میں جب'' وَینو آتو‘‘ اُترا تو دوپہر ہونے والی تھی ! گرمی تھی اور تیز دھوپ! لیکن چاروں طرف جو سمندر وَینو آتو کو گھیرے ہوئے تھا‘ اُس کی طرف سے خنک ہوا چل رہی تھی۔
کئی ہفتے پہلے اسرار نے بتایا کہ ابّو! آپ کو وَینو آتو دکھانا ہے۔ میں سمجھا آسٹریلیا ہی کا کوئی حصہ ہو گا کہ اس سب سے چھوٹے بر اعظم اور سب سے بڑے جزیرے کی مکمل سیر تو ہو نہیں سکتی ! مگر بتایا گیا کہ یہ ایک الگ ملک ہے۔ تعجب ہوا کہ بہت دنیا دیکھی کہ بقول سعدی :
در اقصأ عالم بگشتم بسی
بسر بردم ایّام با ہر کسی
تمتّع ز ہر گوشہ یافتم
ز ہر خرمنی خوشہ یافتم
'' دنیا کے اطراف میں بہت گھوما ہوں۔ ہر قسم کے آدمی کے ساتھ وقت گزارا۔ ہر کونے سے مستفید ہوا اور غلّے کے ہر ڈھیر سے بالی اٹھائی!‘‘ مگر اس ملک کا نام تک نہیں سنا۔ کہیں راتوں رات تو دنیا کے نقشے پر یہ نہیں نمودار ہو گیا!
یہ عجیب و غریب ملک جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں فجی کے جزائر ہیں اور مغرب میں شمالی آسٹریلیا! جنوب میں نیوزی لینڈ ہے۔ یہ 83 چھوٹے بڑے جزیروں کا مجموعہ ہے۔ 65 جزیرے غیر آباد ہیں۔ پورٹ وِلا دارالحکومت ہے۔جس جزیرے میں دارالحکومت واقع ہے اس کا نام ایفاتے ہے۔ وینو آتو کے اصل باشندے افریقیوں کی طرح ہیں۔ بال لمبے نہیں ہوتے۔ کچھ تو مینڈھیاں کر لیتے ہیں۔ لوگ خوش مزاج ہیں۔آپ بات کریں گے تو مسکرا کر جواب دیں گے۔ اکثر خواتین ملازمت کرتی ہیں۔شام کو جوڑے ساحلوں پر چہل قدمی کرتے پائے جاتے ہیں۔ بغیر شادی کے ''پارٹنر‘‘ کے طور پر رہنے کا رواج عام ہے۔ خواندگی کا تناسب تقریباً نوے فیصد ہے۔ ہر مرد اور ہر عورت انگریزی میں بات چیت کر سکتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کی نسبت یہ لوگ زیادہ مہذب ہیں۔ تہذیب‘ یا بد تہذیبی‘ کی ایک علامت ٹریفک بھی ہے۔ان کے ہاں ٹریفک حد درجہ قانون کی پابند ہے۔ سڑکوں پر جو نشان بنے ہوئے ہیں اور لکیریں کھنچی ہوئی ہیں‘ موٹر سوار سختی سے ان کی پابندی کرتے ہیں! کرنسی بھی ہماری کرنسی سے زیادہ مضبوط ہے۔ ان کی کرنسی کا نام'' واتو‘‘ ہے۔ ایک امریکی ڈالر کے بدلے میں ایک سو اٹھارہ واتو مل جاتے ہیں‘ ناریل کی پیداوار حد سے زیادہ ہے۔ ناریل پیتے بھی ہیں‘ کھاتے بھی ہیں‘ سالن میں بھی ڈالتے ہیں! اس قدر افراط ہے اس پھل کی جیسے ہمارے گاؤں کے ارد گرد بیریوں پر بیر ہوتے تھے۔ مشرق بعید کے بہت سے ملکوں میں انناس کھایا ہے مگر جو مٹھاس اور رسیلاپن وَینو آتو کے انناس میں ہے‘ کہیں نہیں ملا۔مسلمانوں کی تعداد سارے جزیروں میں کل ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ( ملک کی کل آبادی تقریباً سوا تین لاکھ ہے )۔ حلال گوشت مشکل سے ملتا ہے مگر ''کوشر‘‘ عام دستیاب ہے۔ بین الاقوامی پروازوں کے لیے '' ایئروَینوآتو‘‘ کی ملکیت میں ایک ہی جہاز ہے جو مسافروں کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ لے جاتا ہے اور وہاں سے لاتا بھی ہے۔ ہو سکتا ہے اندرونی پروازوں کے لیے چھوٹے جہاز زیادہ ہوں۔
ہم جس سرائے میں قیام پذیر تھے‘ وہاں استقبالیہ سے لے کر اکاؤنٹس تک اور ویٹر سے لے کر چیف منیجر تک‘ اکثریت خواتین کی تھی۔ ایک شام ہمیں روایتی قبائلی رقص دکھا ئے گئے اور گیت سنائے گئے۔ مردوں کے ہاتھ میں لمبے لمبے ڈنڈے تھے جن کا ایک سرا بندوق کے بٹ کی طرح چوڑا تھا۔ وہ دائرے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے جاتے تھے‘ ناچتے جاتے تھے اور گاتے جاتے تھے۔ کچھ رقص مردوں اور عورتوں کے مخلوط بھی تھے۔ یہ لوگ مخصوص قسم کی آوازیں بھی نکالتے تھے۔ یہ آوازیں اُس زمانے کی یادگار ہیں جب یہ لوگ جنگلوں میں رہتے تھے اور ان مخصوص آوازوں کا مطلب مختلف اقسام کی پیغام رسانی تھی جیسے کسی کو تلاش کرنا‘ یا خطرے کی نشاندہی کرنا یا مدد کے لیے پکارنا! حاضرینِ مجلس کو بھی رقص کی دعوت کی گئی اور کچھ افراد نے ان کی دعوت قبول کر کے ان کے ساتھ رقص کیا اور گیت گائے۔
جزیروں کا سب سے بڑا چارم اور کشش ان کے ساحل (Beaches) ہوتے ہیں۔فجی ہے یا بالی یا وَینو آتو یا دوسرے جزائر‘ سیاحوں کی آمد کی وجہ ان کے ساحل ہیں جہاں وہ تیراکی کرتے ہیں اور دھوپ میں لیٹ کر غسلِ آفتابی کرتے ہیں۔ وَینو آتو کے مختلف‘ آباد جزیروں میں سیاحوں کا ہجوم اسی مقصد کے لیے رہتا ہے ورنہ یہاں تاریخی عمارتیں ہیں نہ شاپنگ کی سہولتیں۔ یہاں سیاحوں کا ایک خاص مشغلہ Snorkelling ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی تیراکی ہے۔اس میں تیرنے والا سطح سمندر پر منہ نیچے کر کے اور پشت اوپر کر کے لیٹ جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں‘ ناک اور منہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔ سر پر ایک خاص قسم کا آلہ پہنا ہوتا ہے جس میں سے ایک ٹیوب اوپر کو نکلی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ سانس لینے میں مدد دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا فائدہ اور اس میں لطف یہ ہے کہ جب آنکھیں پانی کے اندر ہوتی ہیں تو پانی کی دنیا صاف نظر آتی ہے۔ مچھلیاں‘ کیکڑے‘ پانی میں اُگے ہوئے پودے اور ان کے علاوہ بھی بہت کچھ دکھائی دیتا ہے۔ یہ سمندر کے اندر کی وہ دنیا ہے جو اوپر سے نظر نہیں آتی۔
Snorkelling کرنے والے کئی کئی گھنٹے اس شغل میں گزار دیتے ہیں۔ یہ اب ایک پوری سائنس بن چکی ہے۔ اس کی تفصیلی ہدایات ہوتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا۔ دو خطروں سے آگاہی ضروری ہے۔ ایک تیز دھوپ جو پشت کو متاثر کر سکتی ہے۔ دوسرے جسم میں پانی کی کمی! اس کھیل کے لیے سمندر کا وہ حصہ چنا جاتا ہے جو کم سے کم خطرناک ہو۔ اکیلے تیراک کی نسبت گروپ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہم جس کشتی میں سوار تھے اور جو اسی مقصد کے لیے سمندر میں ایک خاص مقام پر لے جائی گئی‘ اس میں سے سات آٹھ عورتیں اور مرد سمندر میں اس مقصد کے لیے کودے۔ ان میں ایک بارہ سالہ بچی اور ایک سات سالہ بچہ بھی تھا۔ انہوں نے کشتی سے سمندر میں چھلانگ لگائی تو میں نے خوف کے مارے آنکھیں بند کر لیں۔مگر انہوں نے انتہائی ماہرانی انداز میں تیراکی کی اور تھوڑی دیر کے بعد Snorkelling شروع کر دی۔ گروپ میں عمر رسیدہ خواتین بھی شامل تھیں۔
ہمیں ایک گاؤں میں لے جایا گیا۔ گاؤں کے سامنے سمندر تھا اور پیچھے پہاڑ۔ چھوٹا سا ٹاپو نما جزیرہ ہے جس میں یہ گاؤں صدیوں سے آباد ہے۔ سیاح آتے ہیں تو گاؤں کی عورتیں اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزیں سجا کر رکھتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا بازار بن جاتا ہے۔ ناریل کے درختوں کے پتوں اور شاخوں سے بنائے گئے پنکھے‘ ٹوکریاں اور پرس سیاحوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔انگوٹھیاں اور ہار بھی ہوتے ہیں۔ گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ ہاں سولر سسٹم سے کچھ گھروں میں پنکھے چل رہے تھے اور روشنی کا انتظام تھا۔گاؤں میں پرائمری سکول بھی تھا۔ اکثر عورتیں اور مرد انگریزی میں بہت سہولت سے بات چیت کر رہے تھے۔ ناریل کے درخت بے شمار تھے جو ناریل سے لدے تھے۔ زمین پر بھی ادھر ادھر ناریل پڑے تھے۔ ہمیں چائے پلائی گئی۔ ساتھ ناریل کے ٹکڑے تھے اور بسکٹ!
اگلی نشست میں وہ حالات شیئر کیے جائیں گے جن سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ ضعیفی بہت بڑا جرم ہے۔یعنی استعمار نے وَینو آتو کا کیا حال کیا اور استعماری قوتیں قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے کیسے آپس میں متحد ہو گئیں !!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved