اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر ہونے کی وجہ سے نائن الیون کا سانحہ پیش آنے والے دن میں نیویارک میں تھا۔اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں سیکرٹری جنرل کوفی عنان سمیت عالمی ادارے میں متعین سفارتکاروں اور اس کے مختلف اداروں کے سربراہان کے ناشتے کی دعائیہ میٹنگ (Prayer Breakfast Meeting) کے عین درمیانی لمحات میں اچانک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے جہاز ٹکرانے کی خبر آئی۔ہمیں کہا گیا کہ خاموشی سے باہر نکل جائیں۔ہم خود کار سیڑھیوں سے اتر کر زیریں لابی میں پہنچے تو ٹی وی سکرین پر ایک اور جہاز کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دوسری عمارت سے ٹکراتا دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ عمارت سے آگ اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کسی عمارت سے جہاز ٹکرا جانے کا معمولی واقعہ نہیں ؛بلکہ یہ دہشت گردی اور وحشت ناک ظلم کی بے رحمانہ کارروائی ہے۔ مین ہیٹن کے علاقے میں سراسیمگی پھیل گئی۔ کوئی نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ دل دہلانے والے شیطانی فعل کے مرتکب لوگ بے چہرہ تھے۔ٹیلی ویژن سکرینیں مین ہیٹن کی فضا میں ایستادہ نیویارک سٹی کے ثقافتی نشان کو زمین بوس ہوتے دکھا رہی تھیں۔ آگ کے مہیب شعلوں اور گہرے دھوئیں کے بادلوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اگلے دن امریکہ کے پرنٹ میڈیا نے دہشت گرد حملوں کو ’’ خون آلو دمنگل‘‘، ’’جنگی کارروائی‘‘، ’’بے پناہ تباہی‘‘، ’’ عظیم سانحہ‘‘، ’’نفرت انگیز جرم‘‘ اور امریکی تاریخ کا ایسا المیہ قرار دیا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ واشنگٹن کا ’’ غضبناک‘‘ مُوڈ دنیا سے اس کے پہلے طرز تخاطب سے عیاں تھا… ’’ آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا پھر مخالف ہیں‘‘۔ یہ پیغام نہایت بلند آہنگ اور واضح تھا۔ دنیا بھر کے ملکوں کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے لیے فوری طور پر سیاہ وسفید (Black and White) میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیا۔ واشنگٹن کے اعلیٰ حکام اور امریکی میڈیا پاکستان سے کھلے عام پوچھ رہا تھا کہ وہ ہمارا ’’پارٹنر‘‘ بننا چاہتا ہے یا ’’ٹارگٹ‘‘؟ بلاشبہ ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں ٹاورز کے اچانک غائب ہوجانے کا سانحہ نہ صرف دنیا کی تاریخ بدلنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا بلکہ اس سے عالمی سطح پر جیو پولیٹیکل نقشے کے خدوخال تبدیل ہونے کا بھی آغاز ہوگیا۔ دنیا کی واحد سپر پاور‘ امریکہ‘ سرتاپامغلوب الغضب تھی اور اس نے اپنے ردعمل کی نوعیت اور اس کی شدت کے پیمانے کا تعین کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔سفارتی محاذ پر نہایت سرعت کے ساتھ عالمی لیڈروں سے رابطے کیے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ’’ بین الاقوامی اتحاد ‘‘ تشکیل دینے کی جدوجہد شروع کردی۔ امریکی میڈیا نے حکومت کی ان کوششوں کی مکمل حمایت کی۔ مختلف خطوں اور مذاہب کے تنوع کے باوجود عالمی برادری اور میڈیا نے یک زبان ہوکر بے ساختہ انداز میں دہشت گرد حملوں کی مذمت کی اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل جل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ امریکہ نے نیٹو کو انسداد دہشت گردی کی مہم میں شریک کرنے کے علاوہ سانحے کے اگلے ہی روز اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی سے بھاری اکثریت کی حمایت سے سخت قرار دادیں منظور کرائیں جن میں دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا استحقاق موجود تھا۔ دو ہفتے بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے عملاً فوجی کارروائی کرنے کی زیادہ واضح قرار داد بھی منظور کرالی۔ 28 ستمبر 2001ء کی قرارداد نمبر 1373 کے تحت اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کئے جاسکتے تھے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاول نے وسیع سفارتی کوششوں کے ذریعے اتحادی ممالک سے رابطے کیے اور باقی ممالک کو اس مضمون کے سخت پیغامات بھیجے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔پاکستانی حکومت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اُن پہلے رہنمائوں میں شامل تھے جنہیں واشنگٹن سے ’’ناقوس‘‘ کی آواز سنائی دی۔کولن پاول نے 12ستمبر کو رات گئے ٹیلی فون کرکے پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف مکمل حمایت اور تعاون کا تقاضا کیا۔ایک جنرل نے دوسرے جنرل کو دوٹوک اور سنجیدہ پیغام دیا کہ ’’اگر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں تعاون نہ کیا تو امریکی عوام کے لیے یہ بات بعیداز فہم ہوگی‘‘۔ جنرل مشرف نے مطلوبہ حمایت اور تعاون سے بھی بڑھ کر مدد کرنے کا وعدہ کرنے میں کوئی تامل نہ کیا۔13ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اب امریکہ‘ دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور اس نیٹ ورک کو پناہ دینے ، ان کی حمایت اور تعاون کرنے والوں کا تعاقب کرنے کے لیے تیار ہے ۔اسی دن صدر بش نے پاکستان کی تعاون پر آمادگی کی تعریف کرتے ہوئے اسے دہشت گردوں کو پکڑنے اور مارنے کی مہم میں شریک ہونے کا موقع دینے کی بات کی۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ میڈیا نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مختلف پہلوئوں پر مختلف انداز میں رائے زنی کی۔ صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی نائن الیون کے حملوں پر کئی طرح سے ردعمل ظاہر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا راستہ اختیار کیا جس کا نہ کوئی حتمی انجام ہوگا اور نہ دشمن نظر آسکے گا۔ کیا انہوں نے جنگ کا راستہ اس لیے اختیار کیا کہ امریکی عوام کو تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے ؟ یا انہوں نے زیادہ سیاسی اور اقتصادی طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کیا ؟ ان سوالوں کے جواب تاریخ پر قرض ہیں۔اب تک کم از کم ایک بات واضح ہوچکی ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے افغانستان پر باقاعدہ حملہ کردیا۔اس نے طالبان کو اقتدار سے محروم کردیا لیکن وہ انہیں کبھی شکست نہ دے سکا۔ بارہ برس کے بعد وہ صرف تزویری جیت کی بات کررہا ہے جس میں وہ افغانستان سے فوجیں واپس بلالے گا لیکن مکمل طور پر نہیں۔ کم از کم اس وقت تک 2014ء میں افواج کی واپسی کے سوا امریکہ کے پاس مذاکرات کی کوئی حکمت عملی نہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اس بحران زدہ خطے میں امن کا کوئی منصوبہ بھی پیش کرنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ اپنے پیچھے انسداد دہشت گردی اور ٹریننگ کے لیے مناسب تعداد میں فوج چھوڑنے کے سوا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا۔ افغانستان کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ افغانوں کی سرزمین پر بیرونی فوج کی موجودگی کا کیا مطلب ہوگا‘ چاہے یہ کسی بھی انتظام اور کسی بھی نام کے تحت رکھی جائے۔ اس پس منظر میں کوئی بھی شخص ما بعد 2014ء ‘کسی امید افزا منظر نامے کی توقع نہیں کرسکتا۔ تزویری نتائج کے امکانات تشویشناک ہیں۔ اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ افغان جنگ بذات خود کوئی مقصد نہیں تھی۔ یہ وسطی ایشیا پر فوکس کرنے کے ’’بڑے کھیل‘‘ کا ایک حصہ تھی جس کا مقصد اس خطے کے تیل اور گیس کے وسائل پر بلاشرکتِ غیرے کنٹرول حاصل کرنا اور اس عمل کے دوران چین کا اثرورسوخ اس کی مغربی سرحدوں تک محدود رکھنا ہے۔ چین کے اردگرد غیر معمولی نوعیت کے سٹریٹیجک کائونٹر پریشر پوائنٹ پہلے ہی پیدا کیے جارہے ہیں جن میں کرغیزستان اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی کے علاوہ چین کے قریب ہمسایوں بشمول بھارت کے ساتھ فوجی اتحاد تشکیل دینا شامل ہے۔ خاص طور پر چین کے مقابلے میں بھارت کو جوہری طاقت بنانے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ ایران، پاکستان، افغانستان اور ترکی کے علاوہ سابق سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی چھ ریاستوں پر مشتمل اقتصادی تعاون کونسل (ایکو) کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے میں نے 1990ء کی دہائی کے دوران اس خطے میں تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کا نیٹ ورک بچھانے کی تجویز پر اتفاق رائے حاصل کیا لیکن اس پر افغانستان میں جاری جنگ کی وجہ سے عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ ناقابل یقین خیال ذہن پر ضرور دستک دیتا ہے کہ 1990ء کی دہائی میں طالبان کا ایک طاقت بن کر ابھرنا اور نائن الیون کے بعد افغانستان کا عبرتناک حالت کو پہنچنا ایک ہی ’’بڑے کھیل‘‘ کی دو کڑیاں ہیں۔ اس خطے میں کوئی نہیں جانتا کہ حقیقی آخری کھیل (Real Endgame) کی خاطر کون کس کواستعمال کررہا ہے۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved