ہم کتنے زمانوں میں جیتے ہیں؟ کم از کم اور زیادہ سے زیادہ تین زمانوں میں۔ ایک تو وہ زمانہ ہے جس میں ہم جی رہے ہیں یعنی زمانۂ حاضر، لمحۂ موجود۔ دوسرا زمانہ وہ ہے جو گزر چکا ہے یعنی ماضی اور تیسرا زمانہ ابھی آیا ہی نہیں یعنی مستقبل۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ماضی میں جیتے ہیں یا پھر مستقبل میں۔ اور سچ یہ ہے کہ ہم اپنا بیشتر وقت گزرے ہوئے زمانے ہی میں گزارتے ہیں۔ ماضی کو ہم نے بہت سے خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ اِن خانوں میں ہم اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق قدم رکھتے ہیں۔ وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں، سالوں، عشروں اور صدیوں یا ہزاریوں کی شکل میں ہم اپنی سہولت کے لیے بانٹتے ہیں۔ وقت تو ایک دھارے کی طرح ہے۔ قدرت کے نظام میں ماضی ہے نہ مستقبل۔ بہر کیف‘ ہم اپنا بیشتر وقت ماضی میں گزارتے ہیں کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جو بھرپور مستحکم اور مستند شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ مستقبل تو ابھی آیا ہی نہیں اس لیے اُس کی کوئی بھی مستند تصویر ہمارے سامنے نہیں۔ ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ آنے والے زمانے میں کون سی چیز کیسی ہوگی۔ صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور ہمارے اندازوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ گزرے ہوئے زمانوں کا ریکارڈ ہمارے پاس ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کب کون سی چیز کس حالت میں تھی۔ جس زمانے کا سمعی و بصری ریکارڈ موجود ہے وہی زمانہ ہماری سمجھ میں آئے گا‘ اور وہی آتا ہے۔
موجودہ لمحے کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ یہ دنیا پل پل مستقبل سے ماضی کی طرف کھسک رہی ہے۔ جو لمحہ آتا ہے وہ گزرتے ہی ماضی بن جاتا ہے۔ ابھی ہم اُس لمحے کے سحر سے نکلے بھی نہیں ہوتے کہ نیا لمحہ آکر ماضی بن جاتا ہے۔ پوری سنجیدگی اور دیانت سے سوچئے تو زمانۂ حاضر یا لمحۂ موجود کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ یہ محض سراب ہے یا ہمارے ذہن کا مغالطہ ہے۔ کچھ دیر کے لیے ایک طرف بیٹھ کر ذرا گھڑی کی طرف دیکھیے۔ سیکنڈز (لمحات) گزرتے جاتے ہیں یعنی مستقبل سے آتے ہیں اور ماضی کی طرف چل دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ گھڑی نہ بھی ہو تو یہی ہوتا رہے گا۔ گھڑی تو ہم نے اپنی سہولت کے لیے بنائی ہے۔ اس کے بغیر بھی وقت کا کام گزرنا ہے‘ گزر جاتا ہے۔ جب گھڑیاں نہیں تھیں تب لوگ سورج کی روشنی سے وقت کا تعین کرتے تھے۔ زمین میں چھڑی یا ڈنڈا گاڑ کر اُس کے سائے کی مدد سے وقت کا تعین کیا جاتا تھا۔ گھڑی نے خاصی سہولت پیدا کی یعنی وقت کے درست تعین کی گنجائش پیدا ہوئی اور لوگوں کے لیے وقت کو اپنی سہولت کے مطابق خانوں میں بانٹنا ممکن ہوسکا۔ وقت کی تقسیم و تطبیق انسان کا ایک بنیادی معاملہ رہا ہے۔ جب اِس مرحلے سے گزرنا آسان ہوگیا تو بہت کچھ آسان ہوگیا۔
آج کا انسان عجیب دو راہے پر کھڑا ہے۔ بہت کچھ ہے جو اُس کی سمجھ میں آچکا ہے مگر جو کچھ سمجھ میں نہیں آسکا وہ کہیں زیادہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ بوجھ اس لیے ہے کہ حواس پر حملے تواتر سے ہو رہے ہیں۔ انسان بہت کچھ جاننا چاہتا تھا۔ ہزاروں سال سے اس کی خواہش تھی کہ دنیا کو جانے‘ سمجھے‘ پرکھے۔ اب ایسا ممکن ہوگیا ہے! ٹیکنالوجی کی ترقی نے سبھی کچھ ممکن بنادیا ہے۔ اس کے نتیجے میں زندگی کو آسان ہو جانا چاہیے تھا مگر جو کچھ ہوا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ زندگی مزید الجھ گئی ہے۔ یہ کوئی پسندیدہ صورتِ حال نہیں مگر کیا کیجیے کہ اب اِسی کیفیت کے ساتھ جینا ہے۔ ہم‘ کہنے ہی کو سہی‘ زمانۂ حاضر میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے میں جینے کا کچھ خاص حاصل نہیں اور آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے اور بہت زیادہ پُرامید ہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تو پھر کیا کیجیے؟ دانش کا تقاضا صرف یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں زیادہ نہ سوچا جائے۔ جن لمحات سے ہم گزر رہے ہیں وہ ہم سے بھرپور توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ اس میں غلط کچھ بھی نہیں۔ ہم سے ہمارا زمانہ ہی تو کوئی توقع رکھے گا۔ ماضی کو ہم سے کیا غرض اور مستقبل تو ہمیں جانتا بھی نہیں! اپنے زمانے سے انصاف کر پائیں گے تو ماضی شاندار ہوگا اور مستقبل بھی تابناک ٹھہرے گا۔
کیا مستقبل کو بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ یقینا! مستقبل کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا ہمارے بس میں نہیں مگر اس حوالے سے اپنے آپ کو تیار تو کیا جا سکتا ہے۔ آنے والے زمانے کے دامن میں ہمارے لیے کیا ہوگا یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہمارے دامن میں ایسا بہت کچھ ہوسکتا ہے جو مستقبل کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے میں ہماری بھرپور مدد کرے۔ ایک دنیا یہ کہتی ہے کہ ماضی کو درست نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی کے کسی بھی واقعے کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ کیا واقعی؟ دانش تو کچھ اور کہتی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے، درست رکھا جاسکتا ہے۔ بادی النظر میں ایسا کسی طور ممکن نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا اور بالکل ایسا ممکن ہے۔ ہم کس زمانے میں جی رہے ہیں؟ زمانۂ حال میں۔ یہ اصلاً مستقبل کا ماضی ہے۔ آج ہم جس کیفیت اور حالات و واقعات سے نبرد آزما ہیں کچھ مدت کے بعد یہی سب کچھ ماضی کہلائے گا۔ آج ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ مستقبل میں کہلائے جانے والے ماضی کا اثاثہ ہوگا۔ اگر آج ہم کوئی اچھا کام کریں گے تو مستقبل میں پایا جانے والا ماضی (یعنی آج کے زمانے) کا ریکارڈ بتائے گا کہ کچھ اچھا کیا گیا تھا۔ ہم اِس وقت ماضی میں نہیں جاسکتے مگر آنے والے زمانے کے ماضی کو ضرور بہتر بناسکیں گے۔ ماضی کو بہتر بنانے کا طریقہ یہی ہے۔
مستقبل کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جو کچھ بھی ہم اس وقت کریں گے اُس کے نتائج آنے والے دور میں سامنے آئیں گے۔ مستقبل کے لیے منصوبہ سازی بھی ناگزیر ہے اور اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کرنا بھی۔ آپ کا مستقبل صرف اور صرف آپ کا معاملہ ہے۔ ماضی کی صرف یادیں ہوتی ہیں۔ لمحۂ موجود عمل مانگتا ہے اور آنے والا دور چاہتا ہے ہم منصوبہ سازی کریں، اپنے معاملات کا بھرپور جائزہ لے کر ایسا لائحۂ عمل ترتیب دیں جس کے مدد سے زندگی کو زیادہ آسان بنانا ممکن ہو۔ مستقبل کے بارے میں سوچنا ہمارے مزاج کا حصہ ہے۔ ہم اس حوالے سے بالعموم تھوڑے سے متفکر یعنی پریشان رہتے ہیں۔ یہ بھی فطری امر ہے مگر محض پریشان ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ سوچ مثبت اور منظم ہونی چاہیے۔ اگر ہم محض پریشان ہوں تو اپنے موجودہ زمانے کو بھی بگاڑ لیں گے۔ مستقبل کے بارے میں محض پریشان ہونے سے کہیں بڑھ کر منصوبہ سازی کی طرف جانا چاہیے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ آج سے پانچ یا دس سال کے بعد دنیا کیسی ہوگی، ہماری اولاد کے لیے وہ وقت کیسا ہوگا، ہم خود اُس وقت کیسی جسمانی کیفیت کے حامل ہوں گے، کتنا کام کرسکیں گے، لوگوں سے تعلقات کس طور استوار رکھ سکیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
وہ زمانے تو کب کے جاچکے جب آنے والا دور زیادہ مختلف اور پریشان کن نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب ہر شعبہ تبدیل ہو رہا ہے۔ نئے پیشے سامنے آرہے ہیں۔ بہت سے پرانے پیشے رفتہ رفتہ دم توڑتے جارہے ہیں۔ ہنر مندی ضرور ہو مگر عصری تقاضوں کے مطابق۔ کسی کو جب کچھ نہیں سُوجھتی تو جنرل اسٹور کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ بھی کام ہی ہے مگر یہ کوئی کام نہیں۔ اس کے لیے کوئی ہنر نہیں سیکھنا پڑتا۔ گلی گلی جنرل سٹور کھلے ہوں تو منافع کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے اور لوگ اچھا خاصا سامان ڈال کر بھی اچھی طرح سٹور چلا نہیں پاتے۔ بعض پرانے پیشوں میں غیر معمولی مہارت بھی کسی کام کی نہیں۔ نئے زمانے کے نئے ہنر ہیں۔ آپ کا مستقبل اب تک محض خیال کا معاملہ ہے۔ اِس کے معمار آپ ہی تو ہیں۔ جو کچھ بھی آپ آج کریں گے وہ آپ کے مستقبل کی شکل اختیار کرے گا۔ آپ کو جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ آج کی غلطی کل کو بڑے نتائج کے ساتھ آپ کی الجھنیں بڑھاسکتی ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ پُراعتماد انداز سے آگے بڑھیے اور اپنے آپ کو آنے والے زمانے کے معمار کے طور پر دیکھیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved