظیم جمہوری معاشرے کی بھول بھلیوں میں شاہ زیب کی ماں ویسا ہی فیصلہ کرتی ہے جیسا اس سے پہلے کمزور گھرانوں کی مائیںگزشتہ 153سالوں سے کرتی چلی آئی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved