الیکشن کمیشن کے پنجاب اور کے پی کے گورنرز کو لکھے گئے خطوط کے جواب میں گورنر حضرات نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے کہاہے کہ الیکشن ضرور ہوں گے لیکن اس وقت ریاست خطرے میں ہے۔ ایک طرف ان کا کہنا تھا کہ ہم 90 تو کیا70 دنوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کیلئے تیارہیں اور دوسری طرف وہ ''امن وامان‘‘ کو جواز بنا کر انتخابات کی تاریخ دینے سے گریزاں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اسمبلی کی تحلیل کے خلاف تھاتاکہ ارکان اپنے حلقوں کی نمائندگی کرسکیں، جب اسمبلی تحلیل ہوئی تھی تو اس وقت امن و امان کے حالات ایسے نہ تھے۔ کوئی گورنر صاحب کو بتائے کہ آئینی طور پر یہ منصب محدود کردار کا حامل ہے، اسمبلی کی تحلیل عوام کی منتخب کردہ اسمبلی اور حکومت کا استحقاق ہے‘ گورنر صوبے کے عوام کا نہیں‘ وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور آئینی طور پر اس کا کردار متعین ہے۔
میرے سامنے اس وقت آئینِ پاکستان کی سبز جلد والی دستاویز پڑی ہے، جس میں آرٹیکل 101 سے 105 تک میں گورنر کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 105 کہتا ہے کہ ''دستور کے تابع‘ اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں گورنر کابینہ (یا وزیراعلیٰ) کے مشورے (پر اور) اس کے مطابق عمل کرے گا‘‘۔اسی آرٹیکل کی ذیلی شق 3 یہ کہتی ہے کہ جب گورنر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر دے تو (الف) تحلیل کی تاریخ کے 90 دن کے اندر اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کرے، (ب) نگران کابینہ مقرر کرے۔ آئین پاکستان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پہلے اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر عام انتخابات کی تاریخ مقرر کی جائے گی اور پھر اس کے بعد نگران کابینہ کا تقرر کیا جائے گا۔ گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ دینے سے گریز کرتے ہوئے جو موقف اختیار کر رہے ہیں کہ چونکہ اسمبلی انہوں نے تحلیل نہیں کی‘ اس لیے وہ الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند نہیں ہیں، وہ بھی درست نظر نہیں آتا۔ اگر ان کے اس موقف کو درست مان لیا جائے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسے میں انہوں نے نگران کابینہ کا تقرر کیسے کیا‘ اس سے حلف کیسے لے لیا؟ اس حوالے سے سینئر قانون دان مبین الدین قاضی کی رائے ہے کہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نئے انتخاب کی تاریخ دیے بغیر اگر گورنر نگران کابینہ کا تقرر کردے تو اسے آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے کیونکہ مذکورہ آرٹیکل پہلے انتخابات کی تاریخ کا پابند کرتا ہے اور پھر اسی آرٹیکل کی کلاز(B) کے تحت نگران کابینہ کا تقرر کیا جا سکے گا۔
معروف ماہرِ قانون اعتراز احسن ایک قدم مزید آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آئین کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں‘ اگر تین ماہ میں الیکشن نہیں ہوتے تو تمام ذمہ داران پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوگی۔ اگلے روز ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ آئین میں 90 دن میں الیکشن کے انعقاد سے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے۔اس قانون کی تاریخ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں مختلف طریقوں سے الیکشن میں رکاوٹ ڈالی جاتی تھی جس کے بعد 1973ء میں الیکشن کرانے کے وقت کا باقاعدہ تعین کر دیاگیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 90 دن بعد نگران حکومت کا اختیار ختم ہوتا ہے اور اختیار ختم ہونے پر نگران سیٹ اَپ کے لوگ عہدوں پر نہیں بیٹھ سکیں گے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نگران حکومت سے متعلق نعمت اللہ خان کیس کا فیصلہ موجود ہے جبکہ 2018ء میں نگران حکومت پر موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک کیس کیا تھا جس نے کچھ ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کی تھیں، خواجہ آصف کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے‘ جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ نگران سیٹ اَپ حکومت نہیں چلاسکتا، یہ صرف الیکشن کرانے آتا ہے ۔
جہاں تک بات انتخابات کے التوا کی ہے تو یہ درست ہے کہ ضیاء الحق دور میں 1979ء میں جونیجو حکومت کو گرایا گیا تو نئے الیکشن کے لیے تقریباً 5ماہ دیے گئے تھے۔اسی طرح جب 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو شیڈول کے مطابق اگلے ماہ یعنی جنوری 2008ء میں عام انتخابات ہونے تھے لیکن بی بی کی شہادت کے بعد ملک کے حالات خراب ہو گئے جس پر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے الیکشن کو ڈیڑھ ماہ کے لیے موخر کیا گیا تھا اور18 فروری 2008ء کو عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ اگرچہ آرٹیکل 232 ہنگامی حالات کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے مگر یہ بات ہمارے سیاستدان اور قانون دان‘ سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس آرٹیکل کا نفاذ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔آج کے حالات کا کوئی موازنہ 2007ء کے حالات سے نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس وقت بی بی کی شہادت کے عظیم قومی سانحے کے بعد بھی الیکشن کی تاریخ میں محض چھ ہفتوں کا اضافہ کیا گیا تھا تو آج کے حالات تو اس دور کے مقابلے میں نہایت پُرامن ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا بھی کہنا ہے کہ آئین میں نگران حکومتوں کی توسیع کی گنجائش موجود ہے مگر یہ حالات پر منحصر ہے۔ انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی انتخابات چند ہفتوں سے زیادہ ملتوی نہیں ہوئے تھے، اور اب تو ایسے کوئی حالات نہیں ہیں۔ یہاں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی کے استعفے منظور کرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 64 نشستوں کے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے‘ کیا ان کے لیے ملکی حالات سازگار ہیں؟ ان کے حوالے سے ابھی تک کسی ایک فریق نے بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ۔' میٹھا میٹھا ہپ اورکڑوا کڑوا تھو‘ والی پالیسی اب نہیں چل سکتی۔ اس وقت پی ٹی آئی الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کے کردار کے حوالے سے بھی اعتراضات اٹھا رہی ہے۔ پی ڈی ایم سرکار پی ٹی آئی کے اعتراضات کا ٹھٹھہ اڑا رہی ہے۔ ان کی یاد دہانی کے لیے 16 جنوری 2008ء کو رائیونڈ میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے مطالبہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رانابھگوان داس کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا جائے۔ اسی روز ایک غیر ملکی سفیر نے بھی میاں صاحب سے رائیونڈ میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت بی بی کی شہادت کے باعث ملکی حالات کافی خراب تھے اور الیکشن تعطل کا شکار ہو چکے تھے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف کے ساتھ مسلم لیگ نواز نے بھی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا مگر پھر یکایک نواز لیگ نہ صرف الیکشن لڑنے پر آمادہ ہو گئی بلکہ میاں صاحب نے اعلان کیا کہ اگر فوری طور پر الیکشن کے شیڈول کا اعلان نہ کیا گیا تو مسلم لیگ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گی۔ بعدازاں 18 فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد بھی مسلم لیگ نواز کی جانب سے شکوک وشبہات کے اظہار کا ایک تسلسل جاری رہا۔ اگر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کیلئے ہر سیا سی جماعت نے اپنا الگ الگ پیمانہ مقرر کر رکھا ہے اور کسی بھی نگران حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہر ایک سیا سی جما عت کے نقطۂ نظر کو تسلیم کر کے اسے انتخابی عمل پر مطمئن کر سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال شروع نہیں کیا جاتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کی کئی سیاسی جماعتیں الیکشن مینجمنٹ کے حوالے سے ایک طویل تاریخ رکھتی ہیں۔ عام و ضمنی انتخابات میں ان کے کارناموں سے ملکی اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے حامی یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جو الیکشن کمیشن ایک فریق بن کر پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف مقدمے درج کرا رہا ہے‘ کیا وہ انتخابات کی شفافیت کی گارنٹی دے سکتا ہے۔یہ بڑی بدقسمتی ہو گی اگر دوبارہ انتخابی عمل پر سوالات اٹھے تو۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا ہو گا کہ موجودہ سیاسی تلخی کو کم کرنے کا سب سے آسان نسخہ شفاف اور پُرامن انتخابات کا انعقاد ہے، اگر اس حوالے سے ذمہ داریوں میں غفلت برتی گئی تو موجودہ سیاسی تقسیم مزید بڑھ جائے گی اور پھر عوامی غم و غصہ کس نہج کو چھونے لگے‘ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved