تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     05-02-2023

سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے

بابا بلھے شاہ کی کچھ پنجابی شاعری آپ کی نذرہے۔ پنجابی سمجھنے والے تو اس شاعری کا مطلب آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور جو پنجابی نہیں سمجھتے‘ اُن کے لیے ہم اردو ترجمہ کردیں گے۔ باباجی کہتے ہیں؛
باہروں دھوتے لتاں گوڈے، اندرے رہی پلیتی
کناں نوں ہتھ لائے پہلاں، فیر نماز تاں نیتی
تیرا دل کھڈاوے منڈے کڑیاں، سجدے کرے مسیتی
دنیا دارا! رب دے نال وی، چار سو وی تاں کیتی
(باہر سے تو تم نے جسم دھو لیا لیکن اندر کی میل صاف نہ کر سکے۔ پہلے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہو اور پھر نماز کی نیت باندھتے ہو۔ تمہارے دل میں تو دنیا داری کے خیالات گردش کرتے رہتے ہیں لیکن بظاہر تم سجدے کررہے ہوتے ہو۔ یہ ایسی ہی صورتحال ہے کہ جیسے ہم اللہ تعالی کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کررہے ہوں)
اختلاف کی گنجائش اپنی جگہ موجود ہے۔ ایسی باتوں پر تنقید بھی ان باتوں سے اتفاق نہ کرنے والوں کا حق ہے کہ یہ کچھ کہنے کی پاداش میں بابا جی پر بہت سے فتوے لگے تھے۔ ایسے ہی فتوؤں سے متاثر ہوکر تب بلھے شاہ کو قبرستان میں دفنانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا گیا تھا۔ ایسے افراد نے جنازہ پڑھایا اور پڑھا جنہیں عمومی طور پر معاشرے میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی۔ جنازہ پڑھائے جانے کے بعد انہیں آبادی سے دور لے جا کر الگ تھلگ جگہ پر دفن کردیا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج قصور میں بلھے شاہ کا مزار ہے اور پورا سال ایک زمانہ اس مزار پر حاضری کیلئے آتا ہے۔ وہ کون تھے جنہوں نے بابا جی کو کمیونٹی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا‘ وہ کون تھے جنہوں نے بلھے شاہ کا جنازہ پڑھایا تھا اور وہ کون تھے جنہوں نے اس جنازہ میں شرکت کی تھی‘ آج اُن کا کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن بابا بلھے شاہ جی کی آواز آج بھی گونج رہی کہ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں تے گورپیا کوئی ہور(بلھے شاہ ہم نے کبھی نہیں مرنا اور قبر میں مَیں تو نہیں کوئی اور پڑا ہے)۔ بابا بلھے شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح انگریزی ادب ولیم شیکسپیئر اور اردو ادب مرزا غالبؔ کا تذکرہ کیے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا‘ اسی طرح اگر پنجابی ادب کی بات ہو اور اس میں بلھے شاہ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بہت اچنبھے کی بات ہوگی۔ ان کے جیتے جی جو کچھ ان کے ساتھ ہوتا رہا‘ وہ دراصل ہمارے اسی طرزِ عمل کا عکاس رہا کہ ہمارے اندر کبھی سچ سننے کی ہمت پیدا ہو ہی نہیں سکی۔
سر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی‘لینا کی سر ٹوپی دھر کے
تسبیح پھیری پر دل نہ پھریا‘لینا کی تسبیح ہتھ پھڑ کے
چلے کیتے پر رب نہ ملیا‘لینا کی چلیاں وچ وڑھ کے
بلھے شاہ جاگ بنا دُدھ نئیں جمدا‘پانویں لال ہوئے کڑھ کڑھ کے
(ٹوپی تو سر پر پہن لی لیکن نیت کھوٹی کی کھوٹی ہی رہی تو پھر سر پر ٹوپی لینے کا کیا فائدہ۔ تسبیح کے دانے تو گرتے ہیں لیکن دل اچھائی کی طرف مائل نہیں ہوتا تو پھر کیا فائدہ تسبیح ہاتھ میں پکڑنے کا۔ بہت چلے کیے لیکن اللہ تعالی کو نہ پا سکے تو پھر کیا فائدہ چلے کرنے کا۔ بلھے شاہ جب تک دودھ کو جاگ نہ لگائی جائے تب تک یہ دہی نہیں بن سکتا چاہے اُبل اُبل کر لال ہوتا رہے)
1680ء میں پیدا ہونے والے بابا بلھے شاہ کی پنجابی شاعری کے جو کچھ رنگ آپ نے پڑھے ہیں‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی سب کچھ ویسے کا ویسا نہیں ہے جو کچھ ان کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے وہی کچھ لکھا جو کچھ انہوں نے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ تب بھی ان پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔آج بھی تنقید کے چند الفاظ منہ سے نکالنے کی دیر ہوتی ہے کہ کوتوال شہر کا درہ حرکت میں آجاتا ہے۔ ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ آخر آج کیوں کئی صدیوں بعد بھی بلھے شاہ کا کلام بالکل تروتازہ محسوس ہوتا ہے؟ اس لیے کہ انہوں نے سچ باتیں کی تھیں لیکن یہ الگ بات کہ انہیں تب برداشت کیا گیا اور نہ آج ایسی باتوں کو برداشت کیا جاتا ہے۔ نہ کبھی ہم نے سچ بولا اور نہ اپنے اندر سچ سننے کی ہمت پیدا کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہمارا معاشرہ 22کروڑ افراد کا ایک ایسا ہجوم بن چکا ہے کہ جس کے سامنے دور دور تک کوئی منزل ہی نظر نہیں آرہی۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ بھیڑ بکریوں کا یہ ہجوم کہاں جا کر کس دیوار سے اپنا سر ٹکرائے گا؟ بس جھوٹی باتوں اور نعروں کی افیون ہے جو معاشرے کو اس طرح سے گھول کر پلا دی گئی ہے کہ سچ تو جیسے اس شہر سے رخصت ہی ہو چکا۔ ایک ایسی ہڑبونگ مچی ہے کہ جس میں کوئی کچھ نہیں سمجھ پارہا کہ آخر کرنا کیا ہے۔ اگر کسی بات کا علم ہے تو وہ اس بات کا کہ بس زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنی ہے۔ یوں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں مساجد میں ہرروز پانچ وقت اللہ تعالی کی بڑائی بیان کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے ہر سال عمرہ کیلئے جانے والوں میں دوسرے نمبر پر ہمارے ہم وطن آتے ہیں۔ ہرکوئی پہلے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرتا ہے، اس کے بعد کوئی بات کرتا ہے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج ہمارا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا پاسپورٹ دیکھتے ہی غیرملکی امیگریشن افسران کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ کوئی ہمیں بھیک میں بھی چند ڈالر دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پٹرول کے نرخوں میں اضافے کی بات پھیلی تو ملک کے آدھے سے زیادہ پٹرول پمپ بند ہوگئے کہ سپلائی نہیں آرہی۔ جیسے ہی نرخوں میں اضافہ ہوا تو چند منٹوں کے دوران یہ سب کے سب پٹرول پمپ کھل گئے جیسے یکایک سٹیشنز کے اندر سے ہی پٹرول نکل آیا ہو۔ کبھی گندم کی ذخیرہ اندوزی تو کبھی آٹے کی مصنوعی قلت۔ سرکاری خزانہ شیرِ مادر تو قانون اور ضابطوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ کسی بھی ملک میں اگر اسلامی شعائر کی توہین کی جائے تو سب سے زیادہ احتجاج ہمارے ملک میں ہوتا ہے کہ ہم کسی طور یہ سب برداشت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف یہ عالم کہ جھوٹ میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک شخص نے قربانی نہ کی کہ اُس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور جب اُس کی وفات کے بعد اُس کی جائیداد کی تقسیم کا معاملہ عدالت میں آیا تو پوری دنیا حیران رہ گئی۔ عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق اُس شخص کے پاس پانچ ارب روپے سے زائد کا ہارڈ کیش موجود تھا۔ کیا یہ تمام صورتحال ظاہر نہیں کرتی کہ ہم منافقت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ مختصراًصورتحال کچھ ایسی ہی ہے؛
پڑھ پڑھ علم کتاباں سبے‘ نام رکھ لیا قاضی
پھڑ تلوار دلار بنیا‘ نام رکھ لیا غازی
مکے جاکے حج گزاریں‘ نام رکھ لیا حاجی
پر بلھے شاہ توں کجھ نہ کیتا‘ جے توں یار نہ کیتا راضی
(بے شمار کتابیں پڑھ کر تم نے اپنا نام قاضی رکھ لیا ہے۔ ہاتھ میں تلوار پکڑ کرتم خود کو غازی کہلوانے لگے ہو۔ مکے جا کر حج کیے اور نام رکھ لیا حاجی۔ پر بلھے شاہ تم نے کچھ نہیں کیا اگر تم نے یار کو راضی نہیں کیا)
ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں لیکن کبھی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اور اگر کوئی ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرے گا تو پھر وہ ہوگا اور کوتوالِ شہر کا درہ اور ہماری لعن طعن کہ ہمیں سچ سننے کی عادت ہی نہیں رہی۔ اسی لیے تو سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved