تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     05-02-2023

کسی کا باپ، کسی کا بھائی

ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے ۔ ایک معمر‘ سفید داڑھی والا پولیس اہلکار کراچی کی ایک مصروف سڑک پر چاندی رنگ کی ایک گاڑی کو روکے ہوئے ہے ۔کیوں روکے ہوئے ہے ؟یہ ویڈیو میں معلوم نہیں ہورہا لیکن اس کے جملوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ گاڑی کو چالان کے لیے روکا گیا ہے ۔عورت گاڑی سے نکلتی ہے اور پولیس والے کو گاڑی کے سامنے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ پولیس والا نہیں ہٹ رہا۔اس کا اصرار ہے کہ گاڑی کا چالان ہوگا۔وہ اس سے بدتمیزی سے پیش آتی ہے۔جو بھی گاڑی چلا رہا ہے‘اسے پولیس والے کی پروا کیے بغیر گاڑی کو آگے بڑھانے کی ہدایت دیتی ہے ۔ساتھ ساتھ کچھ دھمکی آمیز جملے بھی بول رہی ہے ۔ایک آدھ جملے سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر اس کا شوہر ہے ۔پولیس والا نہیں ہٹتا‘تکرار ہوتی رہتی ہے‘ کچھ لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں ‘پولیس والا انہیں بتاتا ہے کہ اس خاتون نے اسے بے شمار گالیاں دی ہیں ۔بات بڑھتی ہے ‘وہ پولیس والے کو دھکے بھی دیتی ہے اور ایک تھپڑ بھی اس کے منہ پر رسید کرتی ہے ۔ویڈیو میں یہ نظر نہیں آرہا کہ پولیس والے نے جوابی طور پراس کو مارا ہو‘وہ تھپڑ کھانے کے بعد بھی چالان پر اصرار کررہا ہے اور راستے سے نہیں ہٹتا۔ویڈیو اسی تنازعے کے بیچ ختم ہوجاتی ہے اور دل پر ایک گہری لکیر کھینچتی ہے اور یہ لکیر کھنچتی ہی چلی جاتی ہے۔
یہ کون خاتو ن ہے؟یہ کیا کرتی ہے ؟اس کی تعلیم کیا ہے؟ یہ کون سے ادارے سے تعلیم لے کر آئی ہے؟یہ کون سے گھرانے کی تربیت یافتہ ہے ؟کچھ پتہ نہیں لیکن یہ پتہ ہے کہ وہ پولیس اہلکار سے زیادہ مالدار ہے اس لیے کہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی ہے اور پولیس والے کی یہ استطاعت نہیں۔یقین ہے کہ وہ پولیس والے سے زیادہ تعلیم رکھتی ہوگی کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہوتا تو سڑکوں پر تھپڑ نہ کھارہا ہوتا اور مٹی نہ پھانک رہا ہوتا۔وہ تو بس ایک معمولی سا پولیس والا ہے جسے قانون پر عمل درآمد کی ذمے داری دی گئی ہے اور اس کے عوض اسے مہینے کے شروع میں جو رقم ملتی ہوگی اس سے وہ اپنی اسی کی عمر کی یا اس سے کم عمر بیٹیوں کو تعلیم دلاتا ہوگا یابچے پالتا ہوگا۔اس کو یہ پتہ ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ اسے یہ غرہ ہے کہ اسے یہ پولیس والا کچھ کہہ نہیں سکتا۔وجہ یہ کہ ایک تو وہ گاڑی سے اتری ہے اور یہ پیدل انسان ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے قریبی عزیزاعلیٰ عہدے دار ہیں۔ تیسرے یہ کہ اس کے پاس وہ طاقتور کارڈ ہے جسے اس معاشرے میں بڑی طاقت حاصل ہے ۔اسے عورت کارڈ کہتے ہیں۔ اسے یقین ہے کہ اس عورت کارڈ کے ہوتے ہوئے نہ اسے کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے‘نہ کوئی بدتمیزی کرسکتا ہے ۔ نہ کوئی روک سکتا ہے۔جب کوئی روک ہی نہیں سکتا تو ان طاقتوں کے ہوتے ہوئے اس معمولی پولیس والے کی کیا حیثیت ہے ۔اس کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اس کا چالان کرے اور اس کی گاڑی کے سامنے کھڑا ہوجائے۔
ویڈیو ایک گہری لکیر دل پر کھینچتی چلی گئی ۔جیسے تیز دھارشیشے کا کوئی نوکیلا ٹکڑا دل چیرتا چلا جائے ۔ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ دل زخمی ہوجائے ‘ خون بہتا رہے لیکن نظر نہ آئے
یہ زخم وہ ہے کہ جس کو دکھانا مشکل ہے
ٹپک رہا ہے مسلسل مرا لہو مجھ میں
یہ باریش پولیس والا اس کے باپ کی عمر کا ہوگا۔ممکن ہے ویڈیو سے باہرکچھ غلطی اس کی بھی ہو۔گاڑی کو غلط روکا ہو‘لیکن یہ سب امکان ہیں ‘یقینی نہیں ۔یقینی تو وہ تھپڑ اور وہ دھکے ہیں جو اس خاتون کی طرف سے دئیے گئے ہیں۔کسی بھی صورت میں ان کی کوئی تاویل کی جاسکتی ہے؟کوئی جواز دیا جاسکتا ہے؟ کوئی دفاع کیا جاسکتاہے؟ہم خود بھی کئی بار پولیس اہلکاروں کے غلط رویے کا شکار ہوتے ہیں۔تنگ ہوتے ہیں اور تکرار کرتے ہیں لیکن...
اور یہ لیکن بہت بڑا لیکن ہے ۔میں سمجھتا ہوں یہ ایک عورت ان ہزارہا عورتوں کی ترجمان اور نمائندہ ہے جو اس معاشرے میں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں ۔ وہ عورتیں جو عورت کارڈکو اپنی بڑی طاقت سمجھتی ہیں ۔ اسے کھیلتی ہیں ‘کامیاب ہوتی ہیں ۔پھر کھیلتی ہیں ‘پھر کامیاب ہوتی ہیں۔اور ان مثالوں سے ایک اور نیا عورت کارڈ جنم لیتا ہے۔ اگر آپ ان مثالوں کا جائزہ لیں جو اسی قبیل کی ہیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ عورتیں پسے ہوئے طبقات سے تعلق نہیں رکھتیں۔یہ مزدور‘گھریلو ملازمائیں ‘کھیتوں میں کام کرتی عورتیں نہیں ہیں ۔ یہ پڑھی لکھی ‘سمجھ دار خواتین ہیں اور بیشتر صورتوں میں آسودہ گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
کیا یہ عورت ذہنی مریضہ ہے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ نہیں ۔ البتہ یہ اس ذہن کی مالک ضرور ہے جو اپنے عورت ہونے کو کیش کرواتا ہے اوراس معاشرے کے حالات کو بھانپتے ہوئے اس سے اپنے فائدے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔معاشرے کا بڑامسئلہ وہ ذہنی‘جنسی اور جسمانی گھٹن ہے جو مرد اور عورت دونوں کو بھگتنا پڑتی ہے ۔کوئی شک نہیں کہ روایتی معاشرے کی وجہ سے بہت سی خواتین اس گھٹن کے اثرات زیادہ بھگتتی ہیں ۔لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اسی روایتی معاشرے کی وجہ سے انہیں وہ بہت سی فضیلتیں اور سہولتیں بھی مل جاتی ہیں جو برابری کی بنیاد پر نہیں مل سکتیں اور دوسرے معاشروں میں نہیں ملتیں۔ یہ مخصوص ذہن کی خواتین عورت کی برابری کا مطلب عورت کی برتری سمجھتی ہیں ۔ زبان درازی اور بدتمیزی کا استحقا ق سمجھتی ہیں اور زبانی اور عملی بدتمیزی سے اپنی انا کا تسکین کرتی ہیں ۔اور جہاں مرد عورت کی اس برابری میں انہیں اپنا نقصان نظر آرہا ہوتا ہے وہاں برابری کا یہ نعرہ بھی انہیں یاد نہیں آتا۔میں اس معاشرے کا تو حصہ ہوں ہی ‘ کم و بیش 15سال سے سوشل میڈیا پر بھی ہوں۔روز سوشل میڈیا پر اس ذہن کی مخصوص خواتین کی طرف سے یہ شور بپا ہوتا ہے اور وہ چیخ و پکار سے زمین آسمان ایک کیے رکھتی ہیں کہ ہمارے ساتھ عورت ہونے کی وجہ سے مردوں کی طرف سے فلاں نامناسب سلوک کیا گیا ہے یا برے پیغامات بھیجے گئے ہیں۔میں نے غور کیا کہ کچھ خواتین کے ساتھ ہی یہ مسلسل کیوں ہوتا ہے ؟باقی خواتین کے ساتھ کیوں نہیں ؟میں قلم کار برادری سے تعلق رکھتا ہوں اور ایک زمانہ اس میدان میں گزار چکا ہے۔ بے شمار باہنر باوقار خواتین اسی میدان میں ہیں ۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہیں اس معاشرے‘ اس ملک میں کسی نے احترام کی نظر سے نہ دیکھا ہو اور ان کی عزت نہ کی ہو۔ یہ بات آج بھی سچ ہے کہ عزت اپنے عمل سے کروائی جاتی ہے‘شور اور چیخ پکار سے نہیں کروائی جاسکتی ۔
وزیر اعظم شہباز شریف! وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صاحب!وزیر اعلیٰ سندھ مراد شاہ صاحب !آئی جی سندھ غلام رسول میمن صاحب‘ صوبائی ہائی کورٹس اور عدالت عظمی ٰ‘ یہ بزرگ پولیس اہلکار آپ کا بھی تو کچھ لگتا ہوگا۔ کم از کم سینئر ماتحت۔کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ اس نے یہ تھپڑ سب حکومتوں کو اور پورے پولیس محکمے کو مارا ہے۔کیا اس غریب کا یہی قصور ہے کہ وہ غریب اہلکار ہے ؟کون اس کا نوٹس لے گا؟اس بزرگ پولیس والے کے ساتھ کون کھڑا ہوگا؟پورا معاشرہ اس کے ساتھ کھڑا ہے؟آپ کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved