تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     04-02-2023

آئی ایم ایف اور پاکستان

اس بار آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا تو یار لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ پاکستان کے آزمودہ اور مخلص دوست ممالک بھی کہہ رہے تھے کہ پہلے آئی ایم ایف سے معاملات طے کریں پھر ہمارے پاس آئیں۔ ایک خلیجی ملک نے تو یہ بھی کہا کہ ہم اپنے لوگوں پر نئے ٹیکس لگا رہے ہیں‘ آپ بھی لگائیں۔ عاقل کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے مگر اب بات اشاروں سے آگے جا چکی ہے۔ ہمیں صاف کہا جا رہا ہے کہ بار بار کشکول لے کر ہمارے پاس نہ آئیں اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔
آئیے! اب یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ آئی ایم ایف کرتا کیا ہے۔ آئی ایم ایف ممبر ممالک کے بیرونی ادائیگیوں کے مسائل حل کرنے لیے گاہے گاہے ان کی مالی مدد کرتا ہے۔ یہ ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ کی طرح ہے جہاں مالی مصیبت میں گھرے ممالک وقتی مدد کے لیے آتے ہیں اور مرہم پٹی کرا کے چلے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف مریض ممالک کو اپنے ہسپتال میں داخل نہیں کرتا۔ اس کا مگر کیا کیا جائے کہ چند ممالک بار بار ایمرجنسی وارڈ میں جاتے ہیں۔ پاکستان بائیس (22) مرتبہ اس وارڈ میں جا چکا ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس ضمن میں صرف ارجنٹائن ہمارا ہم پلہ ہے اور اگر ہمارے طور اطوار یہی رہے تو ہم جلد ارجنٹائن کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
آئی ایم ایف کے وفد نے تازہ ترین شرط یہ لگائی ہے کہ تمام سرکاری افسروں کے اندرون اور بیرونِ ملک اثاثے ظاہر کیے جائیں‘ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہماری کرپشن کی کہانیاں اب خاصی شہرت پا چکی ہیں۔ کچھ سال ہوئے بلوچستان حکومت کے ایک سیکرٹری کے گھر سے 70 کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے اور اس وقت ڈالر میں تقریباً سو روپے ہوتے تھے۔ کیا وہ رقم بحقِ سرکار ضبط ہوئی؟ اس افسر کے خلاف سنجیدہ انکوائری ہوئی یا نہیں‘ مجھے معلوم نہیں۔ ہمارے ہاں دو چار دن میڈیا میں ایسی خبر کا اُبال آتا ہے اور پھر ہم بھول جاتے ہیں۔ ہماری کرپشن کے بارے میں تساہل پسندی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین ریٹنگ سے بھی ظاہر ہے اور اب تو آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا ہے کہ سرکاری افسر اپنی جیبیں چیک کرائیں‘ یہ ہمارے لیے من حیث القوم خاصی شرم کا مقام ہے۔
ایک اور مطالبہ جو وفد نے حکومت پاکستان سے کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کے اخراجات کی تفصیل بتائی جائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد فیڈرل محصولات کا بڑا حصہ صوبائی حکومتوں کو دے دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کو شک ہے کہ مرکز سے حاصل کردہ فنڈز صوبائی حکومتیں ایمانداری سے خرچ نہیں کرتیں اور یہ شکوک عام پاکستانی شہریوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ میڈیا بھی انہیں اجاگر کرتا رہتا ہے۔ مجھے 2014ء میں کوئٹہ میں گورنر صاحب سے ہونے والی ملاقات یاد آ رہی ہے۔ میں ایک وفد کے ساتھ وہاں گیا ہوا تھا۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران مجموعی تاثر یہی ملا کہ عوامی نمائندوں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز عموماً عوام تک نہیں پہنچتے۔
چونکہ ہماری حکومتیں بشمول تحریک انصاف کی حکومت‘ کرپشن کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہیں لہٰذا اب آئی ایم ایف تمام سرکاری افسروں کے اثاثے طلب کر رہا ہے یعنی جو کام ہمیں خود کرنا چاہیے تھا وہ اب واشنگٹن سے آئے لوگ کریں گے۔ صوبائی حکومتوں سے بھی سوال جواب وہی کریں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ صوبائی حکومتوں کو ملنے والی خطیر رقوم عوام کی بہبود پر صرف نہیں ہوتیں ورنہ کراچی‘ کوئٹہ اور لاڑکانہ کا یہ حال نہ ہوتا مگر پھر بھی ہم صوبائی حکومتوں سے کوئی مشکل سوال نہیں کرتے تھے۔ یہ کام بھی اب آئی ایم ایف نے اپنے ذمے لے لیا ہے گویا وہ ہماری نالائقیوں کا ازالہ کرے گا۔ میرا تو دل کرتا ہے کہ آئی ایم ایف کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جائے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے نئے قرضے سے عوام کو بجلی کی مدد میں سبسڈی دینا چاہتی ہے جبکہ آئی ایم ایف مُصر ہے کہ سبسڈی نصف کر دی جائے۔ اس سے بجلی کی قیمت میں یقینا اضافہ ہوگا۔ عوام پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ پروڈکشن کی لاگت بھی بڑھے گی۔
آئی ایم ایف کے بارے میں پاکستان کے ماہرینِ اقتصادیات میں دو متضاد آرا پائی جاتی ہیں‘ ایک رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان جیسے کشکول بردار ممالک کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ ان سے بجلی اور گیس کے ریٹ بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات پر قدغن لگاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اکانومی مزید سکڑتی ہے۔ بے روزگاری بڑھتی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر دراصل آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی دی گئی رقم متعلقہ ملک سے واپس مل جائے اور حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہ کرے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ایک فنانشل ڈسپلن لے کر آتا ہے۔ یہ مقروض ملک کو اپنے وسائل کی حدود میں گزارہ کرنے کی پریکٹس کراتا ہے۔ برآمدات بڑھانے اور درآمدات محدود کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لہٰذا پاکستان جیسے ممالک‘ جہاں فنانشل ڈسپلن کی سخت کمی ہے‘ آئی ایم ایف سے اچھی باتیں سیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کے فیوڈل لارڈ زرعی انکم ٹیکس برائے نام ادا کرتے ہیں۔ ہمارے صنعت کار اور تاجر کم ٹیکس دیتے ہیں۔ بھارت میں قومی آمدنی کی نسبت سے ٹیکس کی شرح ہم سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں حکومت تاجروں کو دستاویزات کا کہتی ہے یعنی خرید و فروخت کے وقت رسید دی بھی جائے اور طلب بھی کی جائے۔ دکانوں میں کیمرے لگانے کا کہا جاتا ہے تو مزاحمت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اور وکیل بھاری فیس لیتے ہیں لیکن رسید ایشو نہیں کرتے۔ Tax Dodging ہمارے ہاں عام ہے۔
اس پھر مستزاد یہ کہ مرکز میں 78 رکنی کابینہ ہے۔ آدھے وزیر قلمدان کے بغیر ہیں‘ وہ بغیر کسی کام کے سرکاری مکان‘ تنخواہ‘ گاڑی‘ پٹرول‘ سکیورٹی اور پروٹوکول سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو شاید علم نہیں کہ قائداعظم کی کابینہ میں چھ وزیر تھے اور پاکستان آج سے بہت بڑا تھا۔ ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری عہدِ جدید کے ابنِ بطوطہ ہیں‘ ان کے دورے بڑھتے ہی جاتے ہیں‘ ابھی اگلے روز ماسکو میں تھے اور پھر واشنگٹن چلے گئے۔ کہتے ہیں میں اپنے خرچ پر جاتا ہوں جو کہ قابلِ یقین نہیں۔ چلیں اگر ٹکٹ خود خریدتے ہیں تو بھی ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کا خرچ تو حکومت پاکستان ادا کرتی ہے اور یہ ایسے حالات میں جبکہ حکومت کے لیے سفارت کاروں کو زرِمبادلہ کی صورت میں باہر تنخواہ اور الاؤنس دینا مشکل ہو رہا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آئی ایم ایف نے مصر کو قرض دینے سے پہلے شرط لگائی ہے کہ مصری فوج اقتصادی سرگرمیوں سے دست بردار ہو جائے۔ اسی طرح سری لنکا سے بھی دفاعی اخراجات کم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس گمبھیر صورتحال میں ہمارے سیاست دان اقتدار کی خاطر دست و گریباں ہیں۔ مسائل کے حل تینوں بڑی جماعتوں اور ان کے قائدین کو معلوم ہیں لیکن اس ضمن کوئی بولنے کو تیار نہیں کیونکہ ووٹ بینک پر منفی اثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ سری لنکا میں بھی راجہ پاسکا حکومت نے ووٹوںکی خاطر نئے ٹیکس نہیں لگائے تھے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved