ہر زبان خوبصورت ہے لیکن اردو زبان میری پسندیدہ ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ‘ اپنے گرد ادبی ماحول دیکھا۔ خود بھی دورِ طالب علمی میں کئی ادبی سوسائٹیوں کا حصہ رہی۔ میری والدہ نے میری اردو بہتر بنانے پر بہت کام کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انسان کو سب سے پہلے اپنی قومی زبان پر عبور ہونا چاہیے۔ اس میں لکھنا پڑھنا آنا بہت ضروری ہے۔ اردو کو بانیٔ پاکستان قائداعظم کی حمایت و تائید بھی حاصل رہی۔ اس بات کا ثبوت بانیٔ پاکستان کے 24مارچ 1948ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں کیے جانیوالے خطاب سے ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا ''میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو‘ اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی‘‘۔ اپنی اسی افادیت کی وجہ سے تحریک آزادی کی جدوجہد کے دوران بھی اردو نے اہم کردار ادا کیا۔ اردو تحریک آزادی کی رابطہ زبان تھی۔ سر سید احمد خان‘ علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر‘ حسرت موہانی‘ مولانا ظفر علی خان نے اردو کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ چونکہ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد فارسی زبان ختم ہوتی جارہی تھی‘ اس لیے مسلمانانِ ہند نے اردو کا سہارا لیا۔ اردو ہندی تنازعے نے بھی دو قومی نظریے کو جلا بخشی‘ تحریک آزادی کے اکابرین نے اردو کے تحفظ کے لیے بھی بھرپور جہدوجہد کی۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے جلسوں میں اردو زبان میں خطاب کیے جاتے اور خط و کتابت کیلئے بھی یہی زبان استعمال کی جاتی۔
جب مسلمانوں کا قدم ہندوستان میں پڑا تو وہ اپنے ساتھ اپنی مختلف زبانیں یعنی عربی‘ فارسی اور ترکی بھی لائے۔ فاتح اور مفتوح قومیں جیسے جیسے شیر و شکر ہوتی گئیں ‘ دونوں کی زبانیں بھی خلط ملط ہونا شروع ہوئیں ‘ جس کے نتیجے میں ایک نئی زبان وجود میں آئی جیسے ہندی‘ ہندوی‘ ریختہ‘ ہندوستانی اور پھر اردو کا نام دیا گیا۔ چند آخری مغلوں بادشاہوں کے ادوار میں اس زبان کی خوب ترویج ہوئی اور ادب کے شاہکار سامنے آئے۔ اٹھارہوں اور انیسویں صدی میں اردو ادب میں تخیلق ہونے والی شاعری‘ افسانے‘ قصیدے اور مرثیے آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اردو کی تاریخ کی طرف دیکھیں تو امیر خسرو‘ بھگت کبیر‘ محمد قطب‘ ولی محمد‘ میر تقی میر‘ نظیر اکبر آبادی‘ شاہ نصیر‘ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر‘ حیدر علی‘ ذوق‘ مرزا غالب‘ مومن خان مومن‘ میر ببر انیس‘ امیر مینائی‘ داغ دہلوی‘ الطاف حسین حالی‘ اکبر الہ آبادی‘ سائل دہلوی‘ جگر مراد آبادی‘ صدیق امروہوی‘ جوش ملیح آبادی نے اپنی زندگی اردو کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ ان کی تخلیقات آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ اس کے علاوہ حفیظ جالندھری‘ چراغ حسن حسرت‘ ساغر نظامی‘ ناصر کاظمی‘ کیفی اعظمی‘ امید فاضلی‘ ساحر لدھیانوی اور دیگر نے اپنی شاعری سے اردو کو خوبصورت کلام دیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد حبیب جالب‘ منیر نیازی‘ ابن انشا‘ احمد فراز‘ جون ایلیا‘ افتخار عارف‘ انور شعور‘ امجد اسلام امجد‘ بشیر بدر‘ ضمیر جعفری‘ فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر شاعری کے بڑے ناموں کے طور پر ابھرے۔ اردو میں شاعری صرف مجازی عشق تک محدود نہیں رہی بلکہ حمد‘ نعت‘ منقبت‘ مرثیے اور نوحے بھی لکھے گئے۔ شاعری میں جن اصناف پر کام کیا گیا‘ ان میں نظم‘ غزل‘ مثنوی‘ مدح اور قصیدہ قابلِ ذکر ہیں۔اگر ہم افسانہ نگاری کی طرف دیکھیں تو سعادت حسن منٹو‘ احمد ندیم قاسمی‘ کرشن چندر‘ ممتاز مفتی‘ عبد اللہ حسین‘ شوکت تھانوی‘ خدیجہ مستور‘ رضیہ بٹ‘ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘ ہاجرہ مسرور اور دیگر افسانہ نگاروں نے افسانہ نگاری کو جلا بخشی۔ شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ اردو میں لکھے گئے ناول‘ سفرنامے‘ مضمون‘ خود نوشت‘ مراسلے اور انشائیے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے ساتھ اردو صحافت بھی اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
اس وقت بھی اردو سے پیار کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ نئی نسل میں بھی کچھ نام اس حوالے سے کام کررہے ہیں‘ ان کا تعلق صحافت‘ شوبز‘ ادب اور شاعری سے ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن سرکاری طور یہ مکمل رائج نہیں۔ دفتروں میں انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ناخونداگی کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اردو پڑھ لکھ نہیں پاتے تو انگریزی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس وقت پوری قوم کو اس دوڑ میں لگا دیا گیا ہے کہ وہ انگریزی لکھیں‘ بولیں تاکہ وہ ماڈرن کہلائیں۔ یہاں یہ تاثر یہ پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو اردو یا علاقائی زبانیں بولتے ہیں‘ وہ پینڈو ہیں۔ میرے نزدیک پینڈو ہونا باعثِ فخر ہے۔ کسی بھی شخص کا پنڈ‘ گاؤں اس کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میرے نزدیک علاقائی زبانیں لوگوں کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں عجیب رواج پیدا ہورہا ہے‘ اردو کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ اردو بولنے والوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے‘ اگر پاکستان میں یہی سب ہوتا رہا تو ایک صدی بعد یہاں سے اردو اور علاقائی زبانیں متروک ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اس لیے ہمیں اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کو فروغ دینا ہوگا۔ پچھلے دنوں کراچی میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب نارتھ ناظم آباد کے ایک سکول میں ایک طالب علم کے اردو بولنے پر استاد نے اس کے منہ پر سیاہی مل دی۔ مجھے اب بھی یہی لگتا ہے کہ ہم اب تک انگریز اور انگریزی کے غلام ہیں۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا اور ہمارے قائد نے اردو زبان کو ہمارے لیے منتخب کیا اور آج ہمارے ملک میں بچوں کو سزا دی جاتی ہے کہ وہ اردو کیوں بول رہے ہیں۔جب مذکورہ سکول کی اس پالیسی پر ہر کسی نے تنقید کی تو اس استاد کو سکول سے نکال دیا گیا ۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ اس سکول کی رجسٹریشن بھی معطل کردی گئی ہے۔ اس بچے کے والد نے میڈیا کو بتایا کہ اردو بولنے کی وجہ سے ان کے بیٹے کہ منہ پر سیاہی ملی گئی اور دیگر بچوں کو کہا گیا کہ وہ اس پر ہنسیں۔ پہلے تو یہ معاملہ دبا رہا لیکن جب یہ سوشل میڈیا پر آیا تو ایک کمیٹی بن گئی‘ استاد کو سکول سے نکال دیا گیا۔ یہ ہر سکول کا معاملہ ہے‘ ہم انگریزی کو لے کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو احساسِ محرومی سے بھرا مستقبل دے رہے۔ اگر اردو ہم اس ملک میں نہیں بول سکتے تو کہاں بولیں گے۔ سکول انتظامیہ کا کہنا ہے یہ استادکا اپنا فعل تھا‘ یہ سکول کی پالیسی نہیں۔ ان کے سکول میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ بچوں کو مارنا یا ان کو سزا دینا‘ ان کو سب کے سامنے شرمندہ کرنا‘ ان کا مذاق اڑانا ایک سنگین جرم ہے۔ اس کے بہت بھیانک اثرات بچے کے آنے والے کل پر مرتب ہوتے ہیں۔اس لیے اس پر سزا مقرر ہونی چاہیے‘ کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ سکولز انتظامیہ کو اس کمپلیکس سے باہر آنا چاہیے کہ اردو بولنے والے کم تر ہیں اور انگریزی بولنے والے برتر ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے‘ ہم سب برابر ہیں۔ رنگ‘ نسل‘ زبان سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ جب تک سرکاری طور پر اردو رائج نہیں ہوتی‘ یہ سب ہوتا رہے گا۔
اقبال اشہر نے کیا خوب کہا؛
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
قومی زبان و ادب کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے وطن سے محبت کرنے والے‘ اپنی زبان اور ادب سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان سے محبت ترک کردیں گے تو ہماری بہت سی روایات دم توڑ جائیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved