پیرپگاڑا صاحب نے جنرل ضیادور میں الگ ہی روحانی‘ سیاسی لیکن پرسرار شخصیت بنا لی تھی جس کا اپنا ہی چارم تھا۔
پیرپگاڑا نے اپنے والد کے انگریزوں کے ہاتھوں پھانسی لگنے کے بعد ایک سبق سیکھا تھا کہ پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو جس کے پائوں میں بوٹ‘سر پر ٹوپی اور بغل میں چھڑی ہے اس کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے۔یہی سبق بینظیر بھٹو نے اپنے باپ بھٹو کی پھانسی سے سیکھا تھا کہ امریکہ کے خلاف سٹینڈ نہیں لینا۔یہ سبق ان دونوں کے بہت کام آئے۔پیرپگاڑا پاکستان کے پہلے کنگ میکر بنے تو بینظیر بھٹو کو دونوں دفعہ امریکہ نے وزیراعظم بننے میں مدد دی۔تیسری دفعہ بھی امریکہ کی انہیں حمایت حاصل تھی لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا۔
پیرپگاڑا صاحب کے پاس ایسی پاور تھی کہ انہوں نے اپنے مرید محمد خان جونیجو کو جنرل ضیاسے وزیراعظم بنوا لیا۔ہمارے بزرگ صحافی دوست عارف الحق عارف تفصیل سے جونیجو کے وزیراعظم بننے کی کہانی لکھ چکے ہیں۔پیرپگاڑا صاحب کا اپنا انداز تھا جو اُن کی روحانی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا تھا۔ان کی کراچی کے صحافیوں سے خوب بنتی تھی۔ تانتا بندھا رہتا تھا۔صحافیوں کو پتہ تھا ان کے جنرل ضیاسے اچھے تعلقات ہیں اور فوجی حکام ان سے مشورے کرتے ہیں۔پیرپگاڑا کے پاس اندرونی خبریں ہوتی تھیں لیکن وہ سیدھے لفظوں کے بجائے اشاروں کنایوں میں بات کرتے تھے۔سمجھنے والا خود ہی سمجھ جائے۔یوں اس خبر میں سیاسی پراسراریت کا عنصر خبر کو چار چاند لگا دیتا تھا اور لوگ مرضی کا معنی نکال لیتے تھے۔ جھاڑو پھرنے والا ہے۔ بوٹوں کی گونج سن رہا ہوں۔ سب کچھ لپیٹ دیا جائے گا۔ جھرلو پھرے گا۔ یہ جملے بہت مشہور ہوئے‘ جن کا مطلب ہوتا تھا کہ سیاسی حکومتیں جانے والی ہیں اور فوجی جنرل آرہا ہے یا پھر نگران حکومت بنے گی جو الیکشن کرا کے نیا وزیراعظم لائے گی۔پیر پگاڑا صاحب روحانیت کے علاوہ آسٹرولوجی میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔مشہور آسٹرولوجر سے مل کر ڈسکشن کرتے تھے کہ آئندہ کیا ہوگا اور اپنے سیاسی فیصلے کرتے۔ملکی حالات بارے بھی پیشگوئیاں کرتے تھے‘ جو اکثر درست نکلتیں۔ جنرل ضیاکو سندھ سے بڑے سیاسی اور روحانی گھرانوں کی تلاش تھی تاکہ بھٹو کو دی گئی پھانسی کے اثرات کم ہوسکیں‘ لہٰذا انہوں نے پیرپگاڑا‘ محمد خان جونیجو اور الٰہی بخش سومرو کو اپنے قریب رکھا ہوا تھا۔
سندھ یا سنٹر میں حکومت بنانے کا وقت ہوتا تو اکثر بڑے لیڈر کنگری ہاؤس جا کر ان کی حمایت لیتے تھے۔پیرپگاڑا صاحب کسی کو بھی سپورٹ کرنے سے پہلے پنڈی کی طرف دیکھتے کہ ان کا رجحان کس طرف ہے۔پیرپگاڑا نے عمر بھر پنڈی کے خلاف جا کر سیاست نہ کی اور یہی ان کی کامیابی کی وجہ تھی۔ اسلام آباد میں پیرپگاڑاکی مشہور صحافی اورکالم نگار اظہر سہیل سے دوستی ہوگئی جنہیں وہ اندرونی خبریں دیا کرتے تھے۔اظہر سہیل نے دو تین بہترین کتابیں ان اداوار پر لکھیں‘ جیسے محمد خان جونیجو کے دور پر ''سندھڑی سے اوجڑی کیمپ تک‘‘۔اظہر سہیل نے ہی کالم نگاری کو نیا رنگ دیا تھا جب انہوں نے اپنے کالموں میں محلاتی سازشوں کی خبریں دینا شروع کیں۔اپنی خوبصورت کلاسک اردو اور اندرونی خبروں کی وجہ سے انہیں پڑھا جاتا تھا۔یوں ایک نیا ٹرینڈ بنا کہ سیاسی کالموں میں اندرونی خبریں بریک کرنی ہیں اور ساتھ یہ بھی لکھنا ہے کہ فلاں اہم بندے نے مجھے فون کیا‘یا رات گئے گھر بلا کر سرگوشی کی۔
پیرپگاڑا نہ رہے نہ ہی اظہر سہیل۔ یوں سیاست اور صحافت میں جو رنگ اور چسکا تھا وہ غائب ہوا اور سیاسی پیشگوئیوں کا جو دور چل رہا تھا وہ ختم ہوا‘جس پر سیاست اور صحافت کا رنگ پھیکا پڑا۔جگہ خالی پا کر پنڈی کے شیخ رشید نے چھلانگ لگائی کہ اس خلا کو پورا کیا جائے۔ وہ بھی پیرپگاڑا صاحب کی روایت پر چلتے ہوئے سگار منہ میں دبائے پنڈی والوں سے تعلقات بنانے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے خود کو گیٹ نمبر چار کا اکیلا چوکیدار ظاہر کر کے یوں بیانات دینا شروع کیے کہ انہیں سب پتہ ہے کہ گیٹ نمبرچار کے ذریعے رات کے اندھیرے میں کون کون ملنے جاتا ہے۔ وہ ایسے بیانات دے کر ظاہر کرتے جیسے وہ اس دور کے پیرپگاڑا ہیں۔ جنرل مشرف دور میں پانچ سال وزیر رہنے کے بعد ان کے فوج اور ایجنسیوں میں تعلقات بڑھ گئے تھے اور انہوں نے مرچ مصالحہ لگا کر پیشگوئیاں کرنا شروع کر دیں کہ یہ سال بڑا اہم ہے‘ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی۔ایوری ڈے از ناٹ سنڈے۔اب جھرلو پھرے گا۔ میں فوجی بوٹوں کی آہٹ سن رہا ہوں۔صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔کوئی نئیں بچے گا۔ بس اگلے تین ماہ اہم ہیں۔ چھ ماہ اہم ہیں۔پاکستان بھارت نیوکلیئر جنگ ہوتے دیکھ رہا ہوں۔سب برباد ہو جائے گا۔پیرپگاڑا کی سیاسی پیشگوئیوں کا وارث سمجھتے ہوئے شیخ رشید نے بھی پروفیسر غنی جاوید جیسے مشہور آسٹرولوجر سے چپکے چپکے پوچھنا شروع کر دیا تھا کہ آسمانی ستارے کیا کہتے ہیں۔مگرپیرپگاڑا کا دور آسان تھا کہ صرف اخبارات تھے اور ان کے چٹ پٹے تبصروں کا چسکا کبھی کبھار ہوتا تھا‘دوسرے وہ پوری انفارمیشن کی بنیاد پر پیشگوئی کرتے تھے۔شیخ صاحب جس دور میں پنڈی کے پگاڑا صاحب بننے کے کوششوں میں لگے ہوئے تھے وہ دور ٹی وی چینلز کا دور تھا جو بیس سال بعد چینل سکرین سے آگے بڑھ کر ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا تک آن پہنچا ہے۔اب یہاں روزانہ بھی نہیں بلکہ ہر منٹ نئی بات‘ نئی پیشگوئی کا دور ہے۔اب سوشل میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لیے آپ کو ہر لمحے بڑی بڑھک اور بڑی گالی کی ضرورت ہے ورنہ آپ بڑی جلدی irrelevant ہو جائیں گے۔عوام کو روزانہ سوشل میڈیا پر ایک ''لاش‘‘چاہیے ‘اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی مشہوری اور فالونگ برقرار رہے اور عوام بلے بلے کرتے رہیں۔
ٹی وی کی حد تک تو شیخ صاحب نے اپنا کام پروفیسر غنی جاوید کی مدد سے چلا لیا تھا‘ان سے دو تین سیاسی پیشگوئیاں لے کر انہیں پنڈی بوائے سٹائل میں سیاسی بڑھک اور تڑکا لگا کر وہ چلا دیتے تھے۔شیخ صاحب کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی چلی گئی خصوصاً نواز شریف دورِحکومت میں۔ہر اینکر ان کے ساتھ شو کرنے کے لیے لال حویلی کے باہر لائن میں کھڑا تھا کہ ریٹنگ چاہئے تھی۔شیخ صاحب کو بھی اپنی اہمیت اور ریٹنگز کا احساس تھا‘ لہٰذا وہ بھی اینکرز سے تکبر سے پیش آتے۔ کسی اینکرمیں جرأت نہ تھی کہ وہ شیخ صاحب سے ان کے مزاج کے خلاف سوال پوچھ لیتا۔اگر کوئی بھولے بھٹکے سے پوچھ بھی لیتا تو شیخ صاحب وہیں ڈانٹ دیتے اور اینکر معذرت خواہانہ منہ بنا لیتا کہ اگلے ہفتے پھر انٹرویو درکار تھا۔
شیخ صاحب کو یہ راز سمجھ میں آگیا تھا کہ لوگوں کو چٹ پٹی خبریں اور چسکے دار تبصرے چاہئے ہوتے ہیں‘لہٰذا انہوں نے باقاعدہ کچھ سکرپٹ رائٹر بھی رکھ لیے جو انہیں روز نئے نئے دلچسپ جملے اور جگت بازی ایجاد کر کے دیتے جو سُن کر لوگ جھوم اٹھتے اور شیخ صاحب ٹی وی سکرین پر چمکتے رہتے۔شیخ رشید کی سیاسی دکان بہت اچھی چل رہی تھی‘وہ شاید ریٹنگز میں پیرپگاڑا صاحب سے بھی آگے نکل گئے تھے۔نئی نسل تو شاید پیرپگاڑا کے نام سے واقف نہ ہوگی۔شیخ صاحب نے پیرپگاڑا کی پیشگوئی والی گدی تو سنبھال لی لیکن وہ پیرپگاڑا والی کلاس اور گُر بھول گئے کہ سب سے پنگا لینا ہے لیکن جہاں آپ چوکیدار ہیں وہاں مالکوں سے پنگا نہیں لینا۔شیخ صاحب گیٹ نمبر فور کی چوکیداری کرتے کرتے خود کو مالک سمجھ بیٹھے تھے۔شیخ صاحب کی آخری پیشگوئی تھی کہ فروری کا مہینہ اہم ہوگا۔کمال دیکھیں مہینہ شروع ہوتے ہی خود گرفتار ہو گئے۔ برسوں بعد پہلی دفعہ کوئی پیشگوئی پوری ہوئی تو وہ بھی شیخ صاحب کی اپنے بارے میں کہ فروری میں کچھ بڑا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved