تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-02-2023

آنکھوں دیکھی مکھیاں

انسان بھی کیا ہی عجیب واقع ہوا ہے۔ کسی بھی مخلوق کے معمولات کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ وہ جب کسی معاملے میں نقصان اٹھاتی ہے تو غلطی کے اعادے سے یکسر گریز کرتی ہے۔ ہم پالتو جانوروں کو بھی دیکھتے ہیں کہ جب انہیں کسی جگہ تکلیف پہنچتی ہے تو وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ چرند‘ پرند سب کا یہی حال ہے۔ اگر پرندوں کو کسی چَھجّے پر کرنٹ لگ جائے تو اس پر بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طور اگر کوئی گروہ مویشیوں کو مارتا پیٹتا ہو تو وہ اس طرف جانے سے اجتناب برتتے ہیں مگر انسان؟ وہ کہاں سدھرنے والا ہے؟ اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جس معاملے سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے‘ اسی کی طرف زیادہ لپکتا ہے۔ کیوں؟ عادت سے مجبور ہے!
انسان کی پختہ ترین عادت ہے سبق نہ سیکھنے کی۔ ہم عمومی سطح پر زندگی بھر غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ کسی بھی غلطی کو دہرانے سے بچنا ممکن ہے مگر اس کے لیے قوتِ ارادی‘ قوتِ فیصلہ‘ ذوقِ عمل اور ضبطِ نفس کی ضرورت پڑتی ہے۔ غلطیوں کا اِعادہ بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں قوتِ ارادی کس حد تک ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ضبطِ نفس کس سطح پر ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے سے بچنا ناممکن نہیں ہوتا مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کیوں؟ قوتِ ارادی کی کمی سے یا پھر ضبطِ نفس کی تربیت میں کمی رہ جانے کے باعث۔ تربیت میں کمی رہ جائے تو انسان کسی اچھے کام کو بھی بگاڑ بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں خرابی کو واقع ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے مگر کچھ کر نہیں پاتا۔ قوتِ ارادی کے سطح اس بات کا تعین کرتی ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں کہاں تک جا سکتا ہے‘ معاملات کو اپنے ہاتھ میں کس طور رکھ سکتا ہے اور جو توقعات اس سے وابستہ کی جائیں اُنہیں بارآور ثابت کرنے کا ذہن بنا سکتا ہے یا نہیں۔
ہم روزمرہ معاملات میں یا اپنے معمولات میں ایسا بہت کچھ دیکھتے ہیں جو ہمیں باور کراتا ہے کہ انسان کو غلطیوں کے اعادے سے بچنا چاہیے۔ ہر طرح کے ماحول میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ملتے ہیں جو کسی بھی معاملے میں اپنے اعمال سے کوئی خاص سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور جو غلطیاں لے ڈوبتی ہیں انہیں دہراتے رہتے ہیں۔ غلطیوں کا اعادہ انسان کو شدید نوعیت کی الجھنوں سے دوچار کرتا ہے مگر پھر بھی وہ اصلاحِ نفس کی طرف نہیں آتا۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ لوگ اپنی غلطیوں سے سبق کیوں نہیں سیکھتے اور اپنے معاملات کو درست کرنے والی ذہنیت پروان چڑھانے پر مائل کیوں نہیں ہوتے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے ہم بہت دور بھی جا سکتے ہیں۔ کہانی صرف اتنی ہے کہ انسان اپنے مزاج اور عادات سے مجبور ہے۔ تن آسانی انسان کو بہت سے معاملات میں خرابیوں کی طرف دھکیلتی رہتی ہے مگر وہ کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا اور کسی نہ کسی طور معاملات کو دھکا دیتا رہتا ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا عمل اس لیے جاری رہتا ہے کہ لوگ اپنے معاملات پر غور نہیں کرتے‘ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرکے ان سے کوئی سبق سیکھنے پر مائل نہیں ہوتے اور کسی بھی غلطی کے اعادے سے پہنچنے والے حقیقی نقصان کا اندازہ لگانے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ زندگی آنکھیں بند کرکے جیے جانے کا نام نہیں۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ کون سا معاملہ ہمارے لیے کس نوعیت کی پیچیدگی یا الجھن پیدا کرسکتا ہے۔ کوئی بھی معاملہ نہ تو بلا سبب ہوتا ہے اور نہ ہی نتائج پیدا کرنے کی صلاحیت سے عاری۔ ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔
زندگی تفاعل کا نام ہے۔ ہر شخص فکر و عمل کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ہر انسان کے اعمال بہت سوں کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کرتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے اور کرتے ہیں‘ اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچنا بھی ہمارا ہی کام بلکہ فرض ہے۔ کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ عمومی سطح پر تو ایسا نہیں ہو رہا۔ بہت کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور نقصان دہ ہے مگر ہم ہوش کے ناخن لینے اور اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اسے ہونے دیا جائے اور خود بھی اس میں شریک ہوا جائے۔
ایک زمانے سے پاکستانی معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ زندگی کو لگے بندھے طریق کے تحت بسر کیا جائے۔ نئی سوچ سے دور بھاگنا فیشن کے سے درجے میں رہا ہے۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوش ربا نوعیت کی پیش رفت نے بہت کچھ بدل گیا ہے مگر فکری ساخت وہیں کی وہیں ہے۔ دنیا کی سوشل میڈیا پوسٹیں دیکھ کر بھی لوگ اپنی سوچ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز دنیا کو سمیٹ کر ہمارے سامنے رکھ رہے ہیں اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں مگر ہم کچھ خاص سیکھنے پر آمادہ نہیں۔
لوگ نیا سیکھنے پر مائل کیوں نہیں ہو رہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش ہمیں انسانی مزاج کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ کیا ہمارا مجموعی مزاج یہ نہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اسے ہوتے رہنے دیا جائے؟ معاملہ تو یہی ہے۔ معاملات کو ہلانے سے گریز کی روش صرف اس لیے ہے کہ درستی کے لیے کی جانے والی کسی بھی کوشش میں انسان کو بہت کچھ کھپانا پڑتا ہے‘ اپنے چند ایک مفادات سے دست بردار بھی ہونا پڑتا ہے۔ اس راہ پر چلنے کی صورت میں کوئی ناراض بھی ہوتا ہے۔ حق کا ساتھ دینے اور ناحق کے خلاف ڈٹ جانے میں یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑتا ہے۔ ہم اس سے بھاگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں حق پرستی کی روش کمزور پڑتی جاتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں اکثریت آنکھوں دیکھی مکھیاں اس وقت نگلتی ہے جب وہ حقیقت پسندی اور غور و خوض کی عادت سے کنارہ کش ہو جاتی ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر تدبر سے کام لینے کا تقاضا کرتی ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی مکمل طور پر جامد نہیں۔ کچھ نہ کچھ ہر آن بدل رہا ہے۔ بظاہر بالکل ٹھہرے ہوئے معاشرے بھی مکمل طور پر ٹھہرے ہوئے نہیں ہوتے۔ اس کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ کچھ لوگ آپ کی آنکھوں کے سامنے کچھ ہی مدت میں ترقی کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ کیسے ترقی کر لیتے ہیں؟ بہت سے کاروباری افراد کو آپ دیکھیں گے کہ تھوڑی سی منصوبہ سازی اور اَنتھک محنت کے نتیجے میں چار پانچ سال میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ جب معاشرہ ٹھہرا ہوا ہے تو یہ کیسے آگے بڑھ گئے؟ اس بات کا اطمینان رکھیے کہ مکمل جامد معاشرہ کوئی بھی نہیں۔ پنپنے کی گنجائش ہر معاشرے میں ہوتی ہے۔ جو محنت کرتے ہیں وہ صلا پاتے ہیں۔
نئی نسل کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سے معاملات کا خیال رکھنا ہے۔ اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی بڑی اور خطرناک غلطی کو دہرانے سے بچا جائے۔ ترقی کی راہ ہموار ہوگی تو صرف اس وقت جب آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے سے گریز کیا جائے گا یعنی غلطیوں کے اعادے سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اگر صورتحال گنجائش ہی نہ چھوڑے تو بات اور ہے وگرنہ ہر انسان کو اپنے معاملات سے سبق سیکھتے ہوئے غلطیوں کے اعادے سے بچنا ہی چاہیے۔ لوگ اس حقیقت پر بھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جب کسی غلطی کا اعادہ کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب دل و دماغ کو تھوڑی بہت تکلیف اور الجھن کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ اپنے ہی ہاتھوں رونما ہونے والے نقصان کے باعث دل کو تھوڑا بہت رنج ضرور ہوتا ہے اور پچھتاوا بھی۔ دانش مندی تو یہ ہے کہ انسان ایسا کام نہ کرے جس پر پچھتاوا ہو۔ کوئی بھی غلط کام دانستہ کیا جائے تو دل و دماغ کو زیادہ تکلیف دہ کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا ''فن‘‘ بالآخر انسان سے جینے کا ہنر چھین لیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved