پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد پر خود کش حملے نے ایک بار پھر پوری قوم کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے‘ سو سے زائد افراد جامِ شہادت نوش کر چکے اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں‘ان میں سے کتنے مکمل صحت یاب ہوں گے اور کتنے معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے‘ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ایک زخمی نوجوان کے ان الفاظ نے تو دلوں کو تڑپا کر رکھ دیا کہ میں اپنی ماں کا لاڈلا ہوں‘ میرے بعد اس کا حال کیا ہو گا؟وہ تو زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا لیکن سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ اس سانحے نے برسوں پہلے برپا ہونے والے آرمی پبلک سکول کے المیے کی یاد تازہ کر دی ہے۔یہ قیامت بھی پشاور ہی میں برپا ہوئی تھی‘16دسمبر2014ء کی صبح دہشت گردوں نے سکول پر حملہ کر کے طلبہ سمیت 140 افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اُس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے اور عمران خان اُن کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے تھے۔ معصوموں کے خون نے پاکستانی سیاست کا رخ بدل ڈالا‘ نواز شریف کی دعوت پر تمام سیاسی رہنما یکجا ہوئے اور دہشت گردوں کو کچلنے کے عزم کا اظہار کیا۔فوجی قیادت بھی ان کے ساتھ تھی‘ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘وہ تاریخ کا حصہ ہے۔دنیا بھر میں تشویش کا اظہار ہو رہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکے گا‘ (خاکم بدہن) یہ تک کہا جا رہا تھا کہ ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے قبضے میں آ جائیں گے‘ اسلام آباد پر ان کے حملے کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں‘پاکستان کے دشمن شادیانے بجا رہے تھے کہ آسمان اس مملکت پر گرا کہ گرا لیکن اس عفریت پر قابو پا کر دکھایا گیا‘قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھائی گئی‘ انسدادِ دہشت گردی کے محکمے منظم ہوئے‘فوجی جوانوں نے سر ہتھیلیوں پر رکھے‘ سیاسی رہنما یک آواز ہوئے‘ علماء نے بھی ان کا ساتھ دیا اور دیکھتے ہی دیکھے پاکستان امن کا گہوارہ بن گیا۔ ناممکن کو ممکن کر دکھایا گیا۔ اِکا دُکا وارداتیں تو ہوتی رہیں لیکن دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد صورتحال میں کچھ تبدیلی آئی‘طالبان حکومت یقین دلا رہی تھی کہ اس کی زمین پاکستان تو کیا کسی بھی ملک کے اندر دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو سکے گی۔ مذاکرات کا آغاز ہوا‘ تحریک انصاف کی حکومت نے افہام و تفہیم سے معاملات سنبھالنے کی کوشش کی‘کئی خاندانوں کو واپس پاکستان آنے کی اجازت دے دی گئی لیکن حالات معمول پر نہ آ سکے۔ یہاں تک کہ پولیس لائنز میں قیامت برپا ہو گئی۔
اب تحریک انصاف کی حکومت مرکز میں قائم ہے‘ نہ صوبے میں۔عمران خان کی جگہ شہباز شریف لے چکے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ محمود خان ''خود کش حملے‘‘ کی بدولت اقتدار سے باہر ہیں‘انہوں نے اسمبلی تحلیل کر کے صوبے کو قبل از وقت انتخابی بھٹّی میں جھونک دیا ہے‘ نیک نام سابق بیورو کریٹ اعظم خان نگران وزیراعلیٰ ہیں‘گویا صوبے اور وفاق میں مکمل ہم آہنگی ہے۔شہباز شریف حکومت کے ساتھ محمود خان حکومت کا کوئی باقاعدہ رابطہ نہیں تھا‘ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تو کیا‘ ایک دوسرے کی طرف سیدھی آنکھ دیکھنا بھی گوارا نہیں تھا‘اس سے حالات یقینا ابتر ہوئے لیکن یہ محض چند ماہ کا قصہ ہے۔گزشتہ کئی سال صوبائی حکومت تحریک انصاف کے سپرد رہی‘ اور کم و بیش چار سال عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے‘اس دوران وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہم شیر و شکر تھیں‘اس لیے صوبائی انتظامیہ نے اگر انسداد دہشت گردی کے محکمے کو نظر نداز کیا‘ تو اس پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیے لیکن اس وقت اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔جب گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو اُسے بجھانے پر توجہ دی جاتی ہے‘اس سوال میں اُلجھا نہیں جاتا کہ ماچس کس نے ایجاد کی تھی‘ جو آگ لگی ہے اُسے آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا‘ اس پر پانی ڈالنا ہو گا‘ اور سب کو مل کر ڈالنا ہو گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلایا تو اس میں تحریک انصاف کے نمائندے شریک نہیں ہوئے۔انہوں نے سات فروری کو اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس(اے پی سی) منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے‘اس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی‘ توقع کی جا رہی تھی کہ اے پی ایس کے سانحے کے بعد پیدا ہونے والی یکجہتی کی فضا دوبارہ دیکھنے کو ملے گی۔ تمام سیاسی رہنما قوم کے اجتماعی عزم کااعادہ کریں گے لیکن تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اعلان کر دیا ہے کہ اُن کی جماعت کو وزیراعظم کی دعوت قبول نہیں۔ عمران خان اس اے پی سی میں شریک نہیں ہوں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں‘اُس کے رہنمائوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے‘ ان پر بے بنیاد مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں‘ اس ماحول میں اے پی سی ایک ڈھونگ ہے۔اسد عمر ایک سنجیدہ اور ذمہ دار شخص ہیں‘ انہوں نے اپنے چیئرمین سے مشاورت کے بعد ہی اس بائیکاٹ کا اعلان کیا ہو گا۔ ان کے الزامات میں وزن ہو سکتا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جو گرفتاریاں ہوئیں اور جو مقدمات قائم ہوئے‘شہباز گل اور اعظم سواتی کیساتھ جس بدسلوکی کا ارتکاب کیا گیا‘ فواد چودھری کو جس طرح ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور ان کے منہ پر غلاف چڑھا کر انہیں جس طرح عدالت میں پیش کیا گیا‘ شیخ رشید پر جس طرح مقدمات قائم ہو رہے ہیں اور انکے قبضے سے جو رنگین بوتل برآمد کی گئی ہے‘ اس سب نے کشیدگی میں اضافہ کیا ہے اس پر احتجاج کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جا رہا ہے۔ تحریک انصاف تو کیا برسراقتدار جماعت کے کئی رہنمائوں نے بھی اس پر تنقید کی ہے لیکن ان واقعات کو بنیاد بنا کر اے پی سی میں شرکت سے انکار کرنے کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان طالبان سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں‘ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کے پی کی صوبائی حکومت بھی ان سے نرمی کا معاملہ کرتی رہی ہے۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر دہشت گردی کا ارتکاب کرنیوالوں‘ خون کی ہولی کھیلنے والوں کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے گئے تو اپنے سیاسی حریفوں کیساتھ مختلف معاملہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب تلاش کرنا ممکن نہیں ہے‘ اسلئے عمران خان اور ان کے سیکرٹری جنرل اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں‘ دل پر پتھر رکھ کر ہی سہی اے پی سی میں شریک ہوں اور موجودہ حکومت کے اقدامات پر جو بھی اعتراضات ہیں‘ اُنہیں اربابِ اقتدار کے سامنے براہِ راست بیان کریں۔ اے پی ایس کے سانحے کے بعد عمران خان کے ردعمل نے ان کے قد میں اضافہ کیا تھا‘ اب اُسے چھوٹا کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔
ڈاکٹرعامر لیاقت کہانی
بیدار مغز عالم دین اور کالم نگار پیر ضیاء الحق نقشبندی نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی کہانی کتابی شکل میں مرتب کی ہے۔اس میں اُن کا طویل انٹرویو‘ اُن کے اہلِ خانہ اور رفقا کے تاثرات شامل ہیں۔ ڈاکٹر مرحوم ایک باکمال شخص تھے۔ ٹیلی ویژن پر اپنے مذہبی پروگراموں کے حوالے سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ دلوں میں گھر بنایا‘ سیاست میں حصہ لیا‘ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ وزیر بنے‘ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ قومی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کریں گے لیکن خدا جانے کس کی نظر کھا گئی کہ وہ اُلجھنوں کی نذر ہوتے‘ لڑھکتے چلے گئے۔ ان کی المناک موت نے ہر شخض کو ہلا کر رکھ دیا۔اس عجب شخص کی غضب کہانی ضیاء الحق نقشبندی صاحب کی زبانی سنئے‘ اس کے لیے دعائے مغفرت کیجئے اور سبق بھی حاصل کیجئے ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے ''پراگندہ طبع‘‘ لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved