تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-02-2023

تین بیانیوں کی وفات حسرتِ آیات … (2)

حالیہ دوچار برسوں میں جن تین بیانیوں کی وفات مبارک وقوع پذیر ہوئی ہے ان میں ایک بیانیہ تو یہ تھا کہ عمران خان بااصول سیاستدان ہیں‘ دوسرا بیانیہ تھا کہ میاں شہباز شریف نہایت ہی عمدہ منتظم اور حکمران ہیں اور تیسرا دھوم مچاتا ہوا بیانیہ تھا کہ اسحاق ڈار غضب کے معاشی ماہر اور کمال کے وزیر خزانہ ہیں۔ الحمد للہ ہماری آنکھوں کے سامنے ان تینوں بیانیوں کی وفات واقع ہوئی ہے البتہ کریا کرم کے بارے میں یہ عاجز خاموش ہے۔
قارئین! آپ نے یہاں تک تو جیسے تیسے یہ کالم پڑھ لیا ہے تاہم میری طرف سے ان تمام لوگوں کیلئے انتباہ ہے کہ اگر وہ اپنے درج بالا لیڈروں کو انسان سمجھنے کے بجائے مسیحا اور لیڈر کے بجائے دیوتا سمجھتے ہیں تو اگلی ساری تحریر آپ کیلئے نہیں ہے۔ عقیدت عقل کو کھا جاتی ہے لہٰذا عقیدت مند سیاسی کارکنان عرف سیاسی غلام زادے بقیہ کالم پر چار حرف بھیجیں اور اپنی مرضی کی کسی تحریر سے دل بہلائیں۔ اگر وہ اس تحریر کو مزید پڑھتے رہے تو اس کا ردعمل دو صورتوں میں ظاہر ہوگا‘ پہلا یہ کہ ان کا دل ٹوٹ جائے گا دوسرا یہ کہ وہ نتیجتاً اس عاجز کو گالیاں نکالیں گے۔ یہ فقیر تو خیر سے پھولوں کی اس برسات کا عادی ہو چکا ہے مگر ان کے اخلاق پر جو برے اثرات پڑیں گے مجھے اس کی فکر لاحق ہے۔
بیانیہ نمبر ایک یہ ہے کہ عمران خان اصول پسند سیاستدان ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اصول پسندی کی پہلی شرط ایفائے عہد اور قول و فعل میں یکسانیت ہے جس کا عمران خان صاحب سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ انہوں نے اس قوم کو برسوں تک جن اعلیٰ فضائل اور عمدہ اخلاقیات کا درس پڑھایا تھا خود اقتدار میں آئے تو اپنی ایک ایک بات کو چن چن کر خود ہی رد کیا اور ہر وہ کام کیا جس کو بیان کر کے انہوں نے قوم کو اپنا والہ و شیدا کیا اور خود کو ایک مختلف شخص کے طور پر پیش کیا۔ لیکن یہ سب کچھ صرف اس وقت تھا جب تک وہ لیلائے اقتدار کی تگ و دو میں مصروف تھے اور ٹی وی کے پروگرامز میں بیٹھ کر ہمیں یورپ کی مثالیں‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار پر بھاشن اور پاکستان پر مسلط چوروں ڈاکوؤں کے قصے سنایا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ جیسے آسانی سے کسی بات پر اعتبار نہ کرنے والے شخص کو بھی اپنی چکنی چپڑی باتوں اور مستقبل کے سنہرے خوابوں میں زبانی کلامی بھری جانے والی رنگ آمیزی سے متاثر کر لیا۔ ان کا سب سے بڑا فریب تو یہ تھا کہ ان کے پاس ایک نہایت تجربہ کار اور مخلص ٹیم موجود ہے جو ملک کو درپیش تمام تر مسائل کا نہ صرف ادراک رکھتی ہے بلکہ ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے اس سے نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال بھی ہے اور ا س کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ بلا سوچے سمجھے ملک کے مسائل کو سو دن کے اندر دور کرنے‘ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے‘ بدعنوانوں سے کرپشن کی رقم وصول کرنے‘ شخصیات کو تحفظ دینے کے بجائے اداروں کو مضبوط کرنے اور ملک کو دیمک کی طرح کھانے والی اقربا پروری سے نجات دلانے کے وعدوں کا ان کے پونے چار سالہ دورِ حکومت میں جو حشر ہوا یہ سب کو معلوم ہے۔ ہاں! اگر کوئی خان صاحب کی اندھی تقلید اور بے پایاں عقیدت میں مبتلا ہے تو اس سلسلے میں دلائل بے فائدہ اور ثبوت بیکار سی چیز کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
قوم کو لارا لگایا کہ وہ اصولوں پر سودے بازی نہیں کریں گے اور کرپٹ لوگوں سے اتحاد کرنے کے بجائے حکومت سے باہر رہنا پسند کریں گے۔ انہوں نے پنجاب اور مرکز میں حکومت سازی کیلئے خود کے اعلان کردہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو چودھری پرویز الٰہی کو پہلے پنجاب کا سپیکر اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ ان کے فرزند ارجمند مونس الٰہی کے بارے میں پیدا گیری کے ایسے قصے تھے کہ خدا کی پناہ۔ کجا یہ کہ خان صاحب اس کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے کجا یہ کہ اسے وفاقی وزارت عطا کر دی۔ ہاں! ایک سب سے اہم بات جو میں بھول گیا تھا وہ یہ کہ ان کا گزشتہ دو عشروں سے سب سے مقبول بیانیہ تھا کہ ملک کی بربادی کا واحد سبب یہ ہے کہ نااہل لوگوں کو ان عہدوں پر بٹھایا گیا ہے جس کے وہ اہل نہ تھے۔ ان کا نعرہ تھا کہ وہ Right person at right jobکا کلچر لے کر آئیں گے۔ اپنے اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو گیارہ کروڑ سے زیادہ آبادی کے حامل صوبہ پنجاب پر جو دنیا کے صرف تیرہ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک سے نیچے ہے یعنی محض صوبہ ہو کر بھی دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چودہواں سب سے بڑا خطہ ہے اس پر عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ کے طور پر مسلط کر دیا۔ درست جگہ پر درست شخص کی تعیناتی کے تصور کا جس طرح جنازہ خان صاحب نے نکالا کم از کم پاکستان میں اس کی دوسری مثال ملنا ناممکن ہے۔
ہمیں بھاشن سناتے رہے کہ ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔ قوم ان کی دل افروز اور متاثر کن تقاریر سے متاثر ہو کرچشم تصور میں ان کو سائیکل پر سواری کرتے دیکھنے لگ گئی مگر جب وہ وزیراعظم بنے تو ہیلی کاپٹر کو رکشے کی طرح استعمال کرنے لگ گئے۔ ہیلی کاپٹر کو ایسا ٹکے ٹوکری کیا کہ میاں نواز شریف کیلئے ہیلی کاپٹر پر سری پائے ڈھونے کی کہانیاں بھی معمولی لگنے لگ گئیں۔
جب پینتیس پنکچر فیم (خان صاحب کے مطابق) نجم سیٹھی کو میاں نواز شریف نے پی سی بی کا چیئرمین مقرر کیا تو خان صاحب نے فرمایا کہ بھلا وزیراعظم کا کیا کام ہے کہ وہ پی سی بی کا چیئرمین مقرر کرے۔ لوگوں نے ان کی اس بات پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے اور جب خان صاحب خود وزیراعظم بنے تو قبلہ رمیز حسن راجہ کو پی سی بی کا چیئرمین مقرر فرما دیا۔ دو عشرے تک لوٹوں کو برا بھلا کہتے رہے اور لوٹوں کے ذریعے حکومت بنانے والوں کو سیاسی اخلاقیات سے عاری قرار دیتے رہے جب خود لوٹوں کے کندھوں پر چڑھ کر حکومت بنائی تو لوٹوں کو قبول کرنے کی حکمت عملی کو مخالفین کی وکٹیں اڑانے جیسی اصطلاح سے جوڑ کر خوشی کے شادیانے بجائے۔ کرپٹ لوگوں کی مدد سے حکومت بنانے پر لعنت بھیجنے کے اعلانات کے بعد چن چن کر بدعنوان افراد کو ٹکٹیں عطا کیں اور اسے الیکٹ ایبلز کا معزز نام عطا فرمایا۔
مقتدر اداروں کے سربراہوں کو ایکسٹینشن دینے کے معاملے پر بڑے شد و مد اور زور و شور سے فرمایا کہ وہ کبھی کسی کو ایکسٹینشن نہیں دیں گے اور نہ صرف ایکسٹینشن دی بلکہ وزارت عظمیٰ سے اپنی فراغت کا سارا ملبہ اور الزام بھی اسی ایکسٹینشن یافتہ شخصیت پر ڈالا اور پھر اسی کو دوسری بار ایکسٹینشن کی آفر بھجوا دی۔ میرے موبائل فون میں ایک کلپ محفوظ پڑا ہے جس میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر انہیں حکومت مل گئی اور اسے چلانے کیلئے انہیں آزادی اور اختیار نہ ملا تو وہ اگلے ہی روز حکومت چھوڑ دیں گے لیکن وہ اختیارات اور آزادی نہ ملنے کے باوجود پونے چار سال حکومت سے چمٹے رہے اور جب انہیں فارغ کر دیا گیا تو وہ قوم کو بتانے میں جٹ گئے کہ ان کے پاس رتی برابر اختیارات نہیں تھے۔ فلاں کام بھی اوپر والوں نے کیا اور فلاں بندہ بھی انہوں نے لگایا۔ فلاں پوسٹنگ بھی محکمہ زراعت نے کی اور فلاں فیصلہ بھی اوپر سے نازل ہوا۔ بندہ پوچھے جب سب کچھ فرشتے کر رہے تھے تو آپ وہاں دھنیا گھوٹ رہے تھے؟ایسے اقتدار پر لات مارتے اور عوام میں آ جاتے۔ جب فارغ ہو گئے تو سارا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا۔ اب وہ قوم کو مسلسل یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ انہیں کس نے نکالا ہے۔ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لگے ہاتھوں وہ قوم کو یہ بھی بتا ہی دیں کہ انہیں کون لایا تھا اور کیسے لایا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved